غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
اک اور نیا بابِ سخن کھولا ہے میں نے
میزانِ محبت میں گہر تولا ہے میں نے

اس روح پہ لکھا سانسوں سے جو مولا ہے میں نے
شبیر کو معلوم ہے کیا بولا ہے میں نے

یہ علم ہے صفدر مجھے قسمت کا دھنی ہوں
مولائی ہوں میں حیدری ہوں پنجتنی ہوں

صفدر ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین
ہاں میرا تعارف بھی یہ پہچان یہی ہے
ایماں کی قسم کھاتا ہوں ایمان یہی ہے

اس مرثیے کا سچ ہے کہ عنوان یہی ہے
ہاں آلِ محمد کا بھی احسان یہی ہے

اصغر نے یوں طاقت کا بھرم توڑ دیا ہے
رُخ پیاس کا صحرا کی طرف موڑ دیا ہے

صفدر ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین
کہتی ہے یہی پیاس لکھو پیاسِ سکینہ
چہرے میں ہو اس مرثیے کے یاسِ سکینہ

مصرعوں میں نظر آئے جو احساسِ سکینہ
ہر رُخ سے جھلکتی ہو فقط آسِ سکینہ

رونے لگے قرطاس و قلم مرثیہ سن کر
سر پیٹ لے غازی کا علم مرثیہ سن کر

صفدر ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین
فن مجھ کو ملا ہے یہ نبی زاردوں کے در سے
زہرا تری چوکھٹ سے محمد ترے گھر سے

لفظوں کو عطا روشنی ہو شمس وقمر سے
طالب ہوں فقط دادکا اربابِ ہُنر سے

اس بزم میں اب نور جو اُترے گا وہ تکنا
ہر سمت گلستان جو بکھرے گا وہ تکنا

صفدر ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین
ایمان کی تعلیم کا مرکز ہے یہی گھر
ہاں کوثر و تسنیم کا مرکز ہے یہی گھر

عرفان کی تقسیم کا مرکز ہے یہی گھر
الحمد کی تفہیم کا مرکز ہے یہی گھر

یہ در درِ حسنین ہے یہ معبدِ حق ہے
یاں پہلا سبق شوقِ شہادت کا سبق ہے
صفدر ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین
جو رشکِ ملائک ہے وہ انسان علی ہے
اللہ کی مشیعت کا بھی ارمان علی ہے

قرآن کہے جس کو وہ میزان علی ہے
اس دل کی حسیں بستی کا سلطان علی ہے

کعبے کو شرف ان کی ولادت سے عطا ہے
وہ پھول ہے جو قلبِ محمد میں کھِلا ہے

صفدر ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین
جب ذکر سنو ہونے لگے کرب وبلا کا
مجلس میں چلی آتی ہیں روتی ہوئی زہرا

مظلوم حُسینا کا ہو ماتم جہاں برپا
لیتی ہیں عزاداروں سے شبیر کاپُرسہ

رومال میں لیتی ہیں عزادار کے آنسو
جنت کی سند پاتے ہیں غمخوار کے آنسو
 

سیما علی

لائبریرین
رُخ چوم کے سجاد یہ کہنے لگے ہمشیر
کچھ غم نہ کرؤہاتھ میں اللہ کے ہے تقدیر

زنداں کی اسیری کبھی دکھلائے گی تاثیر
چاہا جو خدا نے تو یہ کٹ جائے گی زنجیر

جائیں گے مدینے نہ یوں گھبراؤسکینہ
میں صدقے مری گود میں آ جاؤسکینہ
 

سیما علی

لائبریرین
صفدر نہیں اب تاب لکھوں دفن کا منظر
ماں سکتے میں خاموش ہے زینب ہے کھُلے سر

اک درد کی تصویر ہے شبیر کی خواہر
ہیں جن و ملک نوحہ کُناں چُپ ہیں پیمبر

اب اوڑھ کے سو چادرِ تطہیر سکینہ
مل جائے گا اب سینہءشبیر سکینہ
 

سیما علی

لائبریرین
برسوں کی تمنا مری پوری ہوئی صفدر
لو دُخترِ شبیر کا ہے مرثیہ آخر

ہے عرش پہ اب شاعرِ مولا کا مقدر
دی خواب میں آ کر مجھے سجاد نے چادر

کوثر کی تمنا ہے نہ جنت کی طلب ہے
اب قبرِ سکینہ کی زیارت کی طلب ہے
 

سیما علی

لائبریرین
نظر نظر میں جو کعبے بنا دیئے تم نے
حسینؑ کونسے جلوے دکھا دیئے تم نے

چمک سے جن کی منورہے آج تک اسلام
چراغ ایسے بہتّر جلا دیئے تم نے

حسینؑ چشمِ عنایت ذرا ادب پر بھی
نہ جانے کتنے مقدر بنا دیئے تم نے

ادب سیتا پوری
 

سیما علی

لائبریرین
غمِ حسینؑ میں جو آنکھ تر نہیں ہوتی
اسے نصیب حقیقی نظر نہیں ہوتی

جھکا سے نہ کبھی سر جو ما سوا کے لئے
ہے سر بلند اسے فکرِ سر نہیں ہوتی

ہوئے نہ ہوتے جو شبیرؑ کربلا میں شہید
نظر زمانے کی اسلام پر نہیں ہوتی

کبھی کبھی نظر آتی ہے فتح باطل کی
خدا گواہ کہ وہ معتبر نہیں ہوتی

غمِ حسینؑ نہ ہوتا جو امن کے دل میں
غمِ زمانہ سے اس کو مفر نہیں ہوتی

گوپی ناتھ امن لکھنوی
 

سیما علی

لائبریرین
گلشنِ صدق و صفا کالالۂرنگیں حسینؑ
شمع عالم، مشعلِ دنیا، چراغِ دیں حسینؑ

سر سے پا تک سرخیٔافسانۂخونیں حسینؑ
جس پہ شاہوں کی خوشی قربان وہ غمگیں حسینؑ

مطلع نور مہ و پروین ہے پیشانی تری
باج لیتی ہے ہر اک مذہب سے قربانی تری

مہندر سنگھ بیدی سحر
 

سیما علی

لائبریرین
آتا ہے کون شمع امامت لئے ہوئے
اپنے جلوے میں فوج ہدایت لئے ہوئے

ہاتھوں جام سرخ شہادت لئے ہوئے
لب دعائے بخش امت لئے ہو ئے

پھیلی بو فضا میں شہہ مشرقین کی
آتی ہے کربلا میں سواری حسین کی

زہرا بھی ساتھ ہیں حسن مجتبیٰ بھی ساتھ
جعفر بھی ساتھ ہیں مشکل کشا بھی ساتھ

حمزہ بھی ساتھ ہیں جناب رسول خدا بھی ساتھ
تنہا نہیں حسین کہ ہیں انبیاءبھی ساتھ

شور درود اٹھتا ہے سارے جہان سے
برسا رہا ہے پھو ل ملک آسمان سے

گھوڑے پہ آگے آگے ہیں خود شیر کربلا
ہیں گرد سب عزیز و رفیقان با وفا

ابرار و پاک ہیں و حق آگاہ و پارسا
پھیلی ہوئی ہے چہروں کے چاروں طرف ضیاء

پورے بہار پر ہے گلستاں بتول کا
چھوٹا سا قافلہ ہے یہ آل رسول کا

بر میں قبائیں سر پہ عمامے بندھے ہوئے
تیغیں کمر میں پہلو میں خنجر لگے ہوئے

دانتوں میں ہونٹ رانوں گھوڑے جمے ہوئے
بازو بھرے بھرے ہوئے سینے تنے ہوئے

کمسن ہیں کچھ ضعیف ہیں کچھ نوجوان ہیں
پیشانیوں پہ سجدہء حق کے نشان ہیں

ہمت پہ و لو لوں پہ شجاعت کو ناز ہے
طاعت گذایوں پہ عبادت کو ناز ہے

صورت پہ د ست ضانع قدرت کو ناز ہے
بازو میں زور وہ ہے کہ قوت کو ناز ہے

نقشے ہیں اک مصور زریں نگا ر کے
بکھرے ورق ہیں مصحف پروردگار کے

علی سردار جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
جوش ملیح آبادی کے ایک مرثیہ سے اقتباس،
کر دیا ثابت یہ تو نے اے دلاور آدمی
زندگی کی موت سے لیتا ہے ٹکر آدمی
کاٹ سکتا ہے رگِ گردن سے خنجر آدمی
لشکروں کو روند سکتے ہیں بہتر آدمی
ضعف ڈھا سکتا ہے قصرِِ افسر و اورنگ کو
آبگینے توڑ سکتے ہیں حصارِ سنگ کو
 

سیما علی

لائبریرین
علی سردار جعفری کی نظم ٰٰٰ ٰٰٰکربلاٰٰٰ ٰٰٰ

چوتھا بند
یہ مدرسے دانش کدے
علم و ہُنر کے میکدے
ان میں کہاں سے آگئے
یہ کرگسوں کے گھونسلے
یہ جہل کی پرچھا ئیاں
لیتی ہوئ انگڑائیاں
دانش ورانِ بے یقیں
غیروں کے دفتر کے امیں
الفاظ کے خوا جہ سرا
ان کے تصرّف میں نہیں
خونِ بہارِ زندگی
ان کے تصرّف میں نہیں
خونِ حیاتِ جاوداں
برہم ہے اِن سے رنگِ گُل
آزردہ ہے بادِ صبا
اے کربلا، اے کربلا

پانچواں بند
لیکن یہی دانش کدے
ہیں عشق کے آتش کدے
ہیں حُسن کے تابش کدے
پلتے ہیں جن کی گود میں
لے کر انوکھا بانکپن
عصرِ رواں کے کوہکن
میرے جوانانِ چمن
بلبل نوا، شاہیں ادا
اے کربلا، اے کربلا

چھٹا بند
اے غم کے فرزندو اُٹھو
اے آرزو مندو اُٹھو
زلفوں کی گلیوں میں رواں
دل کی نسیمِ جانفزا
ہونٹوں کی کلیوں میں رواں
بوئے گل و بوئے وفا
آنکھوں میں تاروں کی چمک
ماتھوں پہ سورج کی دمک
دل میں جمالِ شامِ غم
رخ پر جلالِ بے نوا
گونجی ہوئ زیرِ قدم
تاریخ کی آوازِ پا
شممشیر ہے دستِ دُعا
اے کربلا، اے کربلا

ساتواں اور آخری بند
پیاسوں کے آگے آئیں گے
آئیں گے لائے جائیں گے
آسودگانِ جامِ جم
سب صاحبانِ بے کرم
کُھل جائے گا سارا بھرم
جُھک جائیں گے تیغ و علم
پیشِ سفیرانِ قلم
رخشندہ ہے روحِ حرم
تابندہ ہے روئے صنم
سردار کے شعروں میں ہے
روحِ شہیدانِ ضیاء
اے کربلا، اے کربلا
 

سیما علی

لائبریرین
جوش
بہرفخر مشرقین و بحرِ نازِ مغربین
اس زمیں کا یہ مقدر تھا کہ باصد زیب و زین
اس کو اوجِ آسماں پائے بغیر آئے نہ چین
خاک صدیوں کروٹیں لیکر بنے اک دن حسین
دوش پر گلگوں کفن ہو سرپہ زرّیں تاج ہو
تاکہ حاصل خاک کو بارِ دگر معراج ہو
۔۔۔۔۔۔۔
اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیرِ حو ادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اُسی شان سےپھر چھیڑترانہ
تاریخ میں رہ جائےگا مردوں کا فسا نہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر شخص حسین ابنِ علی ہو
۔۔۔۔۔۔۔
قاتل بھی ہورہا ہو اگر پیاس سے نڈھال
پانی اُسے پلا کہ یہی ہے رہِ کمال
دشمن بھی گررہا ہو تو ہاں دوڑ کر سنبھال
تھوکے بھی کوئ منہ پہ تو ماتھے پہ بل نہ ڈال
دل کی سپر پہ غیر کا ہر وار روک لے
تارِ نگاہِ لطف پہ تلوار روک لے
 

سیما علی

لائبریرین
یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لو

در پردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو

یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسین

پھر بزم آب وگل میں ہے کہرام اے حسین
پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسین

پھر حریت ہے مورد الزام اے حسین
ذوق فساد ولولہ شر لیے ہوئے

پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لیے ہوئے
مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار

اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار

پھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر دوچار
اے زندگی جلال شہ مشرقین دے

اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسین دے
آئین کشمکش سے ہے دنیا کی زیب و زین

ہرگام ایک بدر ہو ہر سانس اک حنین
بڑھتے رہو یو نہیں پے تسخیر مشرقین

سینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ یاحسین
تم حیدری ہو‘ سینہ اژدر کو پھاڑ دو

اس خیبر جدید کا در بھی اکھاڑ دو
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہرقوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
:: جوش ::
 

سیما علی

لائبریرین
تصویر کربلاہے عابد ؑ کے آنسوؤں میں
تفسیر لاالہٰ ہے عابد ؑ کے آنسوؤں میں

اے انتہائے حسرت حرف و عدد میں کب ہی
وہ علم جو چھپا ہے عابد ؑ کے آنسوؤں میں

لے کچھ خبر کہیں خود اللہ تو نہیں ہے
یہ کون رو رہا ہےعابد ؑ کے آنسوؤں میں

اے ضعف اہل دل پر کھلتا ہے وقت گریہ
وہ راز جو چھپا ہے عابد ؑ کے آنسوؤں میں

ہے اس کی روشنی سے نور الہٰ روشن
روشن جو اک دیا ہے عابد ؑ کے آنسوؤں میں

ہر صبح ایک سورج نیزے پہ ہے بریدہ
ہر شام بے ردا ہے عابد کے آنسوؤں میں

جس وقت آگ لے کر خیموں میں شام آئی
وہ وقت تھم گیا ہے عابد ؑ کے آنسوؤں میں

کھول اے نویدآنکھیں رکھ طاق میں کتابیں
یہ دیکھ کیا لکھا ہے عابد ؑ کے آنسوؤں میں
 
Top