غزل

سر اصلاح کے لئے حاضرِ خدمت هوں
تم اگر ہاتھ سے نکلے تو بکھر جاؤں گا.
چھوڑ کر میں تری دہلیز کدھر جاؤں گا.
بخش دے اب مجھےدیدار کی نعمت ورنہ.
تیرے دیدار کی حسرت میں ہی مر جاؤں گا.
لوگ پوچھیں گے مری موت کا موجب تم سے.
جب کسی غیر کے کاندھوں پہ میں گھر جاؤں گا
ڈوبنے کے لئے دریا کی ضرورت کیا ہے.
ڈوبنے کو تری آنکھوں میں اتر جاؤں گا.
یاد کر کے مجھے سجاد وہ روئیں گے بہت.
جب فنا کی میں حقیقت سے گزر جاؤں گا.
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو اچھی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ آپ میں اچھی شاعری کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ بس ذرا انگریزی محاورے کے مطابق 'کونے تراشنے کی ضرورت ہے
مطلع میں بکھر اور کدھر ایطا کا احساس دیتے ہیں یعنی باقی اشعار میں گھر بھر دھر قوافی کی ضرورت ہو جاتی ہے جو اس غزل میں نہیں۔ مطلع کا مفہوم بھی عجیب ہے کہ محبوب ہاتھ سے چوروں کی طرح نکل جائے تو شاعر کیوں بکھرے گا؟
بخش دے اب مجھےدیدار کی نعمت ورنہ.
تیرے دیدار کی حسرت میں ہی مر جاؤں گا.
دونوں مصرعوں میں دیدار کا دہرایا جانا اچھا نہیں

لوگ پوچھیں گے مری موت کا موجب تم سے.
جب کسی غیر کے کاندھوں پہ میں گھر جاؤں گا
... موجب کا غلط استعمال
لوگ پوچھیں گے سبب موت کا تم سے میری
درست ہو سکتا ہے
باقی درست ہیں
 
غزل تو اچھی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ آپ میں اچھی شاعری کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ بس ذرا انگریزی محاورے کے مطابق 'کونے تراشنے کی ضرورت ہے
مطلع میں بکھر اور کدھر ایطا کا احساس دیتے ہیں یعنی باقی اشعار میں گھر بھر دھر قوافی کی ضرورت ہو جاتی ہے جو اس غزل میں نہیں۔ مطلع کا مفہوم بھی عجیب ہے کہ محبوب ہاتھ سے چوروں کی طرح نکل جائے تو شاعر کیوں بکھرے گا؟
بخش دے اب مجھےدیدار کی نعمت ورنہ.
تیرے دیدار کی حسرت میں ہی مر جاؤں گا.
دونوں مصرعوں میں دیدار کا دہرایا جانا اچھا نہیں

لوگ پوچھیں گے مری موت کا موجب تم سے.
جب کسی غیر کے کاندھوں پہ میں گھر جاؤں گا
... موجب کا غلط استعمال
لوگ پوچھیں گے سبب موت کا تم سے میری
درست ہو سکتا ہے
باقی درست ہیں
سر شکریہ میں بہت ممنون ہوں جو آپ مجھے اپنا قیمتی وقت بخش رہے ہیں۔ انشاءاللہ اگر آپ کی شفقت اسی طرح رهی تو بہت جلد بہتری آئے گی میرے الفاظ میں
 
غزل تو اچھی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ آپ میں اچھی شاعری کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ بس ذرا انگریزی محاورے کے مطابق 'کونے تراشنے کی ضرورت ہے
مطلع میں بکھر اور کدھر ایطا کا احساس دیتے ہیں یعنی باقی اشعار میں گھر بھر دھر قوافی کی ضرورت ہو جاتی ہے جو اس غزل میں نہیں۔ مطلع کا مفہوم بھی عجیب ہے کہ محبوب ہاتھ سے چوروں کی طرح نکل جائے تو شاعر کیوں بکھرے گا؟
بخش دے اب مجھےدیدار کی نعمت ورنہ.
تیرے دیدار کی حسرت میں ہی مر جاؤں گا.
دونوں مصرعوں میں دیدار کا دہرایا جانا اچھا نہیں

لوگ پوچھیں گے مری موت کا موجب تم سے.
جب کسی غیر کے کاندھوں پہ میں گھر جاؤں گا
... موجب کا غلط استعمال
لوگ پوچھیں گے سبب موت کا تم سے میری
درست ہو سکتا ہے
باقی درست ہیں
بخش دے اب مجھےدیدار کی نعمت ورنہ.
کسی دن شدتِ جذبات سے مر جاؤں گا۔
سر اگر اس شعر کو یوں کر لوں تو ٹھیک ہو گا
 
Top