غزل بغرض اصلاح

محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب

آپ خوش قسمت ہیں دشمناں سے ڈرتے ہیں
ہم کو بھی تو دیکھو جو پاسباں سے ڈرتے ہیں

رنگ وہ چڑھا دے گا بات پر مری اپنا
اس لیے ہی ہم اپنے ترجماں سے ڈرتے ہیں

ہم سفر تو ڈرتے ہیں سازشی ہواٶں سے
اور ہم سفینے کے بادباں سے ڈرتے ہیں

پھل ہمیں وہ دے گا کیا باغ کہ شجر جس کے
خوف میں گھرے ہیں سب باغباں سے ڈرتے ہیں

دھوپ میں جلے ہو تم، ڈھونڈتے ہو سائباں
ہم جلے جو سائے میں، سائباں سے ڈرتے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ خوش قسمت ہیں دشمناں سے ڈرتے ہیں
خوش قسمت میں خوش کا تلفظ اس طرح درست نہیں ۔ خش بولا پڑھا اور باندھا جاتا ہے اشعار میں بھی۔ وزن درست نہیں رہتا اس طرح ۔
دشمناں بھی حیدر آبادی انداز لگتا ہے ۔۔۔
اور آپ کے ساتھ دیکھو ذرا نامناسب ہے ۔ تم دیکھو ۔۔۔یا آپ دیکھیے۔ ہو نا چاہیے ۔
اس لیے ہی ہم اپنے ترجماں سے ڈرتے ہیں
ہی ہم ۔۔۔ساتھ ساتھ نہ ہوں تو بہتر ہے ۔۔۔ جیسے ۔۔۔ ہم اسی لیے اپنے۔
مری کے ساتھ ہم بھی ٹھیک نہیں لگ رہا ۔


دھوپ میں جلے ہو تم، ڈھونڈتے ہو سائباں
ہم جلے جو سائے میں، سائباں سے ڈرتے ہیں
دوسرے مصرع میں سائباں جیسے باندھا ہے اسی طرح پہلے مصرع میں ہو ۔۔۔ سائے باں عجیب سا لگ رہا ہے ۔
 
”خوش قسمت میں خوش کا تلفظ اس طرح درست نہیں ۔ خش بولا پڑھا اور باندھا جاتا ہے اشعار میں بھی۔ وزن درست نہیں رہتا اس طرح ۔
دشمناں بھی حیدر آبادی انداز لگتا ہے ۔۔۔
اور آپ کے ساتھ دیکھو ذرا نامناسب ہے ۔ تم دیکھو ۔۔۔یا آپ دیکھیے۔ ہو نا چاہیے ۔

ہی ہم ۔۔۔ساتھ ساتھ نہ ہوں تو بہتر ہے ۔۔۔ جیسے ۔۔۔ ہم اسی لیے اپنے۔
مری کے ساتھ ہم بھی ٹھیک نہیں لگ رہا ۔



دوسرے مصرع میں سائباں جیسے باندھا ہے اسی طرح پہلے مصرع میں ہو ۔۔۔ سائے باں عجیب سا لگ رہا ہے ۔“
آپ تو فقط اپنے دشمناں سے ڈرتے ہیں
دیکھیے ہمیں بھی ہم پاسباں سے ڈرتے ہیں
پھل کبھی نہیں دے گا باغ وہ شجر جس کے
خوف میں گھرے ہیں سب باغباں سے ڈرتے ہیں
دھوپ میں جلے ہیں جو ڈھونڈتے ہیں سایا وہ
ہم جلے جو سائے میں سائباں سے ڈرتے ہیں
ہم سفر تو ڈرتے ہیں سازشی ہواٶں سے
اور ہم سفینے کے بادباں سے ڈرتے ہیں
لہجے سے بدل دیتا ہے وہ بات کے معنی
ہم اسی لیے اپنے ترجماں سے ڈرتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
دشمناں اضافت کےساتھ ہو تو قابل قبول ہے، ورنہ نہیں
یہ بحر بھی منقطع بحر ہے، یعنی فاعلن مفاعیلن دو بار، اور ہر فاعلن مفاعیلن میں بات مکمل ہونی چاہیے، آخری شعر میں جوترتیب ہے، وہ بھی درست نہیں لگتی۔ دیتا.... ہے الگ الگ افاعیل میں ترتیب پا رہا ہے
 
دشمناں اضافت کےساتھ ہو تو قابل قبول ہے، ورنہ نہیں
یہ بحر بھی منقطع بحر ہے، یعنی فاعلن مفاعیلن دو بار، اور ہر فاعلن مفاعیلن میں بات مکمل ہونی چاہیے، آخری شعر میں جوترتیب ہے، وہ بھی درست نہیں لگتی۔ دیتا.... ہے الگ الگ افاعیل میں ترتیب پا رہا ہے
بہت شکریہ سر 🌹🌹🌹
 
Top