غزل - سوچ لے

بھیجا ہے ہم نے اس کو یہ پیغام، سوچ لے​
ہوتا برا ہے پیار کا انجام، سوچ لے​
آساں نہیں ہے راستہ الفت کا اجنبی​
آئے گی پیش گردشِ ایام، سوچ لے​
مجھ سے بڑھا رہا ہے مراسم، زہے نصیب​
میں ہوں مگر جہان میں بدنام، سوچ لے​
ساغر سے دل کی آگ بجھانے چلا ہے تُو​
پانی نہیں یہ آگ کا ہے جام، سوچ لے​
کرتا ہے حق کی بات ستمگر کے روبرو​
آئے گا سر پہ اور ہی الزام، سوچ لے​
راجا نہیں ہے دل پہ ابھی سے کچھ اختیار​
آغاز اس طرح ہے تو انجام، سوچ لے​
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب راجہ صاحب
کرتا ہے حق کی بات ستمگر کو روبرو​
آئے گا سر پہ اور ہی الزام، سوچ لے​
 
بھیجا ہے ہم نے اس کو یہ پیغام، سوچ لے
ہوتا برا ہے پیار کا انجام، سوچ لے

آساں نہیں ہے راستہ الفت کا اجنبی
آئے گی پیش گردشِ ایام، سوچ لے

مجھ سے بڑھا رہا ہے مراسم، زہے نصیب
میں ہوں مگر جہان میں بدنام، سوچ لے

ساغر سے دل کی آگ بجھانے چلا ہے تُو
پانی نہیں یہ آگ کا ہے جام، سوچ لے

کرتا ہے حق کی بات ستمگر کو روبرو
آئے گا سر پہ اور ہی الزام، سوچ لے

راجا نہیں ہے دل پہ ابھی سے کچھ اختیار
آغاز اس طرح ہے تو انجام، سوچ لے
بہت خوب جناب۔ داد قبول کیجیے۔

ا س مصرع میں اگر’’ستمگر کو روبرو ‘‘ کے بجائے’’ ستمگر کے رُو برُو ‘‘ کردیا جائے تو؟
 

شیزان

لائبریرین
مجھ سے بڑھا رہا ہے مراسم، زہے نصیب
میں ہوں مگر جہان میں بدنام، سوچ لے

سوچنا کیا!!
جو بھی ہو گا ، دیکھا جائے گا۔۔
عمدہ کلام چھوٹے بھائی
 
Top