غزل ۔ بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں ۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
غزل

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

اُداسیوں کے حبس میں جو تیری یاد آگئی
تو جل اُٹھے پوَن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

سو کیوں نہ دل کے داغ گن کے کاٹ لیجے آج شب
گِنے تھے کل گگن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

محمد احمدؔ
 
آخری تدوین:
لاجواب احمد بھائی. کیا ہی عمدہ غزل کہی ہے.
منفرد ردیف خوب نبھائی ہے. بہت سی داد
غزل

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

اُداسیوں کے حبس میں تمھاری یاد آگئی
تو جل اُٹھے پوَن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

سو کیوں نہ دل کے داغ گن کے کاٹ لیجے آج شب
گِنے تھے کل گگن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

محمد احمدؔ
 

محمداحمد

لائبریرین
آج دوبارہ آپ کی غزل پڑھی تو بے اختیار زبان پر آ گیا

جلے اگر مٹن کے کچھ کباب تیرے ہجر میں
تو کھا لیے چکن کے کچھ کباب تیرے ہجر میں

ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔!

کمال ہی کر دیا آپ نے۔ اور زیادہ بڑا کمال یہ ہے کہ چراغ کو کب سے بدل دیا۔ :)

بہت زبردست. ہوجائے پھر پوری پیروڈی. پیشگی زبردست
احمد بھائی نے بڑی مشکل ردیف رکھی ہے. اس پر پیروڈی کم از کم مجھ نالائق کے بس کا کام نہیں.

غور کیجے۔ شاید دو چار شعر اور نکل آئیں۔ :) :) :)
 

فاخر رضا

محفلین
یہ غزل پڑھ کر پتہ نہیں کیوں ایک غزل کا ایک شعر یاد آگیا
اپنے لہو سے جلا دیا ایک دیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دیا بجھا ہوا
 
Top