غزل ۔ بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں ۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین

جاسمن

لائبریرین
اِس غزل کو پڑھ کے وہ گیت یاد آرہا ہے مسعود رانا کی آواز میں
تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے
اِک چراغ کیا بجھا ،سوچراغ جل گئے
 

محمداحمد

لائبریرین
تہجدوں میں مانگ کے دعائیں تیری دید کی
کما لیے ہیں ہم نے کچھ ثواب تیرے ہجر میں
بہت خوب !

کیا کہنے!
بہت خوبصورت غزل ہے۔ بہت خوبصورت۔
بے حد شکریہ!
اِس غزل کو پڑھ کے وہ گیت یاد آرہا ہے مسعود رانا کی آواز میں
تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے
اِک چراغ کیا بجھا ،سوچراغ جل گئے

عمدہ گیت ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
احمد بھائی -السلام علیکم

سوچا آپ سے کچھ تبادلۂ خیال کریں تاکہ کچھ سیکھنے کو ملے - آپ نے غزل کی بحر نہایت مترنم منتخب کی -جس سے قاری جھوم جھوم جاتا ہے اور غزل کا باریک کام نظر آنے سے رہ جاتا ہے -میرا خیال ہے آپ نے زمین اپنے لئے بہت مشکل منتخب کی ہے -جس سے آپ کا قافیہ ردیف کے اعتبار سے تنگ ہوکر رہ گیا ہے نتیجتاً خاصا تکلّف کرنا پڑا ہے آپ کو -مثَلاً سخن اور بدن کے چراغوں کا جلنا تو بے تکلّف سی بات ہے -لیکن ملن کے چراغوں کا مہک اٹھنا اور پون کے چراغوں کا جلنا جیسے بیانیوں میں تکلّف ہے -

غزل دیکھتے ہیں :

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

واہ -بہت خوب- یعنی بیکار مباش کچھ کیا کر ........

چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

چمن کے چراغوں کو اگر پارک میں لگے بلب فرض کریں تو قافیہ مناسب ہے البتہ زبان کے لحاظ سے "بجھا ہوا ہو دل "ترکیب ٹھیک ہے "بجھا بجھا ہوا ہو دل " درست نہیں -شعر میں "بجھا بجھا سا ہو یہ دل " کیا جا سکتا ہے -

شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

اُداسیوں کے حبس میں جو تیری یاد آگئی
تو جل اُٹھے پوَن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں


ان دو اشعار میں میری ناقص رائے ہے ردیف نہیں نبھ سکی -

سو کیوں نہ دل کے داغ گن کے کاٹ لیجے آج شب
گِنے تھے کل گگن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

گگن لفظ غزل کے لئے خاصہ ثقیل ہے -پھر شعر بھی شاعر کی مراد نہیں سمجھا پا رہا -نثری مفہوم تو یہ بنتا ہے کہ چونکہ کل تیرے فراق میں ہم نے تارے گنے تھے چنانچہ آج کی شب دل کے داغ گننے میں کاٹ دیجئے -اس مفہوم میں کیا پہلو ہے ؟

ویسے یہ آپ کی پرانی غزل ہے -امید ہے آپ نے خود بھی وقت کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ اس میں ترامیم کر ہی لی ہوں گی -

بھائی ! یہ جو میں نے سوچا پیش کر دیا -ضروری نہیں کہ میری ہر بات درست ہو
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی -السلام علیکم
وعلیکم السلام یاسر بھائی!

سب سے پہلے معذرت کہ اتنے دنوں بعد جواب دے رہا ہوں۔ محفل پر تو روز ہی آنا ہوتا ہے لیکن آج کل یکسوئی سے کچھ بھی نہیں لکھ رہا تھا۔سو آپ کا جواب بھی رہ گیا بیچ میں۔

سوچا آپ سے کچھ تبادلۂ خیال کریں تاکہ کچھ سیکھنے کو ملے - آپ نے غزل کی بحر نہایت مترنم منتخب کی -جس سے قاری جھوم جھوم جاتا ہے اور غزل کا باریک کام نظر آنے سے رہ جاتا ہے -میرا خیال ہے آپ نے زمین اپنے لئے بہت مشکل منتخب کی ہے -جس سے آپ کا قافیہ ردیف کے اعتبار سے تنگ ہوکر رہ گیا ہے نتیجتاً خاصا تکلّف کرنا پڑا ہے آپ کو -مثَلاً سخن اور بدن کے چراغوں کا جلنا تو بے تکلّف سی بات ہے -لیکن ملن کے چراغوں کا مہک اٹھنا اور پون کے چراغوں کا جلنا جیسے بیانیوں میں تکلّف ہے -

آپ کی بات بالکل درست ہے کہ بحر مترنم ہے اور قافیہ و ردیف تنگ کرنے والے۔ :)

دیکھا جائے تو ردیف بہت لمبی ہے اور مصرع کے نصف سے بھی زیادہ پر مشتمل ہے۔ پھر قافیہ بھی ہے۔ سو اس طرح مصرعِ اولیٰ کے بعد قافیے سے پہلے بامشکل دو تین الفاظ کی جگہ ہی باقی رہ جاتی ہے جس میں کسی مضمون کو بیان کرنا میرے جیسے مبتدی کے لئے کار دشوار ہے۔ لیکن یہ ہے کہ غزل شروع کی تو جیسے مکمل بھی ہو گئی اور کچھ دوستوں نے اسے پسند بھی کیا۔

اتنی لمبی ردیف اور ایک محدود قافیے کے ساتھ اس غزل میں معنی آفرینی ذرا دشوار کام تھا تاہم خاکسار نے مقدور بھر کوشش کی کے کچھ مضامین کی ادائیگی ہو سکے۔

رہی بات ملن کے چراغ اور پون کے چراغوں کی تو ردیف کی مجبوری قاری سے یہ درخواست کرتی نظر آتی ہے کہ اس غزل سے محظوظ ہونے کے لئے قاری کو اپنے تخیّل سے ذرا زیادہ کام لینا پڑے گا۔ :)

غزل دیکھتے ہیں :

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

واہ -بہت خوب- یعنی بیکار مباش کچھ کیا کر ........
:)

بے کار نہ بیٹھ شاعری ہی کر لی۔

چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

چمن کے چراغوں کو اگر پارک میں لگے بلب فرض کریں تو قافیہ مناسب ہے البتہ زبان کے لحاظ سے "بجھا ہوا ہو دل "ترکیب ٹھیک ہے "بجھا بجھا ہوا ہو دل " درست نہیں -شعر میں "بجھا بجھا سا ہو یہ دل " کیا جا سکتا ہے -

شعر کو اتنا موڈرن کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چمن میں پرانے زمانے کی کوئی لالٹین ہی روشن کر لیں۔ :)

"بجھا بجھا سا ہو یہ دل" واقعی بہتر لگ رہا ہے۔
شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

اُداسیوں کے حبس میں جو تیری یاد آگئی
تو جل اُٹھے پوَن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

ان دو اشعار میں میری ناقص رائے ہے ردیف نہیں نبھ سکی -

ان دونوں اشعار میں ردیف کچھ تصوراتی سی ہیں اور مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کا تصور کرنا آسان نہیں ہے۔ :)

سو کیوں نہ دل کے داغ گن کے کاٹ لیجے آج شب
گِنے تھے کل گگن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

گگن لفظ غزل کے لئے خاصہ ثقیل ہے -پھر شعر بھی شاعر کی مراد نہیں سمجھا پا رہا -نثری مفہوم تو یہ بنتا ہے کہ چونکہ کل تیرے فراق میں ہم نے تارے گنے تھے چنانچہ آج کی شب دل کے داغ گننے میں کاٹ دیجئے -اس مفہوم میں کیا پہلو ہے ؟

نثری مفہوم جو آپ نے سمجھا ہے وہی ہے اس سے زیادہ نہیں ہے۔ پہلو اس میں کوئی خاص نہیں ہے بس بات برائے بات ہے۔

جیسے مومن کا یہ شعر:

کل جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کرکے

یعنی مسجد میں پھنس گئے تو رات کاٹنا دشوار ہو گیا۔ یہ الگ بات کہ اس شعر میں ذو معنویت کمال کی ہے۔

ویسے یہ آپ کی پرانی غزل ہے -امید ہے آپ نے خود بھی وقت کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ اس میں ترامیم کر ہی لی ہوں گی -

ارے نہیں!

میرے لئے یہ کام دشوار ہے۔ اس کے لئے آپ جیسے بھائیوں کی تنقیدی رائے کافی معاون ہوا کرتی ہے، سو ہماری ہر تک بندی پر اپنی رائے ضرور دیا کیجے۔

پھر ایک بار غزل پوسٹ کردی اور احباب نے محبت میں ہی سہی تعریف بھی کر دی تو ہم اس غزل کو "پرفیکٹ " سمجھ بیٹھتے ہیں۔ :)

بھائی ! یہ جو میں نے سوچا پیش کر دیا -ضروری نہیں کہ میری ہر بات درست ہو

آپ کی محبت ہے بھائی!

شاد آباد رہیے۔ :)
 

یاسر شاہ

محفلین
سو ہماری ہر تک بندی پر اپنی رائے ضرور دیا کیجے۔
ہرگز تکبندی نہیں -آپ کا کلام تو قابل رشک ہے -آپ کی وہ غزل "....کنارے سوچتے ہوں گے " تو آرزو ہے کہ سمندر کے کنارے آپ سے سنی جائے -حالانکہ اس پر بھی کسی صاحب نے زمینی حقائق کی بنیاد پر تنقید کی ہے، مگر میں متفق نہیں ہوں ان سے-وہ غزل خالصتا ایک شاعر کی واردات قلبی اور تخیّل کی پرواز ہے اور اس قدر زوردار ہے کہ قاری کو خواہ وہ ناقد ہی کیوں نہ ہو اپنے ساتھ اڑا لے جاتی ہے - پھر فرصت تنقید کسےکہ بقول احمد فراز

لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
ساقیا ساقیا سنبھال ہمیں
 
Top