امجد علی راجا
محفلین
بھیجا ہے ہم نے اس کو یہ پیغام، سوچ لے
ہوتا برا ہے پیار کا انجام، سوچ لے
آساں نہیں ہے راستہ الفت کا اجنبی
آئے گی پیش گردشِ ایام، سوچ لے
مجھ سے بڑھا رہا ہے مراسم، زہے نصیب
میں ہوں مگر جہان میں بدنام، سوچ لے
ساغر سے دل کی آگ بجھانے چلا ہے تُو
پانی نہیں یہ آگ کا ہے جام، سوچ لے
کرتا ہے حق کی بات ستمگر کے روبرو
آئے گا سر پہ اور ہی الزام، سوچ لے
راجا نہیں ہے دل پہ ابھی سے کچھ اختیار
آغاز اس طرح ہے تو انجام، سوچ لے