متلاشی
محفلین
نظریں کیوں مرکوز ہیں خالی زینے پر
آخر کچھ تو پیش آنا تھا رستے پر
خالی آنکھیں، اندھے رستے ، سہمی رات
جاتے برس کی دھول جمی ہے چہرے پر
کتنے لمحے گھات لگائے بیٹھے ہیں
کتنے چہرے بیت چکے آئینے پر
گذرے لمحوں کی برکت سے محرومی
اور شکن اک ڈال گئی ہے ماتھے پر
آج کوئی تہمت بھی نہیں منزل بھی نہیں
تنہا بیٹھا سوچ رہا ہوں رستے پر
دل ہی ہے جو گھٹ گھٹ کے رہ جاتا ہے
میں تو اس دن خوب ہنسا تھا اپنے پر
والد گرامی جناب نصراللہ مہر