نوید ناظم
محفلین
ہم نے رختِ سفر باندھ لیا ہے
تجھ کو کس نے مگر باندھ لیا ہے
اب نہ جائیں گے اٹھ کر یہاں سے ہم
ہم نے ایک ہی در باندھ لیا ہے
قید اس سے بڑی اور نہیں ہے
تجھ کو دنیا نے گر باندھ لیا ہے
مجھ کو بھی چھپا صیاد کہیں پر
پھیل چکی خبر باندھ لیا ہے
وہ ستارے بھی گردش میں لے آیا
اور دیکھو قمر باندھ لیا ہے
تجھ کو کس نے مگر باندھ لیا ہے
اب نہ جائیں گے اٹھ کر یہاں سے ہم
ہم نے ایک ہی در باندھ لیا ہے
قید اس سے بڑی اور نہیں ہے
تجھ کو دنیا نے گر باندھ لیا ہے
مجھ کو بھی چھپا صیاد کہیں پر
پھیل چکی خبر باندھ لیا ہے
وہ ستارے بھی گردش میں لے آیا
اور دیکھو قمر باندھ لیا ہے