جناب
اسرار احمد دانش کی غزل پر جناب
الف عین بہت مبسوط رائے دے چکے۔ اس پر کچھ اضافہ نہیں کر سکوں گا۔
چند ایک موٹی موٹی باتیں دیکھ لیجئے۔
سب سے پہلے تو املاء، ہجوں، اعراب اور تلفظ کے لوازمات کو دیکھنا ہو گا۔ جیسے درست لفظ
ادنہ نہیں
ادنٰی ہے۔ اوزان کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں اور نہ ہی غزل کے دیگر عناصر (زمین: بحر، قافیہ، ردیف) سے صرفِ نظر ممکن ہے۔ مضامین میں تنوع اچھی بات ہے، تاہم اس تنوع میں بھی سلیقہ ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ یا تو ملتے جلتے سارے مضامین یکے بعد دیگرے لائے جائیں یا پھر اُن کو ایسے پھیلا دیا جائے کہ کوئی ایک مضمون دوسرے کو دبا نہ سکے۔ غزل کے اشعار میں مضامین اور معانی کے لحاظ سے تسلسل بھی ہو سکتا ہے اور ریزہ خیالی بھی۔ اور اس سب کچھ میں شاعر کی اپنی ترجیحات، طرزِ فکر و احساس اور اندازِ بیان مل ملا کر ایک طرح سے اسلوب کی تشکیل کرتے ہیں۔ پختگی آتے آتے آتی ہے، ایک نئے لکھنے والے سے ایک دم بہت ساری امیدیں وابستہ کر لینا یا اعلیٰ ادب کے معیارات کو پہنچنے کا تقاضا کرنا شاید زیادتی ہو گی، تاہم شاعر کو ابتدا ہی سے ان معیارات کا ادراک ضرور کرنا چاہئے، یہاں زادِ سفر بھی اظہار کی منازل میں ملا کرتا ہے، مسافر تھک کے بیٹھ گیا تو اس نے اپنا سامانِ سفر کھو دیا۔
اس فورم پر یہ آپ کی پہلی غزل ہے، تاہم مجھے یقین ہے کہ یہ آپ کی اولین کوشش نہیں، کہ آپ کا اوزان کا ادراک مجھے یہی بتا رہا ہے۔ سفر جاری رہے اور اعتماد سے جاری رہے، ساتھ ساتھ مطالعہ بھی (کتابوں کا بھی، انسانوں کا بھی، حالات کا بھی، اور اپنی ذات کا بھی)۔
اور ہاں! یہاں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اگر کہیں ٹوکا جاتا ہے تو وہ بات واقعی ٹوکنے کے لائق ہوتی ہے۔ احباب کی آراء پر کھلے دل اور ذہن کے ساتھ توجہ دیجئے گا۔ بہت شکریہ۔