سراج اورنگ آبادی غزل - خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی - سراج اورنگ آبادی

طارق شاہ

محفلین
سراؔج اورنگ آبادی
غزلِ
سراؔج اورنگ آبادی

خبرِ تحیرِ عِشق سُن، نہ جنوُں رہا، نہ پرِی رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو مَیں رہا، جو رہی سو بے خبرِی رہی

شہِ بے خودی نے عطا کِیا، مجھے اب لباسِ بَرَہنگی
نہ خِرد کی بخیہ گرِی رہی، نہ جنوُں کی پردَہ دَرِی رہی

چلی سمتِ غیب سے کیا ہَوا کہ چمن ظہوُر کا ، جَل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم ، جسے دِل کہیں سو ہرِی رہی

نَظَرِ تغافُلِ یار کا گِلہ کِس زباں سے بَیاں کرُوں !
کہ شرابِ صد قدحِ آرزو، خُمِ دِل میں تھی، سو بھرِی رہی

وہ عجب گھڑی تھی مَیں جس گھڑی لِیا درس نُسخۂ عِشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق میں جُو ں دھری تھی تیو نہی دھرِی رہی

تِرے جوشِ حیرتِ حُسن کا اثر اِس قدر سےیہاں ہُوا
کہ نہ آئنہ میں رہی جِلا ، نہ پری کو جلوہ گَرِی رہی

کِیا خاک آتشِ عِشق نے دِلِ بے نَوائے سراؔج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، سو وہ ایک بے خَطَرِی رہی

سراؔج اورنگ آبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔
منقولہ کلّیاتِ سراؔج
مطبوعہ: قومی کونسل برئے فروغِ اُردُو زبان، نئی دہلی - انڈیا
:) :) :)
 
آخری تدوین:

rahmat khan

محفلین
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
اس شعر میں پہلا مصرع ۔۔ چمن ظہور کا ۔۔ نہیں ۔ چمن سرود کا ۔۔ ہے
 
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
اس شعر میں پہلا مصرع ۔۔ چمن ظہور کا ۔۔ نہیں ۔ چمن سرود کا ۔۔ ہے

محمد وارث صاحب اور طارق شاہ بھائی دونوں نے غزل متعلقہ حوالہ کے ساتھ پیش فرمائی ہیں۔ آپ کے پاس بھی حوالہ موجود ہے تو یش کردیجیے۔

شکریہ نوید بھائی۔

میرے پاس سراج دکنی کا کلام نہیں ہے، یہ غزل نقوش غزل نمبر سے لی تھی، ایک اور غزل بھی ہے وہ بھی انشاءاللہ پوسٹ کر دونگا۔

منقولہ کلّیاتِ سراؔج
مطبوعہ: قومی کونسل برئے فروغِ اُردُو زبان، نئی دہلی - انڈیا
 

یاقوت

محفلین
خ
برِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

(سراج اورنگ آبادی)

احمد فراز صاحب کی بھی ایک غزل اسی زمین میں ہے۔پوری یاد نہیں اس وقت ہوتی تو پیش کرتا ایک شعر یاد ہے۔
جو ہوس فروش تھے شہر کے سبھی مال بیچ کے جاچکے
مگر اک جنس وفا میری سر راہ دھری کی دھری رہی
 

فاتح

لائبریرین
احمد فراز صاحب کی بھی ایک غزل اسی زمین میں ہے۔پوری یاد نہیں اس وقت ہوتی تو پیش کرتا ایک شعر یاد ہے۔
جو ہوس فروش تھے شہر کے سبھی مال بیچ کے جاچکے
مگر اک جنس وفا میری سر راہ دھری کی دھری رہی
ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی
کہ جو روشنی ترے جسم کی تھی مرے بدن میں بھری رہی

ترے شہر میں، میں چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مرے
تو میں کس سے محوِ کلام تھا تو یہ کس کی ہم سفری رہی

مجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک ترا دھیان تھا
تو مثال تھی مری آگہی تو کمال بے خبری رہی

مرے آشنا بھی عجیب تھے نہ رفیق تھے نہ رقیب تھے
مجھے جاں سے درد عزیز تھا انہیں فکر چارہ گری رہی

میں یہ جانتا تھا مرا ہنر ہے شکست و ریخت سے معتبر
جہاں لوگ سنگ بدست تھے وہیں میری شیشہ گری رہی

جہاں ناصحوں کا ہجوم تھا وہیں عاشقوں کی بھی دھوم تھی
جہاں بخیہ گر تھے گلی گلی وہیں رسمِ جامہ دری رہی

ترے پاس آ کے بھی جانے کیوں مری تشنگی میں ہراس تھا
بہ مثالِ چشمِ غزال جو لبِ آبِ جو بھی ڈری رہی

جو ہوس فروش تھے شہر کے سبھی مال بیچ کے جا چکے
مگر ایک جنسِ وفا مری سرِ رہ دھری کی دھری رہی

مرے ناقدوں نے فراز جب مرا حرف حرف پرکھ لیا
تو کہا کہ عہدِ ریا میں بھی جو کھری تھی بات کھری رہی​
 
آخری تدوین:

زمل حیدر

محفلین
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی
عمدہ اشعار ہیں یہ
 
Top