آکے سورج پلٹ گیا آخر
آج کا دن بھی کٹ گیا آخر
رات میں سب ستم شعاروں کے
نام و اکرام رٹ گیا آخر
اشک کوئی نہ آنکھ سے ٹپکا
رنج سے سینہ پھٹ گیا آخر
موت آئی نہ آسماں ٹوٹا
عرصہء ہجر کٹ گیا آخر
زلف تا دیر رخ سے الجھی رہی
چاند سے ابر چھٹ گیا آخر
بیچ میں اب کئی فصیلیں ہیں
صحن ورثہ تھا، بٹ گیا آخر
جنسِ دل کا وفا کی منڈی میں
نرخ کچھ اور گھٹ گیا آخر
جس کی شاخیں تھیں رازداں اپنی
آج وہ پیڑ کٹ گیا آخر
سخت ناراض تھا جو مدت سے
آکے مجھ سے لپٹ گیا آخر
اُس بدن کی تھی لو شدید اتنی
کہ میں خود میں سمٹ گیا آخر
دشتِ آوارگی میں مزمل
جو بھی آیا، پلٹ گیا آخر
آج کا دن بھی کٹ گیا آخر
رات میں سب ستم شعاروں کے
نام و اکرام رٹ گیا آخر
اشک کوئی نہ آنکھ سے ٹپکا
رنج سے سینہ پھٹ گیا آخر
موت آئی نہ آسماں ٹوٹا
عرصہء ہجر کٹ گیا آخر
زلف تا دیر رخ سے الجھی رہی
چاند سے ابر چھٹ گیا آخر
بیچ میں اب کئی فصیلیں ہیں
صحن ورثہ تھا، بٹ گیا آخر
جنسِ دل کا وفا کی منڈی میں
نرخ کچھ اور گھٹ گیا آخر
جس کی شاخیں تھیں رازداں اپنی
آج وہ پیڑ کٹ گیا آخر
سخت ناراض تھا جو مدت سے
آکے مجھ سے لپٹ گیا آخر
اُس بدن کی تھی لو شدید اتنی
کہ میں خود میں سمٹ گیا آخر
دشتِ آوارگی میں مزمل
جو بھی آیا، پلٹ گیا آخر