غزل ::دل دیکھ رہے ہیں کبھی جاں دیکھ رہے ہیں ::

یاسر شاہ

محفلین
حضرات آپ دونوں صاحبانِ فن اور اہلِ درد کی گفتگو پڑھ کے فی البدیہ یہ غزل کہی ہے - سو آپ کی نذر ہے - ( میرے خیال میں تو یہ کام کی بات ہے)

غزل

کوئی شکوہ کسی سے کیا کیجیے
یہ ہی ممکن ہے بس دعا کیجیے
مدعا جب زباں پہ آ نہ سکے
صبر کرنے کا حوصلہ کیجیے
دل بدلنا کسی کے بس میں نہیں
آپ بس کوششیں کیا کیجیے
منزلیں بھی کبھی تو آئیں گی
آپ رستوں سے ابتدا کیجئے
سُرخرو اُس کے رُو برو ٹھہریں

رنگ یہ سوچ کر رچا کیجیے
ماشاء اللہ بہت خوب بھائی ۔
کل ہی آپ کی غزل پڑھی پسند آئی ،دعا کی تحریک ملی ،دعا بھی کی احباب کے لیے ،اگر کلام عمل پہ ابھار دے تو پھر اور کیا چاہیے۔
واقعی میرا بھی یہی مشورہ ہے کہ غزل کو الگ سے پوسٹ کیجیے اور وہ آزاد نظم بھی الگ سے پوسٹ کیجیے جس میں آپ کے بیٹے کا آپ سے مکالمہ ہے کہ یہ سب کیا دھرا آپ لوگوں کا ہے۔😊
 

ارشد رشید

محفلین
محترمی رشید صاحب: یہ تو نہایت عجیب سوال ہے کہ :اس پہ کیا مزید کام کروں؟:۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ غزل بہتر نہیں ہو سکتی تو ٹھیک ہے۔ میرے تجربے میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے ۔بہتر الفاظ،بہتر بندش ، خیالات اور بیان کی بلندی، معنی آفرینی وغیرہ آپ کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ کوشش شرط ہے۔ دیکھئے میں مطلع میں گستاخی کرتا ہوں اور آپ غور کیجئے کہ اس کی کیا قیمت ہے۔ آپ کا مطلع ہے :
کوئی شکوہ کسی سے کیا کیجیے
یہ ہی ممکن ہے بس دعا کیجیے
میری فکر یہ ہے :
کیا کسی سے کوئی گلا کیجیے
صبر کیجیے، خدا خدا کیجیے !
دیکھئے آپ کیا کہتے ہیں۔ آپ بہتر کہہ سکتے ہیں تو ضرور کہئے لیکن اپنی غزل کو حرف آخر خیال نہ کیجئے۔ توجہ کے لئے ممنون ہوں۔
سرور راز
جناب من میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ اس میں بہتری کی گنجائش نہیں ایسا تو انسان کے کلام میں ممکن ہی نہیں - غور کروں تو یقینا اسے بہتر کر سکتا ہوں - بس جو کلام میں کسی خاص صورتِ حال پر اسکے مطابق اسی وقت کہتا ہوں اس کو پھر اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں - ایک عادت سمجھیئے کوئ اور بات نہیں - مجھ پہ عموما جب کوئ مصرع یا پورا شعر خود ہی آجائے اس پر میں محنت کرتا ہوں - مگر خیر یہ کوئئ کلیہ نہیں ہے آپ کہتے ہیں تو اس پر بھی مزید غور کروں گا -

اب آئے آپ کے شعر کی طرف
کیا کسی سے کوئی گلا کیجیے
صبر کیجیے، خدا خدا کیجیے !
یہ بھی یقینا اچھا ہے اور بہت اچھا ہے مگر یہ میں نہیں ہوں - جو میرے دل میں ہے وہ خیال میرے شعر سے ہی مجھے اطمنان دلا سکتا ہے
کوئی شکوہ کسی سے کیا کیجیے
یہ ہی ممکن ہے بس دعا کیجیے
اسکا ڈکشن میرا ہے اور مجھے اپنی سوچ سے زیادہ قریب لگتا ہے - صبر کے ساتھ خدا خدا کرنا جیسے آپ نے فرمایا ہے اچھا ہے مگر وہ آپ کی سوچ ہے آپ کا ڈکشن ہے میرا نظریہ نہیں ہے -
آپ کا شعر بس صبر کی تلقین کر رہا ہے میرا شعر دعا سے تقدیر بدلنا چاہتا ہے - بس وہی بات کہ دونوں باتیں صحیح ہیں دونوں اچھی ہیں ایک میًں یہ ناچیز دکھتا ہے ایک میں حضرت راز دکھتے ہیں - بس سب کی اپنی اپنی بات -

اگر کوئئ گستاخی لگے تو پیشگی معذرت خواہ ہوں -
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر بھائی ، عمدہ غزل ہے . کچھ اشعار تو بہت اعلیٰ ہیں . داد قبول فرمائیے . البتہ پانچویں شعر میں ’ابھی‘ کی جگہ ’اب‘ کا مقام تھا ، اور آٹھویں شعر میں ’مد مست‘ کی ’ بد مست‘ بہتر ہوتا . ویسے تو کوئی بھی شخص کسی بھی زبان پر عبور حاصل کر سکتا ہے ، لیکن سندھی ہوتے ہوئے آپ کی اُرْدُو واقعی غضب کی ہے . :) ماشاء اللہ !
عرفان بھائی آپ ہیں کہاں ؟
پہلے آپ کا معمول تھا کہ اوروں کی کاوشوں پہ تبصرے کر کے اپنی بھی ایک غزل لگا دیتے تھے اس بار کیا بات ہو گئی۔بقول اقبال :

کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے
فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی

دیکھیے اقبال نے شاعر کو بھی ناخدا یا کپتان سے تعبیر کیا ہے،میرا تعلق چونکہ ہوا بازی کے شعبے سے ہے جہاز کا کپتان جتنا ناخوش اندیش ہوتا ہے جہاز کی معمولی خرابی سے:کچھ نہیں ہو سکتا،
تباہ ہو گئے برباد ہو گئے:کہہ کر ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیتا ہے اورجہاز کریش کر دیتا ہے، اگر کپتان خوش اندیش ہو تو آخری وقت تک ہمت نہیں ہارتا اور سیف لینڈنگ کرا کر ہی دم لیتا ہے۔ لہذا بھائی تنقیدیں تو ہوتی رہیں گی تخلیقی عمل نہیں رکنا چاہیے۔دیکھیے وزارت بہبود آبادی سے بھی آبادی کبھی رک سکی ہے۔ماشاء اللہ نونہال پیدا ہوتے جاتے ہیں ۔
اب آتے ہیں آپ کے اٹھائے گئے نکات کی طرف :
پانچویں شعر میں ’ابھی‘ کی جگہ ’اب‘ کا مقام تھا
میں بھی اب ہی کہنا چاہتا تھا مگر وزن کی مجبوری آڑے آگئی ،خیر: ابھی : کو بھی میں غلط نہیں سمجھتا نثر دیکھ لیتے ہیں:
1-ہم بے سر و ساماں تو کبھی کے ہو گئے اب خود کو بے سرو ساماں پاتے ہیں
2-ہم بے سر و ساماں تو کبھی کے ہو گئے ابھی خود کو بے سرو ساماں پاتے ہیں
میرا ذوق تو کہتا ہے کہ دوسرا جملہ بھی غلط نہیں ۔
اور آٹھویں شعر میں ’مد مست‘ کی ’ بد مست‘ بہتر ہوتا
علوی بھائی بدمست تو ہاتھی ہوتا ہے۔
مدمست نظارے کم مستعمل ہے لیکن ذوق کو کھٹکتا بھی نہیں ۔ایک جگہ بیکل اتساہی کا گیت پڑھا جہاں انھوں نے: مدمست پون : ترکیب استعمال کی ہے دیکھیے:

نشہ و کیفِ غزل ، حُسنِ غزل ، جانِ غزل
آ تجھے گیت کا اندازِ ترنّم دے دوں

حُسْن محشر کا لٹاتا ہوا اندازِ خرام
تیرے چرنوں کو دھلاتے ہوئے مدمست پون
رقص کرتی ہوئی آنچل کو تیرے دوج کی شام
تیری انگڑائی کو بل کھاتا ہوا نیل گگن
تیری پرچھائیں سے تعمیر کروں تاج محل
آ تجھے گیت کا اندازِ ترنّم دے دوں
یاسر بھائی ، عمدہ غزل ہے . کچھ اشعار تو بہت اعلیٰ ہیں . داد قبول فرمائیے

لیکن سندھی ہوتے ہوئے آپ کی اُرْدُو واقعی غضب کی ہے . :) ماشاء اللہ
جزاک اللہ خیر ا و احسن الجزا ۔آپ کے کلام کا انتظار رہے گا۔
 
آخری تدوین:
علوی بھائی بدمست تو ہاتھی ہوتا ہے۔
مدمست نظارے کم مستعمل ہے لیکن ذوق کو کھٹکتا بھی نہیں ۔ایک جگہ بیکل اتساہی کا گیت پڑھا جہاں انھوں نے: مدمست پون : ترکیب استعمال کی ہے دیکھیے:

نشہ و کیفِ غزل ، حُسنِ غزل ، جانِ غزل
آ تجھے گیت کا اندازِ ترنّم دے دوں

حُسْن محشر کا لٹاتا ہوا اندازِ خرام
تیرے چرنوں کو دھلاتے ہوئے مدمست پون
رقص کرتی ہوئی آنچل کو تیرے دوج کی شام
تیری انگڑائی کو بل کھاتا ہوا نیل گگن
تیری پرچھائیں سے تعمیر کروں تاج محل
آ تجھے گیت کا اندازِ ترنّم دے دوں
یاسر بھائی ، ’بد مست‘ پر آپ کا خیال جان کر تَعَجُّب ہوا . یہ لفظ تو آنکھ ، نگاہ ، جوانی ، ساقی اور خوشبو جیسی چیزوں كے لیے خوب استعمال ہوا ہے لہٰذا ’نظاروں‘ كے لیے بالکل موزوں ہے . چند مثالیں دیکھیے .

بنا دینگی دُنیا کو اک دن شرابی
یہ بد مست آنکھیں ، یہ ڈورے گلابی ( احسان دانش )

چشمِ بدمست کو پِھر شیوۂ دلداری دے
دِلِ آوارہ کو پیغامِ گرفتاری دے ( علی سردار جعفری )

افسونِ نگہ سے تری اے ساقیٔ بدمست
شیشے میں ہوئی مثلِ پری اپنی نظر بند ( انشا اللہ خان انشا )

جذبۂ عیش کی ہر شورشِ فانی کی قسم
تجھ کو اپنی اسی بدمست جوانی کی قسم ( مجاز )

یہ بدمست خوشبو جو گہرا غنودہ نشہ لا رہی ہے
یہ کیسا نشہ ہے ( فہمیدہ ریاض )

دَر اصل ’مد مست‘ میں کوئی اور مسئلہ نہیں ، لیکن غزل میں اکلوتا ہندی لفظ ہونے کی وجہ سے یہ لفظ کچھ کھٹکتا ہے . بیکل اتساہی صاحب تو کثرت سے ہندی الفاظ استعمال کرتے تھے . ان کی مذکورہ نظم میں بھی کئی ہندی الفاظ ہیں ، لہٰذا وہاں ’مد مست‘ کھپ جاتا ہے .
آپ کے کلام کا انتظار رہے گا۔
میں آج کل یوں بھی بہت مصروف رہتا ہوں . ایک تفصیلی پیغام تحریر کرنے میں پورے دن کا شیڈیول بگڑ جاتا ہے . :) پِھر گزشتہ ہفتے ایک دانت کا آپْریشَن بھی کروانا پڑا جس سے حالات مزید مشکل ہو گئے . بہر حال ، آپ كے حکم کی تعمیل میں ایک نظم پیش کر رہا ہوں . دیکھ لیجئیگا .
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر بھائی ، ’بد مست‘ پر آپ کا خیال جان کر تَعَجُّب ہوا . یہ لفظ تو آنکھ ، نگاہ ، جوانی ، ساقی اور خوشبو جیسی چیزوں كے لیے خوب استعمال ہوا ہے لہٰذا ’نظاروں‘ كے لیے بالکل موزوں ہے . چند مثالیں دیکھیے .

بنا دینگی دُنیا کو اک دن شرابی
یہ بد مست آنکھیں ، یہ ڈورے گلابی ( احسان دانش )

چشمِ بدمست کو پِھر شیوۂ دلداری دے
دِلِ آوارہ کو پیغامِ گرفتاری دے ( علی سردار جعفری )

افسونِ نگہ سے تری اے ساقیٔ بدمست
شیشے میں ہوئی مثلِ پری اپنی نظر بند ( انشا اللہ خان انشا )

جذبۂ عیش کی ہر شورشِ فانی کی قسم
تجھ کو اپنی اسی بدمست جوانی کی قسم ( مجاز )

یہ بدمست خوشبو جو گہرا غنودہ نشہ لا رہی ہے
یہ کیسا نشہ ہے ( فہمیدہ ریاض )
علوی بھائی دیکھیے میرا: بدمست ہاتھی : آپ کو یہاں لے ہی آیا،اسی لیے میں ایسے شوشے چھوڑتا رہتا ہوں۔
میں آج کل یوں بھی بہت مصروف رہتا ہوں . ایک تفصیلی پیغام تحریر کرنے میں پورے دن کا شیڈیول بگڑ جاتا ہے . :) پِھر گزشتہ ہفتے ایک دانت کا آپْریشَن بھی کروانا پڑا جس سے حالات مزید مشکل ہو گئے . بہر حال ، آپ كے حکم کی تعمیل میں ایک نظم پیش کر رہا ہوں . دیکھ لیجئیگا .
جزاک اللہ خیر کہ آپ نے میری بات رکھ لی۔
 
Top