غزل - (2025-03-15)

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

غزل زبانِ عشق میں ہے تذکرہ جمال کا
وفا، جفا، حیا، ادا، فراق اور وصال کا

وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ رند کو بھی آدمی بنا دیا کمال کا

صنم وہ قرض آج بھی ہے مجھ پہ واجب الادا
ترے حنائی ہاتھ سے کڑھے ہوئے رُمال کا

اگر مثال ہی نہیں ہے اس پری جمال کی
ہو تذکرہ تو کس طرح ہو حسنِ بے مثال کا

نکل رہا لہو ہو جب پسینہ بن کے جسم سے
تو پھر کہے کوئی کہ اس کا رزق ہے حلال کا

ترے مرے ملاپ پر مری خوشی ہے دیدنی
مجھے خیال ہی نہیں ہے ہجر کے ملال کا
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

مزاج کیسے ہیں برادرم ؟

غزل زبانِ عشق میں ہے تذکرہ جمال کا
وفا، جفا، حیا، ادا، فراق اور وصال کا

شعر کا وزن ٹھیک ہے ،روانی اچھی ہے -مگر دوسرے مصرع میں کچھ ادھورا پن ہے، یوں کر دیکھیں :
بیان ہے وفا، جفا، فراق اور وصال کا

مگر بات یہ ہے کہ دوسرا مصرع آپ کا محض "تذکرہ جمال " کی اصطلاح کو کھول رہا ہے -اسے جامع کیا جائے اگر کچھ ابہام پیدا کر کے تو یوں بھی ایک صورت ہے :

غزل زبانِ عشق میں ہے تذکرہ جمال کا
خیالِ حسن بھی ہے ساتھ حسن ہے خیال کا
-----------------

وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ رند کو بھی آدمی بنا دیا کمال کا

اچھا ہے -رند کو اگر ناقص تصور کیا جائے تو صنف تضاد پائی جاتی ہے کمال کے ساتھ مگر بتکلف ،پھر رند کے متعلقات بھی بتکلف بنیں تو بنیں -یوں دیکھیں :

وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ جانور کو آدمی بنا دیا کمال کا

یہاں نہ صرف جانور اور آدمی میں واضح صنف تضاد پائی جا رہی ہے بلکہ عشق سے طے پانے والا ارتقائی سفر بھی مفہوم ہو رہا ہے کہ جانور سے آدمی اور پھر باکمال آدمی یعنی پہلے جان پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہو گئے -

صنم وہ قرض آج بھی ہے مجھ پہ واجب الادا
ترے حنائی ہاتھ سے کڑھے ہوئے رُمال کا

رومال کی بجائے رمال تو چل جائے گا، صنم نے مزہ کرکرا کر دیا -

اگر مثال ہی نہیں ہے اس پری جمال کی
ہو تذکرہ تو کس طرح ہو حسنِ بے مثال کا

نکل رہا لہو ہو جب پسینہ بن کے جسم سے
تو پھر کہے کوئی کہ اس کا رزق ہے حلال کا

اوپر کے دونوں شعر تو ابھی خام ہیں -انھیں الوداع کہہ دیں -

ترے مرے ملاپ پر مری خوشی ہے دیدنی
مجھے خیال ہی نہیں ہے ہجر کے ملال کا

"ملاپ" میں یک گونہ شہوت ہے -اور" مجھے" اضافی لگ رہا ہے -یوں دیکھیں :

ہے وصل یار کی گھڑی ،مری خوشی ہے دیدنی
خیال تھا جو کیا ہوا وہ ہجر کے ملال کا
یا
خیال بھی ہَوا ہُوا وہ ہجر کے ملال کا
 

الف عین

لائبریرین
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

غزل زبانِ عشق میں ہے تذکرہ جمال کا
وفا، جفا، حیا، ادا، فراق اور وصال کا
درست

وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ رند کو بھی آدمی بنا دیا کمال کا
رند کی ہی کیا خصوصیت ہے؟ یہ واضح نہیں
صنم وہ قرض آج بھی ہے مجھ پہ واجب الادا
ترے حنائی ہاتھ سے کڑھے ہوئے رُمال کا
تو کس طرح ادا کیا جائے گا؟ تکنیکی طور پر درست
اگر مثال ہی نہیں ہے اس پری جمال کی
ہو تذکرہ تو کس طرح ہو حسنِ بے مثال کا
دوسرے مصرعے میں دوسرا "ہو" زائد ہے
لا
نکل رہا لہو ہو جب پسینہ بن کے جسم سے
تو پھر کہے کوئی کہ اس کا رزق ہے حلال کا
پہلا مصرع تو @صریرنے درست کر دیا لیکن دوسرے میں بھی مجھے بات نا مکمل لگ رہی ہے کہ اس کے بعد "یہ درست ہو گا" کہنا چاہیے تھا
ترے مرے ملاپ پر مری خوشی ہے دیدنی
مجھے خیال ہی نہیں ہے ہجر کے ملال کا
ملاپ کی جگہ وصال ہو تو لفظی فضا برقرار رہے
مجھے خیال تک... کیسا رہے گا؟
 

یاسر شاہ

محفلین
مجھے خیال تک... کیسا رہے گا؟
"تک" یہاں تیر بہدف ہے،میرے ذہن ہی میں نہ آیا ۔
ادھر میں نے دو تین قسطوں میں اس غزل کو دیکھا، ادھر یاسر شاہ نے مکمل غزل پر اصلاح دے دی
آپ کا لکھا ثقہ اور سکہ رائج الوقت ہے میرا لکھا خام اور بدنام -
 
السلام علیکم

مزاج کیسے ہیں برادرم ؟

غزل زبانِ عشق میں ہے تذکرہ جمال کا
وفا، جفا، حیا، ادا، فراق اور وصال کا

شعر کا وزن ٹھیک ہے ،روانی اچھی ہے -مگر دوسرے مصرع میں کچھ ادھورا پن ہے، یوں کر دیکھیں :
بیان ہے وفا، جفا، فراق اور وصال کا

مگر بات یہ ہے کہ دوسرا مصرع آپ کا محض "تذکرہ جمال " کی اصطلاح کو کھول رہا ہے -اسے جامع کیا جائے اگر کچھ ابہام پیدا کر کے تو یوں بھی ایک صورت ہے :

غزل زبانِ عشق میں ہے تذکرہ جمال کا
خیالِ حسن بھی ہے ساتھ حسن ہے خیال کا
-----------------

وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ رند کو بھی آدمی بنا دیا کمال کا

اچھا ہے -رند کو اگر ناقص تصور کیا جائے تو صنف تضاد پائی جاتی ہے کمال کے ساتھ مگر بتکلف ،پھر رند کے متعلقات بھی بتکلف بنیں تو بنیں -یوں دیکھیں :

وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ جانور کو آدمی بنا دیا کمال کا

یہاں نہ صرف جانور اور آدمی میں واضح صنف تضاد پائی جا رہی ہے بلکہ عشق سے طے پانے والا ارتقائی سفر بھی مفہوم ہو رہا ہے کہ جانور سے آدمی اور پھر باکمال آدمی یعنی پہلے جان پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہو گئے -

صنم وہ قرض آج بھی ہے مجھ پہ واجب الادا
ترے حنائی ہاتھ سے کڑھے ہوئے رُمال کا

رومال کی بجائے رمال تو چل جائے گا، صنم نے مزہ کرکرا کر دیا -

اگر مثال ہی نہیں ہے اس پری جمال کی
ہو تذکرہ تو کس طرح ہو حسنِ بے مثال کا

نکل رہا لہو ہو جب پسینہ بن کے جسم سے
تو پھر کہے کوئی کہ اس کا رزق ہے حلال کا

اوپر کے دونوں شعر تو ابھی خام ہیں -انھیں الوداع کہہ دیں -

ترے مرے ملاپ پر مری خوشی ہے دیدنی
مجھے خیال ہی نہیں ہے ہجر کے ملال کا

"ملاپ" میں یک گونہ شہوت ہے -اور" مجھے" اضافی لگ رہا ہے -یوں دیکھیں :

ہے وصل یار کی گھڑی ،مری خوشی ہے دیدنی
خیال تھا جو کیا ہوا وہ ہجر کے ملال کا
یا
خیال بھی ہَوا ہُوا وہ ہجر کے ملال کا
"تک" یہاں تیر بہدف ہے،میرے ذہن ہی میں نہ آیا ۔

آپ کا لکھا ثقہ اور سکہ رائج الوقت ہے میرا لکھا خام اور بدنام -
محترم یاسر شاہ صاحب! الحمدللہ! اللہ کا کرم ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو سلامت رکھے۔
توجہ فرمانے کا شکریہ۔دوبارہ کوشش کی ہے اپنی رائے سےضرور نوازیں۔
 
محترم استاد جناب الف عین صاحب! شفقت فرمانے کا شکریہ! اللہ تعالٰی سے آپ کی سلامتی کے لیے دعا کے ساتھ آپ کی رائے کے مطابق دوبارہ کوشش کی ہے ۔نظرثانی کی درخواست ہے۔
غزل زبانِ عشق میں ہے تذکرہ جمال کا
وفا، جفا، حیا، ادا، فراق اور وصال کا

درست
شکریہ سر!
وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ رند کو بھی آدمی بنا دیا کمال کا

رند کی ہی کیا خصوصیت ہے؟ یہ واضح نہیں
وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ عاشقوں میں رند کو بنا دیا کمال کا
صنم وہ قرض آج بھی ہے مجھ پہ واجب الادا
ترے حنائی ہاتھ سے کڑھے ہوئے رُمال کا

تو کس طرح ادا کیا جائے گا؟ تکنیکی طور پر درست
وہ قرض واجب الادا، کروں میں کس طرح ادا
ترے حنائی ہاتھ سے کڑھے ہوئے رُمال کا
اگر مثال ہی نہیں ہے اس پری جمال کی
ہو تذکرہ تو کس طرح ہو حسنِ بے مثال کا

دوسرے مصرعے میں دوسرا "ہو" زائد ہے
یہ جملہ ذہن میں تھا
حسنِ بے مثال کا تذکرہ ہو تو کس طرح ہو؟ بہر حال
اگر مثال ہی نہیں ہے اس پری جمال کی
ہو تذکرہ تو کس طرح جمالِ بے مثال کا
یا
ہو تذکرہ تو کس طرح شبیہ ِ بے مثال کا

نکل رہا لہو ہو جب پسینہ بن کے جسم سے
تو پھر کہے کوئی کہ اس کا رزق ہے حلال کا

پہلا مصرع تو @صریرنے درست کر دیا لیکن دوسرے میں بھی مجھے بات نا مکمل لگ رہی ہے کہ اس کے بعد "یہ درست ہو گا" کہنا چاہیے تھا
لہو پسینہ بن کے بہہ رہا ہو جس کے جسم سے
بلا شبہ کما رہا ہے رزق وہ حلال کا
ترے مرے ملاپ پر مری خوشی ہے دیدنی
مجھے خیال ہی نہیں ہے ہجر کے ملال کا

ملاپ کی جگہ وصال ہو تو لفظی فضا برقرار رہے
مجھے خیال تک... کیسا رہے گا؟
ترے مرے وصال پر مری خوشی ہے دیدنی
مجھے خیال تک نہیں ہے ہجر کے ملال کا
 

الف عین

لائبریرین
وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ عاشقوں میں رند کو بنا دیا کمال کا
رند کا جوازتو اب بھی نہیں ہے
ہو تذکرہ تو کس طرح جمالِ بے مثال کا
یہ بہتر ہے
باقی اشعار بھی درست ہو گئے ہیں
 
شکریہ سر الف عین صاحب! متبادل مصرعوں پر آپ کی رائے درکار ہے۔
وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ عاشقوں میں رند کو بنا دیا کمال کا

رند کا جوازتو اب بھی نہیں ہے
وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
شراب خور رند کو بنا دیا کمال کا
یا
شراب خور کو بھی ہے بنا دیا کمال کا
یا
کہ عاشقوں میں ہے مجھے بنا دیا کمال کا
یا
مجھے بھی عاشقوں میں ہے بنا دیا کمال کا
یا
ہے عاشقوں میں بھی مجھے بنا دیا کمال کا
 
مجھ ایسے عاشقوں کو بھی بنا دیا کمال کا
کے بارے میں کیا خیال ہے؟
سر الف عین صاحب شکریہ!
ایک آخری کوشش میری طرف سے۔ اگر بہتری نہ ہوئی تو پھر آپ کا دیا ہوا متبادل ہی آخری ہوگا۔

وہ سوز اور گدازِ دل عطا کیا ہے عشق نے
کہ سنگدل کو نرم دل بنا دیا کمال کا
یا
کہ سنگدل کو رحم دل بنا دیا کمال کا
 
Top