غزل: زمانے سے اخلاق و کردار گم ہے ٭ تابش

زمانے سے اخلاق و کردار گم ہے
ہوس اور مطلب میں ایثار گم ہے

شجر کی جگہ جب سے لی ہے حجر نے
ہر آنگن سے چڑیوں کی چہکار گم ہے

میں عدسہ اٹھا کر خبر ڈھونڈتا ہوں
کہ اب اشتہاروں میں اخبار گم ہے

ہوا بے وفائی کی ایسی چلی ہے
وفا کی طلب ہے، وفادار گم ہے

بچائے کوئی ناخدا بھی تو کیسے
کہ امت کی نیّا کی پتوار گم ہے

ہوئی بزدلی رہنماؤں پہ طاری
کہ سر تو سلامت ہے، دستار گم ہے

نہیں کوئی جو ظلم کو ظلم کہہ دے
زبانیں ہیں موجود، اظہار گم ہے

بنی زندگی دوڑ سرمایے کی اب
زیادہ کی خواہش میں معیار گم ہے

سرابوں کے ہم ہیں تعاقب میں تابشؔ
ہمارے یہاں چشمِ بیدار گم ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 

محمداحمد

لائبریرین
شجر کی جگہ جب سے لی ہے حجر نے
اب آنگن سے چڑیوں کی چہکار گم ہے
بچائے کوئی ناخدا بھی تو کیسے
کہ امت کی نیّا کی پتوار گم ہے
نہیں کوئی جو ظلم کو ظلم کہہ دے
زبانیں ہیں موجود، اظہار گم ہے
سرابوں کے ہم ہیں تعاقب میں تابشؔ
ہمارے یہاں چشمِ بیدار گم ہے

بہت خوب تابش بھائی!

عمدہ غزل ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم تابش بھائی !

شجر کی جگہ جب سے لی ہے حجر نے
اب آنگن سے چڑیوں کی چہکار گم ہے

واہ -خوب -

اسی زمین میں کچھ شرارت سوجھ رہی ہے :

میں تالاب سے باہر آ تو گیا ہوں
مگر صاحبو ! کرتا شلوار گم ہے
اب آنا ہے تالاب کے پھر سے اندر
کہ بندر تو بالائے اشجار گم ہے
:LOL:

محتاج دعا
یاسر
 
السلام علیکم تابش بھائی !

شجر کی جگہ جب سے لی ہے حجر نے
اب آنگن سے چڑیوں کی چہکار گم ہے

واہ -خوب -
جزاک اللہ خیر یاسر بھائی۔
اسی زمین میں کچھ شرارت سوجھ رہی ہے :

میں تالاب سے باہر آ تو گیا ہوں
مگر صاحبو ! کرتا شلوار گم ہے
اب آنا ہے تالاب کے پھر سے اندر
کہ بندر تو بالائے اشجار گم ہے
:LOL:
ہاہا۔ یہ تو بڑی نازک صورتحال ہو گئی ہے۔ :D
 
میں عدسہ اٹھا کر خبر ڈھونڈتا ہوں
کہ اب اشتہاروں میں اخبار گم ہے
نو بجے والے خبرنامے کی شہ سرخیاں سنتے ہوئے یہ شعر نظر سے گزرا اور بے ساختہ ہنسی آ گئی :)
خوب غزل ہے تابش بھائی ... تعجب ہے کہ پہلے کیونکر نہیں پڑھی... ماشاء اللہ.
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
زمانے سے اخلاق و کردار گم ہے
ہوس اور مطلب میں ایثار گم ہے

شجر کی جگہ جب سے لی ہے حجر نے
اب آنگن سے چڑیوں کی چہکار گم ہے

میں عدسہ اٹھا کر خبر ڈھونڈتا ہوں
کہ اب اشتہاروں میں اخبار گم ہے

ہوا بے وفائی کی ایسی چلی ہے
وفا کی طلب ہے، وفادار گم ہے

بچائے کوئی ناخدا بھی تو کیسے
کہ امت کی نیّا کی پتوار گم ہے

ہوئی بزدلی رہنماؤں پہ طاری
کہ سر تو سلامت ہے، دستار گم ہے

نہیں کوئی جو ظلم کو ظلم کہہ دے
زبانیں ہیں موجود، اظہار گم ہے

بنی زندگی دوڑ سرمایے کی اب
زیادہ کی خواہش میں معیار گم ہے

سرابوں کے ہم ہیں تعاقب میں تابشؔ
ہمارے یہاں چشمِ بیدار گم ہے
بہت خوب تابش بھائی۔
لاجواب۔ عمدہ غزل۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔آمین۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھے اشعار ہیں تابش بھائی ! بہت خوب! اچھے اصلاحی مضامین باندھے ہیں ۔ اللہ کرے یہ کوشش مقبول ہو۔

شجر کی جگہ جب سے لی ہے حجر نے
اب آنگن سے چڑیوں کی چہکار گم ہے

اس شعر کو دیکھ لیجئے ۔ پہلے مصرع میں جب سے لکھنےکے بعد دوسرے میں "اب" بے محل ہے۔ دوسرے مصرع میں "تب سے" تو آسکتا ہے لیکن اب نہیں ۔ اب کی جگہ "ہر" کرکے دیکھ لیجئے ۔​
 

الف عین

لائبریرین
اچھے اشعار ہیں تابش بھائی ! بہت خوب! اچھے اصلاحی مضامین باندھے ہیں ۔ اللہ کرے یہ کوشش مقبول ہو۔

شجر کی جگہ جب سے لی ہے حجر نے
اب آنگن سے چڑیوں کی چہکار گم ہے

اس شعر کو دیکھ لیجئے ۔ پہلے مصرع میں جب سے لکھنےکے بعد دوسرے میں "اب" بے محل ہے۔ دوسرے مصرع میں "تب سے" تو آسکتا ہے لیکن اب نہیں ۔ اب کی جگہ "ہر" کرکے دیکھ لیجئے ۔​
یہ بات تو درست ہے ہی، اس کے علاوہ مجھے 'حجر' بھی غلط لگا، سیمنٹ کانکریٹ کے لئے نہیں، حجر اصلی فطری پتھر کو کہتے ہیں جو شجر کی جگہ لے ہی نہیں سکتا؟ کیا سیمنٹ کو کہا جا سکتا ہے حجر؟
 
Top