غزل بعنوان "کوچ" اصلاح کے لئے پیش ہے

ہزج مثمن سالم مضاعف
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
یوں تو ہیں پہلو بہت تاریک سارے کوچ کے
ہیں مگر خانہ بدوشوں کو سہارے کوش کے
ایک مدت سے بسے ہیں ہم نئے اس شہر میں
گونجتے ہیں ذہن میں لیکن نقارے کوش کے
رزق لکھا ہے اندھیروں میں اگر اس شہر کے
آسماں پر کیوں چمکتے ہیں ستارے کوچ کے
قحط الفت، رنج و غم اور بے سرو سامانیاں
شام کی بڑھتی اداسی میں نظارے کوچ کے
خلق کی بے زاریاں، احباب کی یہ بے رخی
تم نہ مانو --ہیں مگر سارے اشارے کوچ کے
 

فاتح

لائبریرین
دوسری اصلاح یہ کہ آپ کا کوئی ایک مصرع بھی "مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن" کے وزن پر نہیں ہے۔
جس نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ یہ بحر ہزج ہے اس نے آپ کے ساتھ بھیانک مذاق کیا ہے۔ یہ بحر رمل ہے۔
 
ماشاءاللہ اچھی غزل ہے ۔بہت داد قبول ہو۔
کہیں کہیں ٹائپو ہے کوچ کی بجائے کوش لکھا گیا ہے

لفظ نقّارے کو بھی دیکھ لیں۔ فاتح بھائی نے جن دو باتوں کی طرف اشارہ کیا وہ بھی ہیں
 

کاشف اختر

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ ،بحر کا نام آپ نے غلط بتایا ، کوئی بات نہیں ،اس میں تو بڑے بڑے اساتذہ سے غلطی ہوجاتی ہے،
 

الف عین

لائبریرین
بڑی بڑی اغلاط گنوائی جا چکی ہیں۔ اگر ہر جگہ کوچ کو درست بھی مانا جائے ، تب بھی ردیف کہیں کہیں درست نہیں استعمال ہوئی ہے۔ نظارے اور سہاے کوچ کے کس طرح ہو سکتے ہیں۔
 
بعد از سلام انتہائی معذرت کے ساتھ---تمام بھیانک غلطیوں کے لئےمعافی چاہتا ہوں۔۔۔ در اصل مجھے غزل کی تقطیع کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں، یہ رپورٹ "عروض" کے سیکشن میں اصلاح کے ساتھ درج تھی جو میں نے غور کیے بغیر نقل کردی۔۔۔ آئندہ محتاط رہوں گا۔۔
دوبارہ پیش کرتا ہوں--
غزل
رمل مثمن محذوف
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

یوں تو ہیں پہلو بہت تاریک سارے کوچ کے
ہیں مگر خانہ بدوشوں کو سہارے کوچ کے
ایک مدت سے بسے ہیں ہم نئے اس شہر میں
گونجتے ہیں ذہن میں لیکن نقارے کوچ کے
رزق لکھا ہے اندھیروں میں اگر اس شہر کے
آسماں پر کیوں چمکتے ہیں ستارے کوچ کے
قحط الفت، رنج و غم اور بے سرو سامانیاں
شام کی بڑھتی اداسی میں نظارے کوچ کے
خلق کی بے زاریاں، احباب کی یہ بے رخی
تم نہ مانو --ہیں مگر سارے اشارے کوچ کے​
 
Top