غزل ::دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں ::

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

احباب کی خدمت میں ایک اور پرانی غزل پیش خدمت ہے ،بے لاگ و بے تکلف تبصرے کا انتظار رہے گا -

غزل

دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں
اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں


اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں
خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں


رہ رہ کے ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ سرِ بزم
اور ہم انھیں ہو ہو کے نہاں دیکھ رہے ہیں


آنے کو تو آپ آگئے خلوت میں ہماری
اب کیا کریں الله میاں دیکھ رہے ہیں


ہم بے سر و ساماں تو کبھی کے ہوئے در عشق
خود کو ابھی بے نام و نشاں دیکھ رہے ہیں


یہ عشق کی گرمی ہے کہ تاثیرِ نظر ہے
پیری میں جو ہم خود کو جواں دیکھ رہے ہیں


ہم ہونے کو قتل آئے ہیں پر ہائے ری قسمت
دشمن کو بھی بے تیغ و کماں دیکھ رہے ہیں


مدمست نظاروں میں بھی کافر رہے کافر
سب دیکھ کے بد بخت کہاں دیکھ رہے ہیں !


سندھی ہیں مگر شؔاہ کی اردو ہے غضب کی
ہیں گرمِ سخن اہلِ زباں دیکھ رہے ہیں
 

ارشد رشید

محفلین
شاہ صاحب - توھان جی غزل ڈاڈی سُٹھی آہے - ما شا اللہ - بس موں جا بہ کمنٹس آھن -

== اللہ میاں والا شعر غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں - اس کی جگہ یہاں نہیں بنتی میرے خیال میں -
== دوسری یہ کہ مد مست کیا ہوتا ہے - ہندی میں تو استعمال ہوتا ہے(نشے میں دھت) - اردو میں نہیں دیکھا - یہ لفظ اس غزل کی لسانی فضا سے بالکل میل نہیں کھاتا -

باقی داد قبول کیجیئے -
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
ماشاء اللہ خوب غزل ہے ،کسی بھی شعر پر تو انگلی اُٹھانے کی جا نہیں ، واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکیل بھائی آپ کی داد کا شکریہ اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا :

ہے ہنر تو وہی کہ دوست تو دوست
دشمنِ جاں بھی معترف نکلے

لیکن بات یہ ہے کہ نہ آپ دشمن جاں ہیں اور نہ آپ کی تعریف تعریف جب تک کچھ مدلل بات نہ کی جائے اور ویسے بھی بے لاگ تبصرہ یا تنقید محض انگلی اٹھانے کا نام نہیں -میرے نزدیک ذوق کو اگر کوئی شعر کھٹکے تو اس کھٹک کے اسباب کا سراغ لگا کر پیش کرنا اور اسی طرح ذوق کو اگر کوئی شعر بھلا لگے تو اس بھلائی کو ڈھونڈ کر منظر عام پہ لانا ہی ایک جامع بے لاگ تبصرہ ہے -لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ تو مسلسل چہ خوب چہ خوب کر کے مکمل جھوٹ بول رہے ہیں اور ہم جو بے لاگ لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی آدھا سچ بول رہے ہیں جو کہ بسا اوقات مکمل جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان -اسی وجہ سے ہماری عیب نکالنے کی عادت تو مستحکم ہوتی جا رہی ہے لیکن محاسن برآمد کرنے کی خو لولی لنگڑی اور ادھ موی ہو کر رہ گئی ہے -

آپ کچھ اپنے قیمتی وقت سے عنایت فرما کر بتائیے کہ آپ کو کیا کیا محاسن اس غزل کے اشعار کے بھائے اور چونکہ تنقید کا ایک عنصر تقابلی جائزہ بھی ہے، چنانچہ یہ بھی فرمائیے کہ اس غزل میں وہ کیا امتیازی خصوصیات ہیں جو پچھلی غزل میں نہیں تھیں جس کو آپ نے اپنی دانست میں رگید دیا تھا -حالانکہ میرے اندر کے ناقد کو میری پچھلی غزل زیادہ بھاتی ہے جس کی وجہ اگر ممکن ہوا تو بعد میں پیش بھی کر دوں گا ان شاء الله -

آپ سے تین درخواستیں اور بھی ہیں :

١-وقت نکال کے اپنا تعارف بھی پیش کریں تاکہ آپ سے انس میں اضافہ ہو سکے -
٢-کوشش کر کے ہر فقرے کو جو آپ نے بمبو کیا ہوا ہوتا ہے(----------) اس سے گریز کریں والله دیکھ کے ایسی ہی کوفت ہوتی ہے جیسی خواتین کو دم کٹی چھپکلی دیکھ کر -
٣-کوشش کریں کہ سیکھنے کے لیے اگر بے لاگ تبصرہ کرنا ہو تو حتمی اور فیصلہ کن رویّے سے گریز کریں -


ان باتوں کو لیکچر مت سمجھیے گا، بہت عرصے سے میری خواہش تھی کہ ایک شعرا کی چائے خانوں میں جیسی بیٹھک ہوا کرتی تھی ویسی ہی اردو محفل میں بھی ہوا کرے اور اس کی بہترین تدبیر اپنی کاوشات پہ بے لاگ لکھنے کی تحریک دینا ہے -
 
دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں
اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
آپ کے مطلع میں میرکے اِس مطلع کا اثر تھا جس نے داد دینے پر مجبور کیا۔ میرکے 72 نشتر ہر نقاد نے اپنے اپنے طور پر دریافت کیے ہونگے ۔وہ میرکے چار صخیم دواوین سے اپنی پسند کے 72 اشعار نکال لیں اور یہ غزل مقابل رکھ دیں تب بھی شاید تقابل کا حق ادا نہ ہوسکے جس کامطلع ہی 72نشتروں کے برابر ہے باقی اشعار اپنی جگہ
اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں
خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں
غالب کی غزل سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں کا ایک شعر ہے :
قیدمیں یعقوب نے لی گونہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہوگئیں
اور آپ کہہ رہے ہیں جہاں کو جیسے دیکھنے کا حق تھا ویسے دیکھنے کی تاب نہیں اگروہ تاب مل جائے تو دنیا کا ذرہ ذرہ اپنی ذات میں ایک دنیا ہے
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہرجاجہانِ دیگر تھا
لہٰذا جس محدود سطح پر دنیا کا نظارہ کرایا جارہا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے بچے کوکھلونے دے کے بہلایا گیا ہو:
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
رہ رہ کے ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ سرِ بزم
اور ہم انھیں ہو ہو کے نہاں دیکھ رہے ہیں
یہاں مجھے داغ اور شاعری میں وہ ان کا گفتگوکا سا طرزِ بیان یا د آگیا
آنے کو تو آپ آگئے خلوت میں ہماری
اب کیا کریں الله میاں دیکھ رہے ہیں
ہم بے سر و ساماں تو کبھی کے ہوئے در عشق
خود کو ابھی بے نام و نشاں دیکھ رہے ہیں
یہاں مجھے علامہ اقبال کی وہ خواہش پوری ہوتی محسوس ہوئی
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
عشق میں بے سروسامانی کے بعد بے نام و نشانی کیا عشق کی انتہا نہیں جسے اقبال نے اوائل ِ عمری کے شعرمیں بیان کیا تھا
یہ عشق کی گرمی ہے کہ تاثیرِ نظر ہے
پیری میں جو ہم خود کو جواں دیکھ رہے ہیں
یہ شعر بھی مجھے عشق کی واقعی اور وقوعی کارفرمائی کے سبب پسند آیا کہ بڑے سے بڑے حکیم کا کشتہ وہ کام نہ کرے جو عشق سے ملی توانائی کردکھائے
عشق کی اک جست نے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
ہم ہونے کو قتل آئے ہیں پر ہائے ری قسمت
دشمن کو بھی بے تیغ و کماں دیکھ رہے ہیں
حسن کے جلووں کا اثر کس شاعر نے اپنے اپنے انداز میں بیان نہیں کیا ۔آپ کے شعر میں بھی یہی قدیم بیانیہ نئے انداز میں ملا
مدمست نظاروں میں بھی کافر رہے کافر
سب دیکھ کے بد بخت کہاں دیکھ رہے ہیں !
گو اِس شعر پر ہمارے پیارے ارشد رشید صاحب نے اپنے تذبذب کا اظہار کیا مگر مجھے یہی شعر سب سے زیادہ پسند آیا میں بجائے تشریح کرنے کے اقبال کا یہ شعر سامنے رکھ دیتا ہوں کہ انہوں نے یہی بات اپنے انداز میں کہی تھی اور آپ نے وہی بات اپنے ڈھنگ سے کہی ہے یعنی بات واقعی بیان کرنے والی تھی سو بیا ن میں آئی
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

سندھی ہیں مگر شؔاہ کی اردو ہے غضب کی
ہیں گرمِ سخن اہلِ زباں دیکھ رہے ہیں
یہ مجھ پر اب انکشاف ہوا کہ جناب سندھی ہیں مگر غضب کے اُردُو داں بھی ہیں، واہ!
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
١-وقت نکال کے اپنا تعارف بھی پیش کریں تاکہ آپ سے انس میں اضافہ ہو سکے -
٢-کوشش کر کے ہر فقرے کو جو آپ نے بمبو کیا ہوا ہوتا ہے(----------) اس سے گریز کریں والله دیکھ کے ایسی ہی کوفت ہوتی ہے جیسی خواتین کو دم کٹی چھپکلی دیکھ کر -
٣-کوشش کریں کہ سیکھنے کے لیے اگر بے لاگ تبصرہ کرنا ہو تو حتمی اور فیصلہ کن رویّے سے گریز کریں -
اس ضمن میں ایک بات میں اور لکھنا چاہوں گا کہ تمام احباب اپنا اصل نام استعمال کریں اور کوئ تازہ تصویر بھی لگائیں(خواتین کو استثنا حاصل رہے گا) -
پتہ تو چلے ہم جس سے بات کر رہے ہیں وہ ہے کون - عمر کے کس حصے میں ہے - بات کرنے میں آسانی رہتی ہے - یہ نیرنگِ خیال یا صریر جیسے ناموں اور بغیر تصویر کے کچھ لکھتے ہوئے بہے عجیب لگتا ہے -
پھر تصویر سے بھی ایک حد تک اندازہ ہوتا ہے کہ مخاطب کیسا دکھتا ہے عمر کے کس حصے میں ہے وغیرہ وغیرہ - بات کہنے میں آسانی ہوتی ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
شاہ صاحب - توھان جی غزل ڈاڈی سُٹھی آہے - ما شا اللہ - بس موں جا بہ کمنٹس آھن -
سائين منھنجا اوھان جي مھربانيء،خوشي ٿي اوھان سان پنھنجي ٻولي ۾ ڳالھائي-
== اللہ میاں والا شعر غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں - اس کی جگہ یہاں نہیں بنتی میرے خیال میں -
ارشد صاحب کچھ روشنی ڈالیےاس موضوع پہ کہ اس معصوم شعر میں آخر ایسا کیا ہے کہ یہ ہم آہنگ نہیں غزل سے۔
== دوسری یہ کہ مد مست کیا ہوتا ہے - ہندی میں تو استعمال ہوتا ہے(نشے میں دھت) - اردو میں نہیں دیکھا - یہ لفظ اس غزل کی لسانی فضا سے بالکل میل نہیں کھاتا -
یہ بات آپ کی کافی حد تک بجا ہے کہ استعمال کے وقت مجھے بھی یہ لفظ کچھ ہلکا سا لگا،لیکن کیا کریں وزن اور پھر اس کی :بدبخت: سے کچھ مماثلت کی وجہ سے جی کڑا کر کے اسے استعمال کر لیا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں
اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
آپ کے مطلع میں میرکے اِس مطلع کا اثر تھا جس نے داد دینے پر مجبور کیا۔ میرکے 72 نشتر ہر نقاد نے اپنے اپنے طور پر دریافت کیے ہونگے ۔وہ میرکے چار صخیم دواوین سے اپنی پسند کے 72 اشعار نکال لیں اور یہ غزل مقابل رکھ دیں تب بھی شاید تقابل کا حق ادا نہ ہوسکے جس کامطلع ہی 72نشتروں کے برابر ہے باقی اشعار اپنی جگہ
اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں
خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں
غالب کی غزل سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں کا ایک شعر ہے :
قیدمیں یعقوب نے لی گونہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہوگئیں
اور آپ کہہ رہے ہیں جہاں کو جیسے دیکھنے کا حق تھا ویسے دیکھنے کی تاب نہیں اگروہ تاب مل جائے تو دنیا کا ذرہ ذرہ اپنی ذات میں ایک دنیا ہے
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہرجاجہانِ دیگر تھا
لہٰذا جس محدود سطح پر دنیا کا نظارہ کرایا جارہا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے بچے کوکھلونے دے کے بہلایا گیا ہو:
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
رہ رہ کے ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ سرِ بزم
اور ہم انھیں ہو ہو کے نہاں دیکھ رہے ہیں
یہاں مجھے داغ اور شاعری میں وہ ان کا گفتگوکا سا طرزِ بیان یا د آگیا
آنے کو تو آپ آگئے خلوت میں ہماری
اب کیا کریں الله میاں دیکھ رہے ہیں
ہم بے سر و ساماں تو کبھی کے ہوئے در عشق
خود کو ابھی بے نام و نشاں دیکھ رہے ہیں
یہاں مجھے علامہ اقبال کی وہ خواہش پوری ہوتی محسوس ہوئی
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
عشق میں بے سروسامانی کے بعد بے نام و نشانی کیا عشق کی انتہا نہیں جسے اقبال نے اوائل ِ عمری کے شعرمیں بیان کیا تھا
یہ عشق کی گرمی ہے کہ تاثیرِ نظر ہے
پیری میں جو ہم خود کو جواں دیکھ رہے ہیں
یہ شعر بھی مجھے عشق کی واقعی اور وقوعی کارفرمائی کے سبب پسند آیا کہ بڑے سے بڑے حکیم کا کشتہ وہ کام نہ کرے جو عشق سے ملی توانائی کردکھائے
عشق کی اک جست نے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
ہم ہونے کو قتل آئے ہیں پر ہائے ری قسمت
دشمن کو بھی بے تیغ و کماں دیکھ رہے ہیں
حسن کے جلووں کا اثر کس شاعر نے اپنے اپنے انداز میں بیان نہیں کیا ۔آپ کے شعر میں بھی یہی قدیم بیانیہ نئے انداز میں ملا
مدمست نظاروں میں بھی کافر رہے کافر
سب دیکھ کے بد بخت کہاں دیکھ رہے ہیں !
گو اِس شعر پر ہمارے پیارے ارشد رشید صاحب نے اپنے تذبذب کا اظہار کیا مگر مجھے یہی شعر سب سے زیادہ پسند آیا میں بجائے تشریح کرنے کے اقبال کا یہ شعر سامنے رکھ دیتا ہوں کہ انہوں نے یہی بات اپنے انداز میں کہی تھی اور آپ نے وہی بات اپنے ڈھنگ سے کہی ہے یعنی بات واقعی بیان کرنے والی تھی سو بیا ن میں آئی
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

سندھی ہیں مگر شؔاہ کی اردو ہے غضب کی
ہیں گرمِ سخن اہلِ زباں دیکھ رہے ہیں
یہ مجھ پر اب انکشاف ہوا کہ جناب سندھی ہیں مگر غضب کے اُردُو داں بھی ہیں، واہ!
زندہ باد شکیل صاحب لطف آگیا آپ کا تبصرہ پڑھ کے ،آپ نے مجھے جو وقت دیا ہے اس کے لیے آپ کو دعاؤں میں یاد رکھا جائے گا۔میں ماضی کی تلخی پہ معذرت خواہ ہوں گو دخل اس میں کچھ آپ کا بھی ہے۔
کچھ نقاد تفہیم سخن کو ہی تنقید سخن کہتے ہیں جیسے کہ آج کل کے معروف نقاد جاوید احمد صاحب اور یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے کہ تنقید کی ایک تعریف دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنا ہے اور یہ مدعا تفہیم سے کافی حد تک حاصل ہو جاتا ہے اور بات محض ذوقی رائے سے آگے بڑھتی ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں
اٹھتا ہے کہاں سے یہ دھواں دیکھ رہے ہیں

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
آپ کے مطلع میں میرکے اِس مطلع کا اثر تھا جس نے داد دینے پر مجبور کیا
واقعی ایسا ہی ہے انھی کی تقلید کی گئی ہے ۔
میر میر ہیں ،حسن عسکری اور شمس الرحمن فاروقی پہلے میر پر غالب کو ترجیح دیتے تھے مگر آخری عمر میں دونوں میر کی غالب پر عظمت کے قائل ہو گئے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میر اپنے روز مرہ کے معمولی اور عامیانہ تجربات کو اس خوبی سے بیان کرتے تھے کہ وہ آفاقی ہو جاتے تھے ،بنا زرق برق اور مرعوب کن اصطلاحات کو استعمال کیے ،یہی دیکھ لیجیے کس قدر پست اور قبیح تجربہ ہے مگر اس خوبی سے باندھا گیا ہے کہ ایک آفاقی مضمون بن گیا ہے اور دینی کتب میں بھی بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کی سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اک روزنِ زنداں سے جہاں دیکھ رہے ہیں
خود ہم ہیں کہاں اور کہاں دیکھ رہے ہیں

لہٰذا جس محدود سطح پر دنیا کا نظارہ کرایا جارہا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے بچے کوکھلونے دے کے بہلایا گیا ہو:
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
خوب پہنچے آپ اس روزن زنداں کی مشہور مثال ٹی وی ہے ،پچھلے دنوں سارے چینلز کو پی ٹی وی بنا دیا گیا تھا۔
رہ رہ کے ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ سرِ بزم
اور ہم انھیں ہو ہو کے نہاں دیکھ رہے ہیں
یہاں مجھے داغ اور شاعری میں وہ ان کا گفتگوکا سا طرزِ بیان یا د آگیا
آنے کو تو آپ آگئے خلوت میں ہماری
اب کیا کریں الله میاں دیکھ رہے ہیں
بالکل ٹھیک بھانپ لیا۔
ہم بے سر و ساماں تو کبھی کے ہوئے در عشق
خود کو ابھی بے نام و نشاں دیکھ رہے ہیں
یہاں مجھے علامہ اقبال کی وہ خواہش پوری ہوتی محسوس ہوئی
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
عشق میں بے سروسامانی کے بعد بے نام و نشانی کیا عشق کی انتہا نہیں جسے اقبال نے اوائل ِ عمری کے شعرمیں بیان کیا تھا
یہ عشق کی گرمی ہے کہ تاثیرِ نظر ہے
پیری میں جو ہم خود کو جواں دیکھ رہے ہیں
یہ شعر بھی مجھے عشق کی واقعی اور وقوعی کارفرمائی کے سبب پسند آیا کہ بڑے سے بڑے حکیم کا کشتہ وہ کام نہ کرے جو عشق سے ملی توانائی کردکھائے
عشق کی اک جست نے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
ہم ہونے کو قتل آئے ہیں پر ہائے ری قسمت
دشمن کو بھی بے تیغ و کماں دیکھ رہے ہیں
حسن کے جلووں کا اثر کس شاعر نے اپنے اپنے انداز میں بیان نہیں کیا ۔آپ کے شعر میں بھی یہی قدیم بیانیہ نئے انداز میں ملا
مدمست نظاروں میں بھی کافر رہے کافر
سب دیکھ کے بد بخت کہاں دیکھ رہے ہیں !
گو اِس شعر پر ہمارے پیارے ارشد رشید صاحب نے اپنے تذبذب کا اظہار کیا مگر مجھے یہی شعر سب سے زیادہ پسند آیا میں بجائے تشریح کرنے کے اقبال کا یہ شعر سامنے رکھ دیتا ہوں کہ انہوں نے یہی بات اپنے انداز میں کہی تھی اور آپ نے وہی بات اپنے ڈھنگ سے کہی ہے یعنی بات واقعی بیان کرنے والی تھی سو بیا ن میں آئی
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

سندھی ہیں مگر شؔاہ کی اردو ہے غضب کی
ہیں گرمِ سخن اہلِ زباں دیکھ رہے ہیں
یہ مجھ پر اب انکشاف ہوا کہ جناب سندھی ہیں مگر غضب کے اُردُو داں بھی ہیں، واہ!
جزاک اللہ خیر و احسن الجزا۔
ابھی پچھلی غزل سے تقابلی جائزہ رہتا ہے کہ وہ کیا اوصاف ہیں اس غزل کے جو اس غزل میں نہ تھے۔
اس ساری کاروائی سے مجھے تو مسرت ہوئی لیکن جلد آپ کو بھی محسوس ہوگا کہ ایسے تبصرے خود آپ کے حق میں بے انتہا مفید ہیں ۔
یاسر
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کلام پر صرف پسندیدگی کا انگوٹھا دبا دینے سے زیادہ ضروری تو یہ ہے کہ کلام پر بحث کروں لیکن میں خود کو اس قابل نہیں پاتا۔ ابھی تو میں آپ دوستوں کے تنقیدی جائزوں کو سمجھنے پر غور کرتا رہتا ہوں۔
ابھی میرا ارادہ ہے اُن پرانی لڑیوں کو بھی کھنگالوں جہاں جہاں اساتذہ نے نقد یا مباحثے کیے ہوئے ہیں۔
یاسر شاہ ، تنقید کے حوالے سے کوئی کتاب آپ کی نظر میں ہو تو ضرور آگاہ کیجئے گا۔
 

ارشد رشید

محفلین
ارشد صاحب کچھ روشنی ڈالیےاس موضوع پہ کہ اس معصوم شعر میں آخر ایسا کیا ہے کہ یہ ہم آہنگ نہیں غزل سے۔
جناب آپ کے سوال میں ہی یہ جواب پوشیدہ ہے - اللہ میاں لفظ کا استعمال ہم عمومعصوم بچوں کو سمجھانے کے لیئے استعمال کرتے ہیں تو یہاں یہ لفظ ایک دم سے غزل کے تخاطب کو بدل دیتا ہے اس لیئے میں نے لکھا کہ غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہے
 

ارشد رشید

محفلین
سائين منھنجا اوھان جي مھربانيء،خوشي ٿي اوھان سان پنھنجي ٻولي ۾ ڳالھائي-

ارشد صاحب کچھ روشنی ڈالیےاس موضوع پہ کہ اس معصوم شعر میں آخر ایسا کیا ہے کہ یہ ہم آہنگ نہیں غزل سے۔

یہ بات آپ کی کافی حد تک بجا ہے کہ استعمال کے وقت مجھے بھی یہ لفظ کچھ ہلکا سا لگا،لیکن کیا کریں وزن اور پھر اس کی :بدبخت: سے کچھ مماثلت کی وجہ سے جی کڑا کر کے اسے استعمال کر لیا۔
سر بس اتنا ہی کہوں گا کہ جب 5 اشعار اچھے کہہ لیں تو زیادہ کے چکر میں معیار پہ سمجھوتا نہ کریں - آپ کی غزل میں اچھے خاصے اشعار ہیں تو پھر رسک لینے کی کیا ضرورت ہے -
 
جزاک اللہ خیر و احسن الجزا۔
ابھی پچھلی غزل سے تقابلی جائزہ رہتا ہے کہ وہ کیا اوصاف ہیں اس غزل کے جو اس غزل میں نہ تھے۔
اس ساری کاروائی سے مجھے تو مسرت ہوئی لیکن جلد آپ کو بھی محسوس ہوگا کہ ایسے تبصرے خود آپ کے حق میں بے انتہا مفید ہیں ۔
انشاء اللہ ،
محترم پہلی فرصت میں دونوں غزلوں کو ایک جا رکھ کر ایک تقابلی جائزہ پیش کرنے کی سعی کروں گا۔انشاء اللہ !
 

یاسر شاہ

محفلین
کلام پر صرف پسندیدگی کا انگوٹھا دبا دینے سے زیادہ ضروری تو یہ ہے کہ کلام پر بحث کروں
انگوٹھا دکھانے پر نظیر اکبر آبادی کی نظم کا بند یاد آیا:
گر ناچ میں جاویں تو یہ حسرت ہے ستاتی
جو ناچے ہے کافر وہ نہیں دھیان میں لاتی
اوروں کی طرف جاکے تو آنکھیں ہے لڑاتی
پر ہم کو تو کافر وہ انگوٹھا ہے دکھاتی

سب چیز کو ہوتا ہے برا ہائے بڑھاپا
عاشق کو تو اللہ نہ دکھلائے بڑھاپا
لیکن میں خود کو اس قابل نہیں پاتا
جب والدین شادی کا کہتےتھے تو میں بھی یہی کہتا کہ میں خود کو قابل نہیں پاتا پھر آخر شادی ہو گئی اور الحمدللہ تین بچے ہیں ۔تو یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔
ابھی تو میں آپ دوستوں کے تنقیدی جائزوں کو سمجھنے پر غور کرتا رہتا ہوں۔
ابھی میرا ارادہ ہے اُن پرانی لڑیوں کو بھی کھنگالوں جہاں جہاں اساتذہ نے نقد یا مباحثے کیے ہوئے ہیں۔
ا چھی بات ہے۔
تنقید کے حوالے سے کوئی کتاب آپ کی نظر میں ہو تو ضرور آگاہ کیجئے گا۔
کلیم الدین احمد کو پڑھیں ۔بہت دلچسپ تنقید کی ہے انھوں نے آپ کو پسند آئے گی۔ان شاء اللہ
 

ارشد رشید

محفلین
سائین مون پنھنجي والد سان رابطي لائي انسٽال ڪيو آھي سنڌي فونٽ موبائل تي.والد صاحب کي ھاڻي ٻي ڪا ٻولي وڻي ئي ڪان ٿي.توھان سندھ ۾ ڪٿي جا آھيو؟
سائیں مھنجو سلسلو بہ عجیب آھی- اسان جو ڈاڈو سن 1900 ماں پیر جو گوٹھ (نوابشاہ جی بھرساں) سے کراچی منتقل تھی ویو - ائیں مھنجی والد ائیں مھنجی پیدائش کراچی جی آھی-
ھاٹئیں سند وارا مونکھی سندھی نہ تھا سمجھن ائیں کراچی وارا مہاجر نہ تھا سمجھن - ھاٹی مونکھی پان کو نہ خبر تہ ماں کیر آھیاں -
 
Top