غزل ::کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے ::

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

تمام اہالیان محفل کی خدمات میں ایک غزل پیش خدمت ہے -آپ سب کی بے لاگ رائے کا انتظار رہے گا -

یاسر



غزل

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے


آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے


بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے


آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے


حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
 
السلام علیکم

تمام اہالیان محفل کی خدمات میں ایک غزل پیش خدمت ہے -آپ سب کی بے لاگ رائے کا انتظار رہے گا -

یاسر



غزل

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے


آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے


بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے


آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے


حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
مکرمی یاسر صاحب: سلام علیکم
آوارہ گردی کرتا ہوا اِدھر آنکلا تو آپ کی منفرد رنگ کی غزل دیکھی۔ سوچا کہ اس پر کچھ لکھوں لیکن مطلع میں ہی اپنی کم مائیگی پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی اور نے بھی اس پر اب تک خیال آرائی نہیں کی ہے۔ میری مشکل یہ ہے کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ چیری کا پودا ہوتا ہے یا درخت اور باد بہاری اس کے ساتھ کیا چھیڑ کرتی ہے؟ دوسرے چنار کے درخت کا رنگ اول اول کیا ہوتا ہے اور پھر خزاں اس کا کیسا حلیہ کرتی ہے؟ اور یہ :نقد نگاری: کس چڑہا کا نام ہے؟ سو صاحب جب تک ایسے سوالات کا جواب نہیں معلوم ہوتاہے کچھ لکھنے سے قاصر ہوں۔ وضاحت کر دیں تو کچھ ہمت کروں۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
السلام علیکم

تمام اہالیان محفل کی خدمات میں ایک غزل پیش خدمت ہے -آپ سب کی بے لاگ رائے کا انتظار رہے گا -

یاسر



غزل

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے


آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے


بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے


آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے


حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
مجھے تو اچھی لگی یہ غزل، سرور بھائی کا مزاج کیونکہ بے حد ثقہ ہے، اس لئے انہیں "نقد نگاری" پسند نہیں آئی،لیکن میں اسے قافئے کی مجبوری کے سبب قبول کرتا ہوں بلکہ بہر نگاراں کے ساتھ نگاری ایک صوتی لطف کا بھی اضافہ دے رہی ہے۔
میں تو یہ غزل سَمت کے لئے منتخب کر لیتا ہوں، ایک اور غزل شامل ہو تو دو غزلیں ایک ساتھ شامل کر دوں
 

ارشد رشید

محفلین
مکرمی یاسر صاحب: سلام علیکم
آوارہ گردی کرتا ہوا اِدھر آنکلا تو آپ کی منفرد رنگ کی غزل دیکھی۔ سوچا کہ اس پر کچھ لکھوں لیکن مطلع میں ہی اپنی کم مائیگی پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی اور نے بھی اس پر اب تک خیال آرائی نہیں کی ہے۔ میری مشکل یہ ہے کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ چیری کا پودا ہوتا ہے یا درخت اور باد بہاری اس کے ساتھ کیا چھیڑ کرتی ہے؟ دوسرے چنار کے درخت کا رنگ اول اول کیا ہوتا ہے اور پھر خزاں اس کا کیسا حلیہ کرتی ہے؟ اور یہ :نقد نگاری: کس چڑہا کا نام ہے؟ سو صاحب جب تک ایسے سوالات کا جواب نہیں معلوم ہوتاہے کچھ لکھنے سے قاصر ہوں۔ وضاحت کر دیں تو کچھ ہمت کروں۔ شکریہ۔
السلام علیکم

تمام اہالیان محفل کی خدمات میں ایک غزل پیش خدمت ہے -آپ سب کی بے لاگ رائے کا انتظار رہے گا -

یاسر



غزل

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے


آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے


بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے


آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے


حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
== حضرت مطلع پہ میں اٹک گیا - انگریزی کا لفط چیری اتنے دھڑلے سے کیسے استعمال کیا جاسکتا-
جبکہ یہ تو حشو میں آرہاہے یہاں ںیہی لانا شاعر کی مجبوری بھی نہیں - اوپر سے فارسی میں چیری لونڈی کو کہتے ہیں - میرے نزدیک یہ مطلع غزل کو اس کے مقام سے گرا رہا ہے -

خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
== سر حسیں چناروں کا رنگ خزاں تو نارنجی یا بھورا ہوتا ہے - تو شاعر کا ایسا رنگ ہوجانا چہ معنی دارد؟

آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سُروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
== اچھا ہے

بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
== بس اس میں ایسا لگتا ہے ایک ہی گھر کی بات ہو رہی ہے - جس میں شاعر دفتر جاتا ہے اور اسکی بیوی گھر داری کرتی ہے - یہ تو دو الگ الگ گھروں کی بات ہورہی ہے یہ بات آپ نے فرض کر لی ہے جسکی ترسیل ہو بھی سکتی ہے نہیں بھی -

آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
== جناب یہ اک سایہ کیا چیز ہے ؟- اردو میں ایسی کوئ اصطلاح تو مستعمل نہیں ہے - تو پھرشاعر کو
اس پہ روشنی ڈالنی ہوگی یہ کیا بلا ہے ؟

حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
== جناب اس شعر کا جواب نہیں - بہت اعلی
السلام علیکم

تمام اہالیان محفل کی خدمات میں ایک غزل پیش خدمت ہے -آپ سب کی بے لاگ رائے کا انتظار رہے گا -

یاسر



غزل

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے


آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے


بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے


آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے


حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
== حضرت مطلع پہ میں اٹک گیا - انگریزی کا لفط چیری اتنے دھڑلے سے کیسے استعمال کیا جاسکتا-
جبکہ یہ تو حشو میں آرہاہے یہاںیہی لانا شاعر کی مجبوری بھی نہیں - اوپر سے فارسی میں چیری لونڈی کو کہتے ہیں - میرے نزدیک یہ مطلع غزل کو اس کے مقام سے گرا رہا ہے -

خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
== سر حسیں چناروں کا رنگ خزاں تو نارنجی یا بھورا ہوتا ہے - تو شاعر کا ایسا رنگ ہوجانا چہ معنی دارد؟

آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سُروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
== اچھا ہے

بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
== بس اس میں ایسا لگتا ہے ایک گھر کی ہی بات ہو رہی ہے - جس میں شاعر دفتر جاتا ہے اور اسکی بیوی گھر داری کرتی ہے - یہ تو لگ دو الگ الگ گھروں میں ہے یہ بات آپ نے فرض کر لی ہے جسکی ترسیل ہو بھی سکتی ہے نہیں بھی -

آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
== جناب یہ اک سایہ کیا چیز ہے ؟- اردو میں ایسی کوئ اصطلاح تو مستعمل نہیں ہے - تو پھرشاعر کو
اس پہ روشنی ڈالنی ہوگی یہ کیا بلا ہے ؟

حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
== جناب اس شعر کا جواب نہیں - بہت اعلی
 

یاسر شاہ

محفلین
مکرمی یاسر صاحب: سلام علیکم
مشفقی و علیکم السلام
آوارہ گردی کرتا ہوا اِدھر آنکلا تو آپ کی منفرد رنگ کی غزل دیکھی۔ سوچا کہ اس پر کچھ لکھوں لیکن مطلع میں ہی اپنی کم مائیگی پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی اور نے بھی اس پر اب تک خیال آرائی نہیں کی ہے
آپ جانتے ہی ہیں کہ بنیادی طور پہ آپ کے بے لاگ تبصرے کے لیے ہی یہ غزل پیش کی ہے جیسا کہ ایک اور لڑی میں یہ قصّہ چھڑا تھا کہ آپ ابھی یہاں کے ماحول سے نا آشنا ہیں سو بے لاگ تبصرے سے گریز فرما رہے ہیں ،لکھتے لکھتے آپ کو تبصرہ حذف کرنا پڑ جاتا ہے کہ کہیں دل آزاری نہ واقع ہو جائے اور میں نے وہاں ہامی بھری تھی کہ میں اپنی کاوشیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ ان پہ بے لاگ لکھیں یوں آپ کی تنقیدی افکار سے محفل متعارف ہو سکے -

نشود نصیب دشمن، کہ شود ہلاک تیغت
سر دوستاں سلامت، کہ تو خنجر آزمائی
عراقی

میری مشکل یہ ہے کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ چیری کا پودا ہوتا ہے یا درخت اور باد بہاری اس کے ساتھ کیا چھیڑ کرتی ہے؟
یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے

جاپان میں چیری بلاسم کے درخت پر پھولوں کا کھلنا موسمِ گل کی دلیل مانا جاتا ہے۔ سفید اور گلابی رنگ کا یہ ننھاسا پھول جو پاکیزگی اور طہارت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس ملک کا قومی پھول ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔چیری کے درخت سارا سال بے برگ و ثمر، ٹنڈ منڈکھڑے رہتے ہیں،بہار کے موسم میں چنددن کے لئے ان پر پھول کھلتے ہیں۔ہر ضلع میں موسم کے اعتبار سے چیری کی شاخیں الگ الگ وقت پر پھول اٹھاتی ہیں۔آج کل ان پھولوں کے جوبن کی رُت ہے۔ان پھولوں کو دیکھنا ایک باقاعدہ تہوار ہے۔شاخوں کے پھول اٹھانے کے ساتھ ہی ان کے دیدار کا تیوہار شروع ہوجاتا ہے، جسے مقامی زبان میں ”ہنامی“ کہتے ہیں جس کا لفظی مطلب ”پھول تکنا“ہے۔ اسے جاپانی سماج میں سب سے نمایاں تہوار کہا جائے تویہ مبالغہ نہیں ہو گا۔اگرچہ کیلنڈر میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔
----------

چیری بلا سم کے گلا بی اور سفید رنگ میں ملبو س پھو لو ں کو ان کی پا کیزگی کے سبب جا پا ن کی روح کہا جا تا ہے، مگر میرے خیا ل میں ان سے عقیدت کی وجہ شا ید خو بصو رتی سے زیادہ ان کی زندگی کا اختصا ر بھی ہے، جو کہ عمو ماً دو، چا ر دن ہی ہو تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پھو لو ں پر جو بن آتا ہے تو لو گ چٹائیاں لے کر باغو ں اور دریاؤں کے کنا رے ان درختوں کے قریب بیٹھ جاتے ہیں۔ کھا نے، شراب اور موسیقی سے دِل بہلاتے ہیں۔ کہیں کسی فیکٹری کے اہلکار منڈلی جمائے بیٹھے ہیں تو کسی جگہ طالب علموں کی ٹو لی گپ شپ لڑا نے میں مشغول ہے۔ کسی پھولوں سے لدے درخت کے نیچے محلے کے بوڑھے،بوڑھیاں محفل سجا ئے ہو ئے ہیں تو کہیں کسی دفتر کا سٹاف جشن بہاراں منا رہا ہے۔ چند دنوں کے لئے تو یہ پھو ل جہاں جہاں کھلتے ہیں،اس شہر میں زندگی کا نظام الاوقات ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں چیری بلاسم تلے بیٹھے ہنستے مسکراتے خوشگوار چہروں کو دیکھ کر بعض اوقا ت لگتا ہے کہ چند دن کے لئے ہی سہی، چیری کے پھول مزاج بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔


پورا مضمون پڑھنے کے لیے لنک پیش خدمت ہے :


دوسرے چنار کے درخت کا رنگ اول اول کیا ہوتا ہے اور پھر خزاں اس کا کیسا حلیہ کرتی ہے؟
چنار کے درخت کے دیگر موسموں میں پتے ہرے ہوتے ہیں لیکن خزاں میں بھورے اور سرخی مائل ہو جاتے ہیں اپنے خوبصورت ڈیزائن کے سبب نہ صرف درخت کو خوبصورت بنا دیتے ہیں بلکہ فرش پہ گر کر اسے بھی دلفریب بنا دیتے ہیں -
اور یہ :نقد نگاری: کس چڑہا کا نام ہے؟ سو صاحب جب تک ایسے سوالات کا جواب نہیں معلوم ہوتاہے کچھ لکھنے سے قاصر ہوں۔ وضاحت کر دیں تو کچھ ہمت کروں۔ شکریہ۔
نقد نگاری سے مراد تنقید نگاری ہے -

آپ کے بے لاگ تبصرے کا منتظر
یاسر
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
چنار کے درخت کے دیگر موسموں میں پتے ہرے ہوتے ہیں لیکن خزاں میں بھورے اور سرخی مائل ہو جاتے ہیں اپنے خوبصورت ڈیزائن کے سبب نہ صرف درخت کو خوبصورت بنا دیتے ہیں بلکہ فرش پہ گر کر اسے بھی دلفریب بنا دیتے ہیں -
ویسے تو یہ درخت بہت جگہوں پر پایا جاتا ہے لیکن کشمیر کے ساتھ اس کی خاص نسبت ہے۔
جس طرح قرآن کریم سورت التین میں درختوں اور پہاڑ کا ذکر ان کی نسبت کے حوالے سے کرتا ہے۔ کیا چنار کے ذکر سے کشمیر کا استعارہ مانا جا سکتا ہے؟
 

یاسر شاہ

محفلین
مجھے تو اچھی لگی یہ غزل، سرور بھائی کا مزاج کیونکہ بے حد ثقہ ہے، اس لئے انہیں "نقد نگاری" پسند نہیں آئی،لیکن میں اسے قافئے کی مجبوری کے سبب قبول کرتا ہوں بلکہ بہر نگاراں کے ساتھ نگاری ایک صوتی لطف کا بھی اضافہ دے رہی ہے۔
میں تو یہ غزل سَمت کے لئے منتخب کر لیتا ہوں، ایک اور غزل شامل ہو تو دو غزلیں ایک ساتھ شامل کر دوں
اعجاز صاحب آپ کی شفقتوں اور محبتوں کا میں مقروض ہوں -جزاک الله خیرا و احسن الجزاء

اس غزل میں مقطع کا اضافہ کیے دیتا ہوں :



کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے


آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے


بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے


آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے


حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے



شؔاہ سنو! راحت سی راحت ہے چپ شاہ کے روزے میں
گرہ زباں کی کھلے تو پھر یہ دل آزاری کرتی ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
== حضرت مطلع پہ میں اٹک گیا - انگریزی کا لفط چیری اتنے دھڑلے سے کیسے استعمال کیا جاسکتا-
جبکہ یہ تو حشو میں آرہاہے یہاں ںیہی لانا شاعر کی مجبوری بھی نہیں - اوپر سے فارسی میں چیری لونڈی کو کہتے ہیں - میرے نزدیک یہ مطلع غزل کو اس کے مقام سے گرا رہا ہے -

خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
== سر حسیں چناروں کا رنگ خزاں تو نارنجی یا بھورا ہوتا ہے - تو شاعر کا ایسا رنگ ہوجانا چہ معنی دارد؟

آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سُروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
== اچھا ہے

بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
== بس اس میں ایسا لگتا ہے ایک ہی گھر کی بات ہو رہی ہے - جس میں شاعر دفتر جاتا ہے اور اسکی بیوی گھر داری کرتی ہے - یہ تو دو الگ الگ گھروں کی بات ہورہی ہے یہ بات آپ نے فرض کر لی ہے جسکی ترسیل ہو بھی سکتی ہے نہیں بھی -

آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
== جناب یہ اک سایہ کیا چیز ہے ؟- اردو میں ایسی کوئ اصطلاح تو مستعمل نہیں ہے - تو پھرشاعر کو
اس پہ روشنی ڈالنی ہوگی یہ کیا بلا ہے ؟

حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
== جناب اس شعر کا جواب نہیں - بہت اعلی

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
== حضرت مطلع پہ میں اٹک گیا - انگریزی کا لفط چیری اتنے دھڑلے سے کیسے استعمال کیا جاسکتا-
جبکہ یہ تو حشو میں آرہاہے یہاںیہی لانا شاعر کی مجبوری بھی نہیں - اوپر سے فارسی میں چیری لونڈی کو کہتے ہیں - میرے نزدیک یہ مطلع غزل کو اس کے مقام سے گرا رہا ہے -

خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
== سر حسیں چناروں کا رنگ خزاں تو نارنجی یا بھورا ہوتا ہے - تو شاعر کا ایسا رنگ ہوجانا چہ معنی دارد؟

آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سُروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
== اچھا ہے

بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
== بس اس میں ایسا لگتا ہے ایک گھر کی ہی بات ہو رہی ہے - جس میں شاعر دفتر جاتا ہے اور اسکی بیوی گھر داری کرتی ہے - یہ تو لگ دو الگ الگ گھروں میں ہے یہ بات آپ نے فرض کر لی ہے جسکی ترسیل ہو بھی سکتی ہے نہیں بھی -

آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
== جناب یہ اک سایہ کیا چیز ہے ؟- اردو میں ایسی کوئ اصطلاح تو مستعمل نہیں ہے - تو پھرشاعر کو
اس پہ روشنی ڈالنی ہوگی یہ کیا بلا ہے ؟

حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
== جناب اس شعر کا جواب نہیں - بہت اعلی
محترمی ارشد رشید صاحب

سچی بات تو یہ ہے کہ آپ کے تبصرے سے مجھے خوشی ہوئی -اتنا وقت نکال کر رائے دینا آپ کے خلوص کی علامت ہے اور آپ کے ہر اختلاف میں ایک اپنائیت کا احساس ہے -

میں دو ایک روز میں وقت نکال کر آپ کے تبصرے کا جواب لکھوں گا -ان شاء الله

جزاک الله خیرا
 

ارشد رشید

محفلین
جاپان میں چیری بلاسم کے درخت پر پھولوں کا کھلنا موسمِ گل کی دلیل مانا جاتا ہے۔ سفید اور گلابی رنگ کا یہ ننھاسا پھول جو پاکیزگی اور طہارت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس ملک کا قومی پھول ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔چیری کے درخت سارا سال بے برگ و ثمر، ٹنڈ منڈکھڑے رہتے ہیں،بہار کے موسم میں چنددن کے لئے ان پر پھول کھلتے ہیں۔ہر ضلع میں موسم کے اعتبار سے چیری کی شاخیں الگ الگ وقت پر پھول اٹھاتی ہیں۔آج کل ان پھولوں کے جوبن کی رُت ہے۔ان پھولوں کو دیکھنا ایک باقاعدہ تہوار ہے۔شاخوں کے پھول اٹھانے کے ساتھ ہی ان کے دیدار کا تیوہار شروع ہوجاتا ہے، جسے مقامی زبان میں ”ہنامی“ کہتے ہیں جس کا لفظی مطلب ”پھول تکنا“ہے۔ اسے جاپانی سماج میں سب سے نمایاں تہوار کہا جائے تویہ مبالغہ نہیں ہو گا۔اگرچہ کیلنڈر میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔
سر یہ بات لاکھ درست سہی مگر اسکا ہمارے اپنے موسم ماحول اور رسم و رواج سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے - ہم اردو بولنے والے لوگ عمو ما اس مظہر سے ناواقف ہیں تو پھر آپ اسے ایک آفاقی سچائی کے طور پر غزل میں کیسے حوالہ بنا سکتے ہیں ؟ - یہ باتیں سفر نامے میں تو لکھ سکتے ہیں اس کو شعر میں بغیر سیاق و سباق کے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟
مثال کے طور پر میں کیلیفورنیا میں رہتا ہوں یہاں ایک تہوار ہر سال بڑی دھوم دھام سے منایا جاتاہے جسے کہتے ہیں - گارلک فیسٹیول - اس میں ہر کھانا ہر میٹھا اور ہر مشروب گارلک کا یعنی لہسن کا بنا ہوتا ہے حتیٰ کہ کیک بھی لہسن کا - مگر یہ صرف ایک مقامی چیز ہے - کچھ لوگوں کو شائد اس کا علم بھی انٹر نیٹ کی وجہ سے ہو، مگر بہرحال یہ صرف مقامی لوگوں کا تین روزہ جشنِ لہسن ہوتا ہے - اب اگر میں ایک شعر میں لکھوں تیری یاد مجھے لہسن کا کیک لگے یا تُو آیا ہے لہسن کے تہوار کی طرح تو یہ باتیں کون سمجھے گا ؟
اور سمجھ بھی لے تو اسے محسوس کون کرے گا کیونکہ ہمارے ہاں لہسن کیک یا تہوار منانے کی چیز ہی نہیں -
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سر یہ بات لاکھ درست سہی مگر اسکا ہمارے اپنے موسم ماحول اور رسم و رواج سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے - ہم اردو بولنے والے لوگ عمو ما اس مظہر سے ناواقف ہیں تو پھر آپ اسے ایک آفاقی سچائی کے طور پر غزل میں کیسے حوالہ بنا سکتے ہیں ؟ - یہ باتیں سفر نامے میں تو لکھ سکتے ہیں اس کو شعر میں بغیر سیاق و سباق کے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟
مثال کے طور پر میں کیلیفورنیا میں رہتا ہوں یہاں ایک تہوار ہر سال بڑی دھوم دھام سے منایا جاتاہے جسے کہتے ہیں - گارلک فیسٹیول - اس میں ہر کھانا ہر میٹھا اور ہر مشروب گارلک کا یعنی لہسن کا بنا ہوتا ہے حتیٰ کہ کیک بھی لہسن کا - مگر یہ صرف ایک مقامی چیز ہے - کچھ لوگوں کو شائد اس کا علم بھی انٹر نیٹ کی وجہ سے ہو، مگر بہرحال یہ صرف مقامی لوگوں کا تین روزہ جشنِ لہسن ہوتا ہے - اب اگر میں ایک شعر میں لکھوں تیری یاد مجھے لہسن کا کیک لگے یا تُو آیا ہے لہسن کے تہوار کی طرح تو یہ باتیں کون سمجھے گا ؟
اور سمجھ بھی لے تو اسے محسوس کون کرے گا کیونکہ ہمارے ہاں لہسن کیک یا تہوار منانے کی چیز ہی نہیں -
تو آپ بھی گویا ہمارے آس پاس ہی ہیں! میں ڈیوس، کیلیفورنیا میں ہوں۔ ایک بار بیٹی جو سان ہوزے میں ہیں، کے ساتھ اس علاقے میں جا نا ہوا تھا جہاں لہسن کا تہوار منایا جاتا ہے
 

ارشد رشید

محفلین
جی سر میں سان فرانسسکو کے قریب رہتا ہوں اور سین ہوزے میں جاب کرتا ہوں- کبھی اس طرف دوبارہ آئیں تو ملاقات کا شرف ضرور بخشیے گا-
 
مجھے تو اچھی لگی یہ غزل، سرور بھائی کا مزاج کیونکہ بے حد ثقہ ہے، اس لئے انہیں "نقد نگاری" پسند نہیں آئی،لیکن میں اسے قافئے کی مجبوری کے سبب قبول کرتا ہوں بلکہ بہر نگاراں کے ساتھ نگاری ایک صوتی لطف کا بھی اضافہ دے رہی ہے۔
میں تو یہ غزل سَمت کے لئے منتخب کر لیتا ہوں، ایک اور غزل شامل ہو تو دو غزلیں ایک ساتھ شامل کر دوں
اعجاز عبید صاحب: کیا ہی اچحا ہو کہ آپ غیرمانوس الفاظ کے معنی لغت میں دیکھ لیا کریں۔ثقہ کا مطلب ہے : معتبر، قابل اعتماد: اردو لغت، کراچی؛ بھائی میرے معتبر اور قابل اعتماد ہونے سے :نقد نگاری: کے سمجھنے یا نہ سمجھنے کا کیا تعلق ہے؟ خیر اب تو بات ہو ہی گئی ہے۔ امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ کبھی علیگڑھ جانا ہوتا ہے یانہیں؟
سرور راز
 
السلام علیکم

تمام اہالیان محفل کی خدمات میں ایک غزل پیش خدمت ہے -آپ سب کی بے لاگ رائے کا انتظار رہے گا -

یاسر



غزل

عزیز مکرم یاسر صاحب: آداب عرض ہے 1
اب جبکہ آپ نے چیری، چنار اورنقد نگاری کی گرہیں ڈھیلی کر دی ہیں مجھ پر غزل کا تبصرہ قرض قرارپایا اور میں نئی مشکلات سے دوچار ہوا۔ میں چیری اور چنار دونوں سے لسانی، تہذیبی، تاریخی یا کسی اور حوالے سے خود کو منسوب نہیں کر سکتا ہوں۔ان کا نام ہی سنا ہے اور وہ بھی :بقدر بادام: ، سو غزل کے پہلے دو اشعار کے بارے میں خاموشی ہی بہتر معلوم ہوتی ہے۔اگر رائے دے سکتا تو یہی کہتا کہ غزل پھر سے کہئے کیونکہ :آج یاسر غزل سرا نہ ہوا:۔ پہلے تین اشعار میں آپ نے :رنگ:تین بار اور :باد بہاری: دو مرتبہ باندھ کر خدا جانے کیا حاصل کیا ہے۔ بھائی اُردو ایسی کم مایہ زبان نہیں ہے۔ کچھ اور چاہئے وسعت مری زباں کے لئے۔
کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
اس شعر کو یوں کر دیں ؟
رٰٰت میں خزاں کی ہو جاتا ہے چاند چناروں کا جو رنگ
تری جدائی یوں بھی میری خاطر داری کرتی ہے
آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
یہ شعر بھرتی کا ہے۔ آپ کو مھبوبہ کا خیال صرف اسی وقت آتا ہےجب پھول کھلتے ہیں؟ دوسرے وقتوں میں نہیں آتا؟ یہ تو عجیب سا عشق ہے۔ دوسرا مصرع پہلے سے معنوی طور پر مربوط نہیں ہے۔ آگے آپ مالک ہیں۔
بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ دفتر جاتاہوں میں تو گھر داری کرتی ہے
واہ صاجب یہ قرینہ بھی خوب ہے جو بچھڑنے کے بعد وارد ہوا ہے۔آپ کو کیا خبر کہ آپ کے دفتر جانے کے بعد وہ گھر داری کرتی ہے، آلو ترکاری کرتی ہے یا دنیا داری کرتی ہے اورمطلب بھی کیا ہے؟ اس تعلق خاطر کو اب ترک کیجئے اور اللہ اللہ کیجئے ۔ اور کوئی راہ اچھی نہیں ہے۔ مھض قافیہ پیمائی کرنی ہے تو کچھ اور سوچیں۔ اور بھی غم ہیں زمانہ میں محبت کے سوا۔ یہ شعر غزل سے خارج ہو جائے تو ہرج نہ ہوگا۔
آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
جب میں نے شعر گوئی شروع کی ہے تو ایسے اشعار : صفائی کے نمبر والے شعر: کہلاتے تھے۔ جب دوبارہ کہیں تو :آہ و زاری: کے بجائے :گریہ ء وزاری: سوچئے گا۔ آخری شعر خالص بھرتی کا معلوم ہوا۔ معذرت۔
میں اس غزل کی تقطیع کرنی چاہتا تھا لیکن کچھ سوچ کر رک گیا۔ الف عین صاحب غزل اپنے رسالے میں اشاعت کے لئے لے گَئے ہیں۔ شاید وہ اس سلسلہ میں مدد کر سکیں۔ گستاخی ہو گئی ہو تو معاف کردیں۔ شکریہ۔
==================
 
میں دو ایک روز میں وقت نکال کر آپ کے تبصرے کا جواب لکھوں گا -ان شاء الله
بلکہ دو ایک روز میں وقت نکال کر غزل دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے محترم

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں وہ کی بجائے جو کا محل تھا
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں حالِ دل کو سامنے کی کسی بات سے ملا کر بیان کرنے کی ضرورت تھی


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلیے مان لیتے ہیں کہ خزان حسیں چناروں کو زرد کردیتی ہے
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہاں خاطرداری لانا خاطر داری کی دل آزاری کرنا لگتا ہے


آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلوں میں رنگ آجانا،محبوب کی یاد آجانا ایسے میں بہار کی تازہ ہوا تو اور غمگین بنادیتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں آپ پرلطف بات چیت کانقشہ کھینچ رہے ہیں

بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِس شعر پر تو قرارواقعی لے دے ہوچکی

آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاعل لانے کے لیے سائے کا ذکر شعرکو آسیب زدہ بنارہا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے ، یہ انداز غزل کی شان کے یکسر خلاف ہے


حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بلکہ دو ایک روز میں وقت نکال کر غزل دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے محترم

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں وہ کی بجائے جو کا محل تھا
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں حالِ دل کو سامنے کی کسی بات سے ملا کر بیان کرنے کی ضرورت تھی


خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلیے مان لیتے ہیں کہ خزان حسیں چناروں کو زرد کردیتی ہے
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہاں خاطرداری لانا خاطر داری کی دل آزاری کرنا لگتا ہے


آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلوں میں رنگ آجانا،محبوب کی یاد آجانا ایسے میں بہار کی تازہ ہوا تو اور غمگین بنادیتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں آپ پرلطف بات چیت کانقشہ کھینچ رہے ہیں

بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِس شعر پر تو قرارواقعی لے دے ہوچکی

آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فاعل لانے کے لیے سائے کا ذکر شعرکو آسیب زدہ بنارہا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے ، یہ انداز غزل کی شان کے یکسر خلاف ہے


حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
ازراہِ تفنن ، پہلے کچھ دوستوں نے اس غزل کا آپریشن کیا۔ آپ نے تو پوسٹ مارٹم ہی کر دیا۔۔۔🙂
 

یاسر شاہ

محفلین
محترمی ارشد رشید -
آپ کے مفصّل تبصرے پہ آپ کا ممنون ہوں -

کبھی کبھی وہ حال ہمارا یاد تمھاری کرتی ہے
رنگ جو چیری کے پیڑوں کا بادِ بہاری کرتی ہے
== حضرت مطلع پہ میں اٹک گیا - انگریزی کا لفط چیری اتنے دھڑلے سے کیسے استعمال کیا جاسکتا-
جبکہ یہ تو حشو میں آرہاہے یہاں ںیہی لانا شاعر کی مجبوری بھی نہیں - اوپر سے فارسی میں چیری لونڈی کو کہتے ہیں - میرے نزدیک یہ مطلع غزل کو اس کے مقام سے گرا رہا ہے -
انگریزی کا لفظ چیری اردو میں عام بولا جاتا ہے اور اردو کا کوئی متبادل اس کی جگہ ڈھونڈ کے لایا بھی جائے تو شعر غرابت کا شکار ہو جائے گا -
حشو زائد از ضرورت لفظ کے استعمال کو کہتے ہیں اور چیری یہاں زائد از ضرورت نہیں -
سر یہ بات لاکھ درست سہی مگر اسکا ہمارے اپنے موسم ماحول اور رسم و رواج سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے - ہم اردو بولنے والے لوگ عمو ما اس مظہر سے ناواقف ہیں تو پھر آپ اسے ایک آفاقی سچائی کے طور پر غزل میں کیسے حوالہ بنا سکتے ہیں ؟ - یہ باتیں سفر نامے میں تو لکھ سکتے ہیں اس کو شعر میں بغیر سیاق و سباق کے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟
یہ آپ کا مطلع پہ دوسرا اعتراض ہے جو غالباً پہلا اعتراض دور ہوجانے پہ کیا گیا ہے کیونکہ مضمون نگار نے بھی چیری کو چیری ہی لکھا ہے کوئی اردو کا الگ لفظ اختراع نہیں کیا -دیکھیے دنیا اب گلوبل ولیج بن چکی ہے، اب چیری کا پھل ہر جگہ کھایا جاتا ہے اور یہاں چونکہ چیری کے پھولوں کی بات ہو رہی ہے جو بہار میں کھل اٹھتے ہیں تو غزل میں کسی بھی پھول کا تذکرہ، خواہ وہ گلاب ہو ،نرگس ہو ،موتیا ہو یا چیری ، میں تغزل کے منافی نہیں سمجھتا -اور رہی آفاقیت کی بات تو غزل میں سارے اشعار آفاقی نہیں ہوتے ،بہت سے واقعاتی بھی ہوتے ہیں -

خزاں کی رت میں ہو جاتا ہے حَسیں چناروں کا جو رنگ
تیری جدائی یوں بھی ہماری خاطر داری کرتی ہے
== سر حسیں چناروں کا رنگ خزاں تو نارنجی یا بھورا ہوتا ہے - تو شاعر کا ایسا رنگ ہوجانا چہ معنی دارد؟
دیکھیے شعر میں رنگ سے محض :کلر: مراد لینا کافی نہیں بلکہ اس کے علاوہ مراد حال اور کیفیت بھی ہوتی ہے -بقول غالب :

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے


غزل کی یوں تو کوئی تھیم نہیں ہوتی ،نظم کی ہوتی ہے، لیکن اس غزل کے بیشتر اشعار کی تھیم میں نے یہ رکھی ہے کہ غم اور فراق کا بھی لطف لینا چاہیے -بیوی اگر ناراض ہو کر میکے چلی جائے، جو کہ بے لاگ تبصرہ کرنے والوں کی اکثر چلی جاتی ہے ،تو ڈاڑھی اور زلفوں پر بھورا رنگ کر کے بھورے کرتہ شلوار پہن کر گھومنے نکل جانا چاہیے -کیا خیال ہے ؟ -بنا دیا نہ سب شوہروں کو :چ: سے چلتا پھرتا چنار -
آتا ہے جب رنگ گلوں پر تیرا خیال آجاتا ہے
مدھر سُروں میں تیری باتیں بادِ بَہاری کرتی ہے
== اچھا ہے
آداب عرض ہے -جزاک الله خیرا -
بچھڑ گئے جب اک دوجے سے ہم میں قرینہ آ ہی گیا
وقت پہ جاتا ہوں میں دفتر تو گھر داری کرتی ہے
== بس اس میں ایسا لگتا ہے ایک ہی گھر کی بات ہو رہی ہے - جس میں شاعر دفتر جاتا ہے اور اسکی بیوی گھر داری کرتی ہے - یہ تو دو الگ الگ گھروں کی بات ہورہی ہے یہ بات آپ نے فرض کر لی ہے جسکی ترسیل ہو بھی سکتی ہے نہیں بھی -
جی جناب جیسا کہ اوپر تھیم بتا ہی چکا ہوں -یہ دو گھروں کی بات ہے اگر ترسیل یا ابلاغ نہ ہوتا تو آپ کیسے پہنچتے اس نکتے تک کہ دو گھروں کی بات ہو رہی ہے -

آخرِ شب میں اک سایہ سا ہم سے آکر کہتا ہے
یاد میں تیری اک دیوانی آہ و زاری کرتی ہے
== جناب یہ اک سایہ کیا چیز ہے ؟- اردو میں ایسی کوئ اصطلاح تو مستعمل نہیں ہے - تو پھرشاعر کو
اس پہ روشنی ڈالنی ہوگی یہ کیا بلا ہے ؟

یادوں کی سیڑھی سے ناصرؔ
رات اک سایا سا اترا تھا
ناصر کاظمی



ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا
جون ایلیا


بس اک رستہ ہے اک آواز اور اک سایا ہے
یہ کس نے آ کے گہری نیند سے مجھ کو جگایا ہے
سلیم کوثر

حسن ہے کیا اور کون حَسیں ہے ہم سے آکر پوچھیں تو
طبع ہماری بہرِ نگاراں نقد نگاری کرتی ہے
== جناب اس شعر کا جواب نہیں - بہت اعلی
بہت شکریہ -ممنون کرم ہوں
 

یاسر شاہ

محفلین
ازراہِ تفنن ، پہلے کچھ دوستوں نے اس غزل کا آپریشن کیا۔ آپ نے تو پوسٹ مارٹم ہی کر دیا۔۔۔🙂
بھائی بے لاگ تبصرے کے لیے مدعو کرنے کی غرض ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ جو تنقید کی اہلیت نہیں رکھتے تنقیص کر کے اپنا حساب چکتا کر لیں تاکہ مجھ پر کسی کا حساب نہ رہے ،تو آپ کا بھی مجھ پر کوئی حساب ہو تو من ہلکا کر لیجیے ،ممکن ہے میں بھی آپ کو اصلاح سخن میں جو آراء و تجاویز دیتا رہا ہوں ان کے پیچھے حسد کارفرما ہو اور آپ حقیقت میں ایک بڑے شاعر ہوں -

باقی پوسٹ مارٹم کی بھی آپ نے خوب کہی ،پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جو آدمی خود سے چوراہے پہ کھڑا ہو کر ٹریفک کو اشارے کرنے لگے اور یہ سمجھے کہ وہ ٹریفک کنٹرول کر رہا ہے تو اس پہ غصّہ بھی نہ کرنا چاہیے اور ہنسنا بھی نہ چاہیے بلکہ ایسوں کا مکمل علاج ہونا چاہیے -
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ کا بھی مجھ پر کوئی حساب ہو تو من ہلکا کر لیجیے ،ممکن ہے میں بھی آپ کو اصلاح سخن میں جو آراء و تجاویز دیتا رہا ہوں ان کے پیچھے حسد کارفرما ہو اور آپ حقیقت میں ایک بڑے شاعر ہوں -
پہلے تو میں اس اعتراف کا اعادہ کردوں کہ مجھے ابھی ٹھیک سے لفظوں کو برتنا بھی نہیں آتا۔
دوسری بات یہ کہ اگر کبھی آپ سے حساب کتاب ہوتا بھی ہے تو گپ شپ کی لڑیوں میں پورا کر لیا کرتا ہوں۔🙂
چونکہ یہ ایک سنجیدہ لڑی ہے سو اس کو سنجیدہ ہی رہنے دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
محترمی و مکرمی سرور عالم راز صاحب
السلام علیکم -
آپ کے تبصرے پہ ابھی نظر پڑی ، پہلے تو میں سمجھ رہا تھا میری ہی پوسٹ کا آپ نے اقتباس لیا ہے -لیکن ایسا خفیہ تبصرہ ہے کہ اقتباس بھی نہیں لیا جا سکتا -
جزاک الله خیرا کہ آپ نے وقت دیا اور ایک شعر پہ صفائی کے نمبر دیے، یہ بھی غنیمت ہے -آپ کی باتیں میں نے نوٹ کر لی ہیں -

آپ غزل کی تقطیع پہ مفصّل بات کیجیے ،مجھے غزل چھپوانے کا خاص شوق نہیں کم از کم یوں کچھ سیکھنے کو ہی مل جائے گا آپ سے -
 
Top