غزل ۔۔۔ ایک لمحے کو ٹھیر کر سوچیں۔۔۔ والد گرامی جناب نصراللہ مہر صاحب

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہ
بلاشبہ بہت خوب کلام
ہاتھ تھامے گذشتہ لمحوں کا
گھومتی ہیں نگر نگر سوچیں
 

آبی ٹوکول

محفلین
سرد لہجوں کے برف زاروں پر
منجمد ہیں تمام تر سوچیں
کوئی نزدیک آتا جاتا ہے
ہوتی جاتیں ہیں معتبر سوچیں
واہ واہ بہت خوب کیا کہنے ہیں مکرر
 

سید عاطف علی

لائبریرین
’’ٹھہرنا‘‘ (فعولن) کے وزن پر ہے، جب کہ ’’ٹھہرو، ٹھہریں‘‘ میں ہاے ہوز پر جزم آ جاتا ہے، جیسے ’’سڑک‘‘ میں ڑاے متحرک ہے، ’’سڑکوں، سڑکیں‘‘ میں ساکن ہے۔ اور بہت مثالیں ہیں: ’’تڑپنا، تڑپ، تڑپتا‘‘ لیکن ’’تڑپو، تڑپیں، تڑپی‘‘۔
بعض جگہ دیکھا ہے کہ حسبِ ضرورت ٹھہر، ٹھہرنا کی ہاے ہوز کو ساکن کرنے کی بجائے یاے سے بدل دیتے ہیں۔ ’’ٹھیرنا، ٹھیر جا‘‘ وغیرہ۔ قریب قریب وہی بات ہے کہ ’’نہ‘‘ نافیہ میں ہاے کا اعلان مقصود ہوتا ہے تو اس کو یاے سے بدل کر ’’نے‘‘ بنا لیتے ہیں۔
میرے خیال میں ٹھہرنا اور اس نوع کے اکثر افعال و اسماء میں اوزان کے اعتبار سے لچک بہت زیادہ ہوتی ہےجو استعمال پر موقوف ہوتی ہے عربی و فارسی کے قواعد کی سختی ٹھیک نہیں لگتی۔ چنانچہ ً ٹھ ہر نا ً یا ًٹھیرنا ً اور ًٹھہر۔نا ً دونوں طرح آزادی سے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر اقبال نے ٹھہرکے فعل کو امرکی شکل میں جگرکے وزن پر باندھا ہے (اور کیا خوب باندھا ہے )
ٹھہر ٹھہر! کہ بہت دلکشا ہے یہ منظر
ذرا میں دیکھ تو لوں۔ تابناکی ء شمشیر
 

متلاشی

محفلین
میرے خیال میں ٹھہرنا اور اس نوع کے اکثر افعال و اسماء میں اوزان کے اعتبار سے لچک بہت زیادہ ہوتی ہےجو استعمال پر موقوف ہوتی ہے عربی و فارسی کے قواعد کی سختی ٹھیک نہیں لگتی۔ چنانچہ ً ٹھ ہر نا ً یا ًٹھیرنا ً اور ًٹھہر۔نا ً دونوں طرح آزادی سے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر اقبال نے ٹھہرکے فعل کو امرکی شکل میں جگرکے وزن پر باندھا ہے (اور کیا خوب باندھا ہے )
ٹھہر ٹھہر! کہ بہت دلکشا ہے یہ منظر
ذرا میں دیکھ تو لوں۔ تابناکی ء شمشیر
بہت بہت شکریہ جناب سید عاطف علی صاحب۔۔۔۔!
 
ایک لمحے کو ٹھہر کر سوچیں​
کھو گئی ہے کہاں سحر سوچیں​
ہاتھ تھامے گذشتہ لمحوں کا​
گھومتی ہیں نگر نگر سوچیں​
سرد لہجوں کے برف زاروں پر​
منجمد ہیں تمام تر سوچیں​
ایک لمحے کی بھول ہوتی ہے​
پھر ستاتی ہیں عمر بھر سوچیں​
بہت عمدہ۔​
شریک محفل کرنے کا شکریہ​
 
رہی انگریزی والی بات، اس میں فرانسیسی، لاطینی، یونانی، جرمن بھی شامل کر لیجئے۔ ادھر ایک گروپ مشرقِ بعید کی زبانوں کا ہے، چپنی، جاپانی وغیرہ، پھر دیوناگری ہے۔ یہ سارے خط ہمارے (فارسی رسم الخط) سے قطعی مختلف ہیں۔ ان کا صوتیات کا نظام سرے سے مختلف ہے۔ اُن کے ہاں اعراب اگر ہیں بھی تو کسی مختلف صورت میں ہوں گے، جیسے انگریزی اور فرانسیسی میں واول ہیں اور واولوں کی مختلف کامبی نیشن ہے۔ ان سے تقابل کا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
 
ڈاکٹر اقبال نے ٹھہرکے فعل کو امرکی شکل میں جگرکے وزن پر باندھا ہے (اور کیا خوب باندھا ہے )​
ٹھہر ٹھہر! کہ بہت دلکشا ہے یہ منظر​
ذرا میں دیکھ تو لوں۔ تابناکی ء شمشیر​

لفظ ’’ٹھہر‘‘ کا اصولی تلفظ بھی یہی ہے۔ محترمی سید عاطف علی نے عمدہ مثال پیش کی ہے۔
 

متلاشی

محفلین
ایک لمحے کو ٹھہر کر سوچیں​
کھو گئی ہے کہاں سحر سوچیں​
ہاتھ تھامے گذشتہ لمحوں کا​
گھومتی ہیں نگر نگر سوچیں​
سرد لہجوں کے برف زاروں پر​
منجمد ہیں تمام تر سوچیں​
ایک لمحے کی بھول ہوتی ہے​
پھر ستاتی ہیں عمر بھر سوچیں​
بہت عمدہ۔​
شریک محفل کرنے کا شکریہ​
بہت شکریہ محسن بھائی۔۔۔!
 
Top