سراج اورنگ آبادی غزل - خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی - سراج اورنگ آبادی

محمد وارث

لائبریرین
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی


(سراج اورنگ آبادی)
 

الف عین

لائبریرین
محض ایک مصرعے نے سراج کا نام روشن کر رکھا ہے بھائی۔ مگر ایک شاخَ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
 

فاتح

لائبریرین
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

بس یہی دو اشعار سن رکھے تھے اس غزل کے۔ آج مکمل غزل پڑھا دی آپ نے۔ بہت شکریہ!
 

مغزل

محفلین
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]وارث صاحب۔۔
باری تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھّے ۔۔
کیا ہی خوب غزل نظر نواز کی ہے۔۔۔
سراج صاحب کے کلام سے یہ میری پسندیدہ ترین غزل ہے۔۔
[/FONT]
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب۔

شکریہ مغل صاحب، اور آپ کی نیک خواہشات کیلیئے خصوصی شکریہ آپ کا محترم۔
 

ملائکہ

محفلین
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی


بہت خوب غزل پوسٹ کی ہے اور یہ اشعار بہت اچھے ہیں۔:)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی


(سراج اورنگ آبادی)

میری پسندیدہ غزل وارث بھائی

زاہدہ حنا نے ناولٹ بھی لکھا ہے نہ جنوں رہا ، نہ پری رہی کے نام سے ۔
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں اس نام کی کتاب سوانح ہے۔۔ زاہدہ حنا کی یا کسی اور کی، یہ تو درست یاد نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ سیدہ شگفتہ پسند کرنے کیلیئے۔

یہ غزل مجھے بھی بہت پسند ہے اور کسی مصنف کی ایک کتاب (شاید شاعری کی ہے) کا نام "شاخِ نہالِ غم" بھی ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
وارث بھائی!!
سراج کی غزل عمدہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر سراج کا کچھ مزید کلام بھی محفل میں آ جائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ نوید بھائی۔

میرے پاس سراج دکنی کا کلام نہیں ہے، یہ غزل نقوش غزل نمبر سے لی تھی، ایک اور غزل بھی ہے وہ بھی انشاءاللہ پوسٹ کر دونگا۔
 
Top