کاشفی
محفلین
غزل
صبح تک روئی، جو دیکھا اپنے دیوانے کا حال
شمع پر روشن نہ ہوتا کاش پروانے کا حال
خُم اِدھر ٹوٹا پڑا ہے اور ساغر اُس طرف
بس سمجھ لے اب اسی سے کوئی میخانے کا حال
کچھ تو کہہ اے آئینہ، تو بھی تو اُس محفل میں تھا
کم سے کم کچھ زلف کی رُوداد، کچھ شانے کا حال
ہر کتابِ زندگی دو باب پر ہے منقسم
ایک تو اپنی کہانی، ایک بیگانے کا حال
رات یوں گردش میں تھی محفل میں اسکی چشمِ مست
جس طرح ہوتا ہے وقتِ دور پیمانے کا حال
ایک میں حق کی پرستش، ایک میں باطل کا زور
ایک ہے کعبے کا عالم اور بت خانے کا حال
جھاڑتے رہتے ہیں دامن، ان کو کیا کیا وہم ہے
کہہ دیا کس نے مرے مٹی میں مِل جانے کا حال
اپنے حصّے کی سیاہی دے بھی دے اے شامِ غم
لکھ ہی ڈالوں آج میں اپنے سیہ خانے کا حال
قیس دشتِ آرزو میں ٹھوکریں کھاتا پھرا
دیکھ لو حد سے زیادہ پاؤں پھیلانے کا حال
نجم اک عرصہ ہوا تائب ہوئے، لیکن ہنوز
پوچھتا رہتا ہوں ہر میکش سے میخانے کا حال
(نجمؔ ندوی)