محمد تابش صدیقی
منتظم
نشانِ منزلِ الفت سراب جیسا ہے
نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے
طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے
ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی
وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے
سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے
یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے
وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت
یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے
لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل
گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے
متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ
یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
نہیں ہے کوئی حقیقت، یہ خواب جیسا ہے
طویل ہوتی چلی جائے ہے شبِ فرقت
یہ انتظارِ سحر تو عذاب جیسا ہے
ستم شعار سہی، غیر پر نثار سہی
وہ ہے تو اپنا ہی، خانہ خراب، جیسا ہے
سنے ہیں راہِ محبت کے سینکڑوں قصے
یہ راستہ ہی دکھوں کی کتاب جیسا ہے
وہ ہم سے مل کے بھی پوچھے رقیب کی بابت
یہ ہے سوال مگر خود جواب جیسا ہے
لگے ہے جادۂ منزل بھی ہوبہو منزل
گلاب ہے تو نہیں، پر گلاب جیسا ہے
متاعِ عیش و طرب ہی میں گم نہ ہو تابشؔ
یہ عالمِ گُزَراں اک حباب جیسا ہے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی