غزل ۔ از آسی انصاری

جب درد کے ماروں کو دنیا یہ ستاتی ہے ی
پھر قوم نہیں کوئی کیوں شور مچاتی ہے

صیاد قفس لے کر جاتا ہے وہاں فوراً
آواز پرندوں کی جب شاخ سے آتی ہے

محسوس ہوا ہم کو جب چوٹ لگی دل پر
مطلب کے لئے دنیا بس دل کو لگاتی ہے

اٹھتا ہے دھواں فوراً کیوں دل کے نشیمن سے
جب تیری نظر میری نظروں میں سماتی ہے

غیروں کی نگاہیں تو غیروں کی نگاہیں ہیں
اپنوں کی نظر کیوں کر الزام لگاتی ہے

محسوس یہ ہوتا ہے ہوگا وہ کوئی اپنا
گر آہ کہیں سے بھی مظلوم کی آتی ہے

یوں رونقِ دنیا سے دل ٹوٹ گیا آسؔی
اب مجھکو ہر اک لمحہ تنہائی بلاتی ہے​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بحر و اوزان کی کوئی غلطی نہیں۔ ان شاء اللہ اچھی شاعری کریں گے۔
اس غزل میں میں نے محسوس کیا ہے کہ بیان کی کمزوری اکثر اشعار میں ہے۔ مطلع میں الفاظ کی نشست ایسی ہے کہ سب کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ اس کا ثبوت یہیں مل گیا!!۔

جب درد کے ماروں کو دنیا یہ ستاتی ہے
پھر قوم نہیں کوئی کیوں شور مچاتی ہے
۔۔مطلع پر بات ہو چکی

صیاد قفس لے کر جاتا ہے وہاں فوراً
آواز پرندوں کی جب شاخ سے آتی ہے
۔۔درست

محسوس ہوا ہم کو جب چوٹ لگی دل پر
مطلب کے لئے دنیا بس دل کو لگاتی ہے
÷÷بس کو دل کے ساتھ نہیں، مطلب کے ساتھ ہو نا تھا۔ موجودہ صورت میں یوں سمجھا جائے گا کہ مطلب کے لئے دنیا بس دل ہی لگاتی ہے، ہاتھ پیر آنکھیں وغیرہ نہیں لگاتی!!
اس کے علاوہ محض دل لگانا محاورہ ہے۔ دل کو لگانا نہیں۔

اٹھتا ہے دھواں فوراً کیوں دل کے نشیمن سے
جب تیری نظر میری نظروں میں سماتی ہے
÷÷پہلے مصرع میں فوراً ‘ کی ضرورت نہیں۔ نظر ملتی تو ہے، لیکن نظروں میں سانا عجیب لگتا ہے۔

غیروں کی نگاہیں تو غیروں کی نگاہیں ہیں
اپنوں کی نظر کیوں کر الزام لگاتی ہے
÷÷یہاں ’کیوں کر‘ شعر کو بگاڑ رہا ہے۔

محسوس یہ ہوتا ہے ہوگا وہ کوئی اپنا
گر آہ کہیں سے بھی مظلوم کی آتی ہے
÷÷آہ آتی ہے یا آہ بلکہ نالہ و فریاد کی آواز؟

یوں رونقِ دنیا سے دل ٹوٹ گیا آسؔی
اب مجھکو ہر اک لمحہ تنہائی بلاتی ہے
درست
 
بحر و اوزان کی کوئی غلطی نہیں۔ ان شاء اللہ اچھی شاعری کریں گے۔
اس غزل میں میں نے محسوس کیا ہے کہ بیان کی کمزوری اکثر اشعار میں ہے۔ مطلع میں الفاظ کی نشست ایسی ہے کہ سب کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ اس کا ثبوت یہیں مل گیا!!۔

جب درد کے ماروں کو دنیا یہ ستاتی ہے
پھر قوم نہیں کوئی کیوں شور مچاتی ہے
۔۔مطلع پر بات ہو چکی

صیاد قفس لے کر جاتا ہے وہاں فوراً
آواز پرندوں کی جب شاخ سے آتی ہے
۔۔درست

محسوس ہوا ہم کو جب چوٹ لگی دل پر
مطلب کے لئے دنیا بس دل کو لگاتی ہے
÷÷بس کو دل کے ساتھ نہیں، مطلب کے ساتھ ہو نا تھا۔ موجودہ صورت میں یوں سمجھا جائے گا کہ مطلب کے لئے دنیا بس دل ہی لگاتی ہے، ہاتھ پیر آنکھیں وغیرہ نہیں لگاتی!!
اس کے علاوہ محض دل لگانا محاورہ ہے۔ دل کو لگانا نہیں۔

اٹھتا ہے دھواں فوراً کیوں دل کے نشیمن سے
جب تیری نظر میری نظروں میں سماتی ہے
÷÷پہلے مصرع میں فوراً ‘ کی ضرورت نہیں۔ نظر ملتی تو ہے، لیکن نظروں میں سانا عجیب لگتا ہے۔

غیروں کی نگاہیں تو غیروں کی نگاہیں ہیں
اپنوں کی نظر کیوں کر الزام لگاتی ہے
÷÷یہاں ’کیوں کر‘ شعر کو بگاڑ رہا ہے۔

محسوس یہ ہوتا ہے ہوگا وہ کوئی اپنا
گر آہ کہیں سے بھی مظلوم کی آتی ہے
÷÷آہ آتی ہے یا آہ بلکہ نالہ و فریاد کی آواز؟

یوں رونقِ دنیا سے دل ٹوٹ گیا آسؔی
اب مجھکو ہر اک لمحہ تنہائی بلاتی ہے
درست
بیحد ممنون و مشکور ہوں
آپ نے میرے کلام پر توجہ فرمائی
اور مجھے کلام کی غلطیوں سے آگاہ فرمایا
بہت بہت شکریہ
ان شاءاللہ میں غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کروں گا
جزاک اللہ خیرا
 
Top