محمداحمد
لائبریرین
غزل
اُٹھا رکھوں سبھی کارِ جہاں، کتاب پڑھوں
تیاگ دوں یہ جہاں، ناگہاں! کتاب پڑھوں
وہاں پہنچ کے نہ جانے کہاں ٹھہرنا ہو
سفر میں ہُوں تو یہاں تا وہاں، کتاب پڑھوں
ابھی تو کیف سے پُر ہے حکایتِ ہستی
نئی نئی ہے ابھی داستاں، کتاب پڑھوں
رواں سفینہ ٴ ہستی ہے، رکھ نہ دوں پتوار؟
ہوا کی اور رکھوں بادباں، کتاب پڑھوں
ہرے بھرے کسی جنگل میں ڈال دوں ڈیرا
طُیّور دیکھوں، چُنوں تتلیاں، کتاب پڑھوں
کسی پہاڑ کے ٹیلے پہ بیٹھ کر اک دن
کبھی چَراتے ہوئے بکریاں کتاب پڑھوں
سمجھ میں آتی نہیں ہے روایتِ واعظ
کلام ربِ جہاں، خوش بیاں کتاب پڑھوں
بہار آنے پہ ٹھہرا ہے وصل کا وعدہ
کسی طرح سے گزاروں خزاں! کتاب پڑھوں
تمہاری طرح رکھے پھائے میرے زخم پہ کون؟
میں سوچتا ہوں کوئی مہرباں کتاب پڑھوں
مری طرح ہے کہانی کا مرکزی کردار
سُلجھ رہی ہیں کئی گُتھّیاں، کتاب پڑھوں
میں دیکھتا ہوں کتابوں کو ایک حسرت سے
کہ مجھ غریب کو فرصت کہاں کتاب پڑھوں
یہ زندگی ہے فنا کا سفر تو پھر احمدؔ
میں چاہتا ہوں کوئی جاوداں کتاب پڑھوں
محمد احمدؔ
اُٹھا رکھوں سبھی کارِ جہاں، کتاب پڑھوں
تیاگ دوں یہ جہاں، ناگہاں! کتاب پڑھوں
وہاں پہنچ کے نہ جانے کہاں ٹھہرنا ہو
سفر میں ہُوں تو یہاں تا وہاں، کتاب پڑھوں
ابھی تو کیف سے پُر ہے حکایتِ ہستی
نئی نئی ہے ابھی داستاں، کتاب پڑھوں
رواں سفینہ ٴ ہستی ہے، رکھ نہ دوں پتوار؟
ہوا کی اور رکھوں بادباں، کتاب پڑھوں
ہرے بھرے کسی جنگل میں ڈال دوں ڈیرا
طُیّور دیکھوں، چُنوں تتلیاں، کتاب پڑھوں
کسی پہاڑ کے ٹیلے پہ بیٹھ کر اک دن
کبھی چَراتے ہوئے بکریاں کتاب پڑھوں
سمجھ میں آتی نہیں ہے روایتِ واعظ
کلام ربِ جہاں، خوش بیاں کتاب پڑھوں
بہار آنے پہ ٹھہرا ہے وصل کا وعدہ
کسی طرح سے گزاروں خزاں! کتاب پڑھوں
تمہاری طرح رکھے پھائے میرے زخم پہ کون؟
میں سوچتا ہوں کوئی مہرباں کتاب پڑھوں
مری طرح ہے کہانی کا مرکزی کردار
سُلجھ رہی ہیں کئی گُتھّیاں، کتاب پڑھوں
میں دیکھتا ہوں کتابوں کو ایک حسرت سے
کہ مجھ غریب کو فرصت کہاں کتاب پڑھوں
یہ زندگی ہے فنا کا سفر تو پھر احمدؔ
میں چاہتا ہوں کوئی جاوداں کتاب پڑھوں
محمد احمدؔ