آپ کا بہت بہت شکریہ محترم جناب فارقلیط رحمانی سر۔ لیکن آپ کلام کے بارے میں ضرور بتا سکتے ہیں کہ آپ کو کلام کیسا لگا۔ تا کہ میں اور محنت کر سکوں۔حضورِ والا! علم عروض ہم نے پڑھا ضرور ہے، لیکن ستم ہائے روزگار سے سر اُٹھانے کی فرصت نہ ملی، اس لیے مشق نہ کرسکے اور پختگی کے اس مرحلے تک ہماری رسائی نہ ہو سکی جہاں آپ کی طرح ہمیں بھی صائب الرائےتسلیم کیا جائے۔لہذا فاعلاتن، مفاعیلن اور مستفعلن، فاعلات جیسے اوزان اور رمل، ہزج، رجز کی سی بحور نیز زحافات کے مباحث میں تو :بنا کرفقیروں کا بھیس ہم غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
اور جوانی میں جو سیکھا تھا اُسے تازہ و پختہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
بیٹیا لفظ بٹیا کے معنیٰ میں تو ہماری نظر سے کہیں نہیں گزرا تھا۔ اس لیے درستی املا کی بے جا جسارت کر گزرے، اور عروضی معاملات میں خاموش رہے۔
پیارے بھائی شوکت پرویز آپ کی بات بالکل صحیح ہے لیکن غزل ذو قافیہ ہے آپ نے مطلع میں غور فرمایا ہوگا جہاں مصرعہ اولی میں قوافی حالت اور عجیب ہیںوہیں مصرعہ ثانی میںقوافی لذت اور نصیب ہیں۔ آپ کے بتائے گئے قوافی کو استعمال کرنے کےلئے اس بندش کو ختم کرنا پڑےگا۔چونکہ غزل کہی ہی گئی ہے زوقافیہ والی اسی لئے وہ قافیے استعمال نہیں کئے جا سکتے ہیں۔اور ایک بات:
آپ کے کئی قافیے دہرا رہے ہیں، جو کہ اچھی بات نہیں۔
آپ اس لنک کے جواب نمبر 36 کو دیکھیں، وہاں اِس غزل کے کئی ہم قافیہ الفاظ دستیاب ہیں، آپ اُن پر غور کریں، شاید کہ وہ مفید ثابت ہوں؟؟
استاد محترم الف عین صاحب آپ کا بہت بہت شکریہشوکت پرویز کی بات درست ہے، یہی بہتر ہے
حیات ان کی یقینا" حسین ہوتی ہے
جنھیں خلوص کی دولت نصیب ہوتی ہے
(ویسے تنوین یہاں شفٹ M پر ہے، ا" کی املا کی فاش غلطی ہے، اگرچہ دیکھنے اور پڑھنے میں درست آ سکتا ہے یہ)
اور قوافی کے بارے میں بھی میں نے پہلے گور نہیں کیا تھا۔ لیکن ردیف ہی ایسی منتخب کی ہے کہ ’نصیب‘ ہی آسانی سے ’نصیب‘ ہوتی ہے!! بہر حال ایک آدھ شعر اور کہیں کسی اور قافئے میں، اور ’نصیبوں‘ کے درمیان فصل حائل کر دیں۔
استادمحترم الف عین صاحب ان دو اشعار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔اس بارے میں نے غور نہیں کیا تھا کہ یہ غزل ذو قافیتین ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں یقیناً درست ہے
اور ایک بات:
آپ کے کئی قافیے دہرا رہے ہیں، جو کہ اچھی بات نہیں۔
آپ اس لنک کے جواب نمبر 36 کو دیکھیں، وہاں اِس غزل کے کئی ہم قافیہ الفاظ دستیاب ہیں، آپ اُن پر غور کریں، شاید کہ وہ مفید ثابت ہوں؟؟
اگرچہ والد مرحوم کی ایسی ایک نعت بھی ہے،
دو عالم میں پھیلی ہوئی ہے تجلی ضیا در ضیا ہے غبارِ مدینہ
ہوئی اجلی اجلی فضا آسماں کی فلک پر جو پہنچا غبارِ مدینہ
دکھاتا ہے بھٹکے مسافر کو رستہ بڑا رہنما ہے غبارِ مدینہ
بہ ظاہر ہے اک خاک لیکن بہ باطن زرِ کیمیا ہے غبارِ مدینہ
سمٹ آئیں رعنائیاں دو جہاں کی نہ ہوگا جوابِ غبار مدینہ
جگر کا مداوا مرے دل کا مرہم نگاہوں کی ٹھنڈک غبار مدینہ
ملے دولتِ دو جہاں بھی تو کر دوں فدائے محمد(ص) نثارِ مدینہ
گلوں کا تبسم بہاروں کی نزہت چمن کا چمن ہے نثارِ مدینہ
دل و دیدہ تو خیر اپنی جگہ ہیں مری روح تک ہے نثارِ مدینہ
جس میں دو ہی قوافی ہیں، نثار اور غبار۔
وہ زندگی سے کیا گیا دھواں اڑا کے رکھ دیا
مکاں کے اک ستون نے مکاں گرا کے رکھ دیا
وہ راہ سے چلا گیا، تو راہ موڑ بن گئی
میرے سفر نے راستہ کہاں چھپا کے رکھ دیا
کسی دیئے کی طرز سے گزر رہی ہے زندگی
یہاں جلا کہ رکھ دیا، وہاں بجھا کے رکھ دیا
وجود کی بساط پر بڑی عجیب مات تھی
یقین لٹا کے اٹھ گئے، گماں بچا کے رکھ دیا
جی بہت بہت شکریہ۔دونوں مطلعوں میں پہلا بہتر ہے۔ دوسرا مؤذن والا شعر نکال ہی دیں، اتنا اچھا نہیں۔
جناب فاتح صاحب آپ کا بیحد شکریہ۔ اگر کسی غزل میں قافیہ باربار دہرایا جاتا ہے تو کیا اس غزل کو ذو قافیتین نہیں کہا جاتا ہے۔کیا یہ لازم شرط ہے کہ ذوقافیتین غزل کے لئے ہر شعر کے الگ الگ قافیے باندھے جائیں جیسے آپ کی غزل میں آپ نے کوئی بھی قافیہ نہیں دہرایا ہے رہنما ئی فرمائیں۔بزرگوارم الف عین صاحب! یہاں یہ ناچیز جناب محمد یعقوب آسی صاحب سے اتفاق کرتا ہے کہ اسے صنعت ذو قافیتین یا ذو قافیہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ لیکن پوری غزل یا نعت میں صرف دو قافیے برتنا بہرحال استاذانہ فن ہے اور داغ سمیت کچھ اساتذہ نے صرف دو یا تین قوافی پر مشتمل کئی اشعار کی غزلیں کہی ہیں۔
خاکسار کی ذو قافیتین غزل:
صنعت ذو قافیتین سے مراد شعر میں اوپر تلے ایک سے زائد قافیے استعمال کرنا ہے۔جناب فاتح صاحب آپ کا بیحد شکریہ۔ اگر کسی غزل میں قافیہ باربار دہرایا جاتا ہے تو کیا اس غزل کو ذو قافیتین نہیں کہا جاتا ہے۔کیا یہ لازم شرط ہے کہ ذوقافیتین غزل کے لئے ہر شعر کے الگ الگ قافیے باندھے جائیں جیسے آپ کی غزل میں آپ نے کوئی بھی قافیہ نہیں دہرایا ہے رہنما ئی فرمائیں۔
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب آپ کی رہنمائی کا ممنون و مشکور ہوں۔ غزل آپ کی قیمتی رائے کی منتظرہے۔
استاد محترم جناب فاتح صاحب آپ نے بہت مفید معلومات سے میرے علم میں اضافہ فرمایا ہے آپ سے ایک گذارش یہ تھی کہ اگر غزل کے بارے میں بھی آپ کی قیمتی رائے مل جائے تو مجھ کم علم کو اور بھی فائدہ ہوگا بہت بہت شکریہ سر۔صنعت ذو قافیتین سے مراد شعر میں اوپر تلے ایک سے زائد قافیے استعمال کرنا ہے۔
عمومی طور پر غزل کے اشعار قافیہ دہرانا یعنی ایک ہی قافیہ ایک سے زائد اشعار میں باندھنا ایک عیب شمار کیا جاتا ہے کہ اس شاعر کے ہاں قافیہ تنگ پڑ گیا ہے یا اسے دوسرے الفاظ کو بطور قافیہ باندھنا نہیں آتا لیکن کچھ اساتذہ عمداً دو یا تین قوافی کو برتتے ہوئے مختلف مضامین کے حامل کئی کئی اشعار پر مشتمل غزل کہتے ہیں اور اپنی مہارت کا ثبوت دیتے ہیں اور یہ عیب نہیں استادی ہے۔
آپ کی غزل عمدہ ہے اور چونکہ اس پر یہاں اساتذہ کرام اپنی آرا کا اظہار فرما چکے لہٰذا میں نے لب کشائی کی جسارت گستاخی جانی۔استاد محترم جناب فاتح صاحب آپ نے بہت مفید معلومات سے میرے علم میں اضافہ فرمایا ہے آپ سے ایک گذارش یہ تھی کہ اگر غزل کے بارے میں بھی آپ کی قیمتی رائے مل جائے تو مجھ کم علم کو اور بھی فائدہ ہوگا بہت بہت شکریہ سر۔