غزل نما - برائے اصلاح

مزمل حسین

محفلین
آکے سورج پلٹ گیا آخر
آج کا دن بھی کٹ گیا آخر

رات میں سب ستم شعاروں کے
نام و اکرام رٹ گیا آخر

اشک کوئی نہ آنکھ سے ٹپکا
رنج سے سینہ پھٹ گیا آخر

موت آئی نہ آسماں ٹوٹا
عرصہء ہجر کٹ گیا آخر

زلف تا دیر رخ سے الجھی رہی
چاند سے ابر چھٹ گیا آخر

بیچ میں اب کئی فصیلیں ہیں
صحن ورثہ تھا، بٹ گیا آخر

جنسِ دل کا وفا کی منڈی میں
نرخ کچھ اور گھٹ گیا آخر

جس کی شاخیں تھیں رازداں اپنی
آج وہ پیڑ کٹ گیا آخر

سخت ناراض تھا جو مدت سے
آکے مجھ سے لپٹ گیا آخر

اُس بدن کی تھی لو شدید اتنی
کہ میں خود میں سمٹ گیا آخر

دشتِ آوارگی میں مزمل
جو بھی آیا، پلٹ گیا آخر
 
لیکن یہ غزل نما کیوں؟ غزل نما نام تو ایک با قاعدہ صنف کا ہے!!
وہ کسرِ نفسی کے طور پر غزل نما کہہ رہے ہیں، شاید۔

اُس بدن کی تھی لو شدید اتنی
کہ میں خود میں سمٹ گیا آخر
یہاں "لو" پر البتہ اعراب لگ جائے تو بہتر ہے کہ ذہن لَو اور لُو دونوں کی طرف جاتا ہے۔
 
عمدہ غزل، مزمل بھائی۔ یہ شعر بالخصوص نہایت پسند آیا۔
موت آئی نہ آسماں ٹوٹا
عرصہء ہجر کٹ گیا آخر
لیکن ذیل کے شعر میں ایک قباحت ہے۔ مجھے حیرت ہے الف عین صاحب اور آسی صاحب کی توجہ نہیں گئی!
دشتِ آوارگی میں مزمل
جو بھی آیا، پلٹ گیا آخر
مصرعِ اولیٰ کی تقطیع فرمائیے ذرا۔۔۔
پس نوشت: میں بن بلائے اس لڑی میں در آیا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس بدیہی معاملے کو کسی نے نہیں اٹھایا۔ کہے بغیر رہا نہیں گیا۔ امید ہے برا نہیں مانیں گے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب !! اچھی غزل ہے بھائی !!
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہیں کہیں کچھ دنوں پہلے پڑھا تھا کہ آپ کا تخلص مزمل بروزن حاصل ہے ۔کیا یہ بات صحیح ہے؟! راحیل بھائی شاید اسی طرف توجہ دلارہے ہیں ۔
 
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہیں کہیں کچھ دنوں پہلے پڑھا تھا کہ آپ کا تخلص مزمل بروزن حاصل ہے ۔کیا یہ بات صحیح ہے؟! راحیل بھائی شاید اسی طرف توجہ دلارہے ہیں ۔
مسئلہ پھر بھی رہے گا۔
دشتِ آوارگی میں مزمل
جو بھی آیا، پلٹ گیا آخر
کیا خیال ہے؟
 

مزمل حسین

محفلین
واہ، اچھی غزل ہے۔ اصلاح کی ضرروت نہیں
بہت آداب استادِ محترم!

لیکن یہ غزل نما کیوں؟ غزل نما نام تو ایک با قاعدہ صنف کا ہے!!

اب لگے ہاتھوں مذکورہ صنف کا تعارف بھی کروا دیں تو میرا بھلا ہو جائے۔
 

مزمل حسین

محفلین
وہ کسرِ نفسی کے طور پر غزل نما کہہ رہے ہیں، شاید۔

آپ نے بجا فرمایا استادِ محترم!

یہاں "لو" پر البتہ اعراب لگ جائے تو بہتر ہے کہ ذہن لَو اور لُو دونوں کی طرف جاتا ہے۔

سر، لام پر زبر لگانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو پتا چلا کہ تدوین کا اختیار موقوف ہو چکا ہے۔
ویسے پیش کی طرف ذہن جانے کا امکان اسی صورت میں ممکن ہے جب اسے مزاحیہ شعر سمجھا جائے۔
 

مزمل حسین

محفلین
عمدہ غزل، مزمل بھائی۔ یہ شعر بالخصوص نہایت پسند آیا۔


لیکن ذیل کے شعر میں ایک قباحت ہے۔ مجھے حیرت ہے الف عین صاحب اور آسی صاحب کی توجہ نہیں گئی!

مصرعِ اولیٰ کی تقطیع فرمائیے ذرا۔۔۔
پس نوشت: میں بن بلائے اس لڑی میں در آیا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس بدیہی معاملے کو کسی نے نہیں اٹھایا۔ کہے بغیر رہا نہیں گیا۔ امید ہے برا نہیں مانیں گے۔ :)
سر آپ کا ''بھائی'' سے تخاطب کرنا مجھے خوشی سے سرشار کر گیا۔ اور شعر کو سراہنے کے لئے بھی آپ کا متشکر و ممنون ہوں۔
قباحتوں کی نشاندہی اور اصلاح کے لئے ہی تو پیش کی ہے۔
مصرع اولی کی تقطیع ہے:
دش ت آ وا ر گی م مز زم مل
رہی بات ''پسِ نوشت'' کی تو عرض یہ ہے کہ میں نے محفلین سے 'اوپن' درخواست کی تھی اصلاح کی اور ٹیگ کسی کو نہیں کیا تھا، لیکن دو دن تک کوئی شنوائی نہ ہوئی تو صرف سر اعجاز صاحب کو اس لئے ٹیگ کیا کہ وہی ہیں جنھوں نے اصلاح کا بیڑہ باقاعدگی سے اٹھایا ہوا ہے۔ وگرنہ تو عمومی درخواست ہے اور آپ کا مشورہ میرے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
مختصر یہ کہ:
میری حالت ہے دیکھنے والی
دیکھنے بھی نہ آؤ گے صاحب؟؟؟
 
آخری تدوین:

مزمل حسین

محفلین
بہت خوب !! اچھی غزل ہے بھائی !!
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہیں کہیں کچھ دنوں پہلے پڑھا تھا کہ آپ کا تخلص مزمل بروزن حاصل ہے ۔کیا یہ بات صحیح ہے؟! راحیل بھائی شاید اسی طرف توجہ دلارہے ہیں ۔
بہت شکریہ ظہیر بھائی!
در اصل میرا نام (مُزَّمِّلْ) بر وزن ''گھبراہٹ'' ہے۔
یَا أَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ۔ قُمِ اللَّیْلَ إِلاَّ قَلیلاً۔
 
مصرع اولی کی تقطیع ہے:
دش ت آ وا ر گی م مز زم مل
بھائی میں تو کسی مصرعے کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ مزمل کا وزن زے اور میم ثانی (دونوں) مشدد کے ساتھ (مفعولن) بالکل درست ہے۔ بلکہ میں نے کسی سابقہ تبصرے میں کہا بھی تھا کہ اگر آپ نے ارادی طور پر اس وزن کا اہتمام کیا ہے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی۔
 

مزمل حسین

محفلین
دو مصرعے مزید جوڑے ہیں:
وہ شبِ وصل میری ہر تدبیر
با سہولت الٹ گیا آخر

اساتذہ سے درخواست ہے کہ عروضی خطا کے علاوہ دیگر معاملات پر بھی رہنمائی فرمائیں۔
جیسا کہ مجھے لگتا ہے کہ درج ذیل شعر کو اس غزل سے نکال کر کسی اور موقع کے لئے رکھا جائے جہاں ''گھٹ'' کی بجائے ''گِر'' قافیہ کے ساتھ بہتر رہے گا۔ سٹاک ایکسچینج کا سا سماں بن جائے گا۔
جنسِ دل کا وفا کی منڈی میں
نرخ کچھ اور گھٹ گیا آخر
 

ماہا عطا

محفلین
آکے سورج پلٹ گیا آخر
آج کا دن بھی کٹ گیا آخر

رات میں سب ستم شعاروں کے
نام و اکرام رٹ گیا آخر

اشک کوئی نہ آنکھ سے ٹپکا
رنج سے سینہ پھٹ گیا آخر

موت آئی نہ آسماں ٹوٹا
عرصہء ہجر کٹ گیا آخر

زلف تا دیر رخ سے الجھی رہی
چاند سے ابر چھٹ گیا آخر

بیچ میں اب کئی فصیلیں ہیں
صحن ورثہ تھا، بٹ گیا آخر

جنسِ دل کا وفا کی منڈی میں
نرخ کچھ اور گھٹ گیا آخر

جس کی شاخیں تھیں رازداں اپنی
آج وہ پیڑ کٹ گیا آخر

سخت ناراض تھا جو مدت سے
آکے مجھ سے لپٹ گیا آخر

اُس بدن کی تھی لو شدید اتنی
کہ میں خود میں سمٹ گیا آخر

دشتِ آوارگی میں مزمل
جو بھی آیا، پلٹ گیا آخر
بہت خوب بہت اچھی لکھی ہے۔۔۔۔۔۔
 
پھر وہی شہر، وہی لوگ، وہی پتھر ہیں
پھر وہی تلخ نوائی جو مرا حصہ ہے​

اپنی جسارتیں الگ لکھنے کی بجائے اقتباس میں شامل کر رہا ہوں۔

آکے سورج پلٹ گیا آخر
آج کا دن بھی کٹ گیا آخر
جنابِ الف عین کے مزاج میں جو نرمی ہے، وہ میرے نصیب میں بھی ہو جائے تو کیا کہنے۔ مطلعے پر میں مطمئن نہیں ہوں۔ غزل کا اولین تعارف مطلع ہوتا ہے اس کو جتنا قوی بنا سکیں بنائیں۔

رات میں سب ستم شعاروں کے
نام و اکرام رٹ گیا آخر
یہ مَیں ہے یا میں ہے؟ دوسرے اس میں ردیف کچھ کٹی ہوئی لگتی ہے۔ ایک منٹ کے لئے اس کو ہٹا دیں تو بھی شعر کے مفہوم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ردیف اختیاری چیز ہے (بلکہ میں تو اس کو قافیے کی توسیع کہا کرتا ہوں) تاہم جہاں آپ ردیف اختیار کرتے ہیں، اس کو نبھائیے۔ میں خود کئی بار غیر مردف کہہ دیتا ہوں کہ ڈھیلی ردیف سے ردیف کا نہ ہونا بہتر۔

اشک کوئی نہ آنکھ سے ٹپکا
رنج سے سینہ پھٹ گیا آخر
اشک کوئی ۔۔ اس کو ادا کرنے میں رکاوٹ آتی ہے نا؛ وزن پورا ہے تو کیا ہوا، خاص طور پر غزل کے شعر کی لفظیات اور اصوات کو بھی نرمی سے ادا ہونا چاہئے۔

موت آئی نہ آسماں ٹوٹا
عرصہء ہجر کٹ گیا آخر
مناسب ہے

زلف تا دیر رخ سے الجھی رہی
چاند سے ابر چھٹ گیا آخر
ایک تو تادیر رخ میں ویسی ہی رکاوٹ ہے۔ اور دوسرے یہاں تقاضا الجھتی رہی کا ہے۔ دوسرے مصرعے میں چاند کو ہٹانا بھی پڑ جائے تو کوئی ابہام پیدا نہیں ہوتا، الفاظ بچائیے اور اپنا مضمون مکمل کیجئے۔

بیچ میں اب کئی فصیلیں ہیں
صحن ورثہ تھا، بٹ گیا آخر
فصیل کے ساتھ مضبوط تر علامت شہر کی ہے بہ نسبت صحن کے۔ دوسرے مصرعے کو بھی کوشش کیجئے کہ نکھار سکیں۔

جنسِ دل کا وفا کی منڈی میں
نرخ کچھ اور گھٹ گیا آخر
وفا کی منڈی میں تو جنسِ دل کا بھاؤ نہیں گرتا، مفادات کی منڈی ہو یا کچھ ایسی بات ہو تو اور بات ہے۔ ویسے یہ شعر غزل کی مجموعی فضا سے کسی قدر ہٹا ہوا لگتا ہے۔ ہو سکے تو اسے الگ رکھ لیجئے، کسی ہم فضا غزل میں آ جائے گا۔

جس کی شاخیں تھیں رازداں اپنی
آج وہ پیڑ کٹ گیا آخر
یہاں معنوی تقاضا "بھی" کا ہے، نہیں تو پیڑ کا کٹ جانا محض ایک بیان رہ جاتا ہے۔ رازدان کا اٹھ جانا البتہ انشائیہ عنصر پیدا کرتا ہے۔ آج اور آخر ان دونوں کی بجائے ایک کو رکھئے، شعر زیادہ چست بنے گا۔

سخت ناراض تھا جو مدت سے
آکے مجھ سے لپٹ گیا آخر
سخت کی بجائے اگر میں "یوں ہی" کی سفارش کروں؟

اُس بدن کی تھی لو شدید اتنی
کہ میں خود میں سمٹ گیا آخر
اس پر بات ہو چکی

دشتِ آوارگی میں مزمل
جو بھی آیا، پلٹ گیا آخر
مناسب ہے۔

بہت شکریہ۔
 
آخری تدوین:
Top