غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
باتوں کو ترازو کی طرح تولنے والی
بھائی کی شہادت کی گرہ کھولنے والی

تاریخ کی آنکھوں میں حیا گھولنے والی
وہ فاتحِ خیبر کی طرح بولنے والی

اسلام کو روشن بصد اعزاز کیا ہے
عباس کے پرچم کو سرافراز کیا ہے

(محسن نقوی)
 

سیما علی

لائبریرین
حمد سے والناس تک قرآن کے پاروں کو سلام فاطمہ زہرا ترے روشن ستاروں کو سلام

تین دن کے بھوکے پیاسے شہسواروں کو سلام سید مظلوم تیرے جانثاروں کو سلام

جن کے دم سے ہے سدا اللہ اکبر کی صدا کربلا کے ان جری سجدہ گزاروں کو سلام

اکبروعباس و قاسم سے وفاداروں کی خیر اصغر و عون و محمد سے دلاروں کو سلام

حر تری تقدیر پر دارین کی قسمت نثار
مسلم ابن عوسجہ تیرے ستاروں کو سلام
اے حبیب ابن مظاہر تیری جراءت پر فدا جَون تیرے خون کے پر نور دھاروں کو سلام
برسرشام غریباں ادھ جلے خیموں کے بیچ ریت پر بیٹھے ہوئے ان سوگواروں کو سلام

نام حق جن کے لہو سے ہے درخشاں آج تک نینوا کے دشت کے ان ماہ پاروں کو سلام

جن کے دم سے یہ عزاداری ہے قائم افتخار
کربلا سے آج تک کے پرسہ داروں کو سلام
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
منہ سے اک بار لگا لیتے جو مولا پانی
دشت غربت میں نہ یوں ٹھوکریں کھاتا پانی
کون کہتا کے کہ پانی کو ترستے تھے حسین
ان کے ہونٹوں کو ترستا رہا پیاسا پانی
ظرف یہ حضرت عباس کا دیکھے کوئی
نہر قدموں میں تھی اور منہ سے نہ مانگا
گرچہ بے درد نے پیاسا ہی کیا ذبح انہیں
صابروں کی مگر آنکھوں میں نہ آیا پانی

(پروفیسر فیاض احمد کاوش وارثی)
 

الف نظامی

لائبریرین
منہ سے اک بار لگا لیتے جو مولا پانی
دشت غربت میں نہ یوں ٹھوکریں کھاتا پانی

کون کہتا کے کہ پانی کو ترستے تھے حسین
ان کے ہونٹوں کو ترستا رہا پیاسا پانی

کربلا والوں کی اس تشنہ لبی کو سن کر
کوہ و صحرا میں پٹکتا ہے سر اپنا پانی

خیمہ پاک میں جانے کی اجازت نہ ملی
پھوٹ پھوٹ آج بھی اس غم میں ہے روتا پانی

ظرف یہ حضرت عباس کا دیکھے کوئی
نہر قدموں میں تھی اور منہ سے نہ مانگا

کوئی خود داری تو یہ تشنہ لبوں کی دیکھے
شیر خواروں نے بھی تو منہ سے نہ مانگا پانی

گرچہ بے درد نے پیاسا ہی کیا ذبح انہیں
صابروں کی مگر آنکھوں میں نہ آیا پانی

سلسبیل آلِ محمد کے ہے قدموں پہ نثار
وارثِ ساقی کوثر کا ہے صدقا پانی

تشنہ لب خوگرِ تسلیم و رضا ہیں کاوش
خون کے گھونٹ پئیں گے جو نہ پایا پانی
(پروفیسر فیاض احمد کاوش وارثی)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
سجاد ہے گلزار امامت کا مقدر
سجاد ہے باقی ہے شرئیعت کا گل تر
تقدیر حرم آدم اولاد پیمبر
سجاد ہے عازور کے اسلام کا محور
اب تک جو شہیدون کے اجلوں کی سحر ہے
سجادّ کے اعجاز تحمل کا آثر ہے
 

سیما علی

لائبریرین
امامِ جاں, اے امامِ زماں,امامِ سفر!!!!
قدم قدم تری خوشبو،نشاں نشاں ترا غم

( عقیل عباس جعفری)
 

سیما علی

لائبریرین
کسی زمانے میں ہو، لشکرِ حسین سے ہے!!
کہ جو بھی کہتا ہے لبیک بر صدائے حسین

( اْجالا کاظمی)
 

سیما علی

لائبریرین
نجانے کب مرے آقا یہاں چلے آئیں
میں اس خیال سے فرش عزا سجاتا ہوں

شہزاد نیّر کی نظم شکست کس کی سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
ہر سمت یہ ہی ہوتا ہے چرچہ حسین کا
دنیا میں بے نظیر ہے سجدہ حسین کا
۔
کیوں کر نہ اوج پر ہو ستارا حسین کا
مثلِ قمر چمکتا ہے روضہ حسین کا
 

سیما علی

لائبریرین
یاد زینبؑ کو جو عباسؑ کے بازو آئے.
دیر تک آنکھ میں بے ساختہ آنسو آئے.

قبر اصغرؑ پہ گھڑی بھر کو چراغاں تو ہوا.
کربلا سے جو بھٹکتے ہوئے جگنو آئے.

مٹ گئی یاد سے تقدیر کے ماتھے کی شکن
ذہن میں جب علی اکبرؑ تیرے گیسو آئے.

بڑھ کے لہروں نے قدم چوم لیے بچوں کے
چاند مسلم ع کے جو کوفہ میں لبِ جو آئے.

کیوں نہ چومیں انہیں جنت کی ہوائیں مولا ع
ہونٹ میرے تیری دہلیز کو جب چھو آئے.

ہم چھپا کر اسے رکھتے ہیں کفن میں محسن
خونِ شبیرؑ کی جس خاک سے خوشبو آئے.

محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
سلام
۔۔۔۔۔۔۔۔
سرِ دشتِ کرب و بلا ابھی وہی رنگِ ماہِ تمام ہے
وہی خیمہ گاہِ سکینہ ہے وہی سجدہ گاہِ امام ہے

ابھی چشم و دل سے چھٹے نہیں، ترے صبر و ضبط کے مرحلے
وہی صبر و ضبط کے مرحلے، وہی تیرے قتل کی شام ہے

وہی مشک شانۂ صبر پر، وہی تیر پیاس کے حلق میں
وہی آب جوئے فرات ہے، وہی اس کا طرزِ خرام ہے

وہی شامِ کوفہ ہے چار سو، وہی سطرِ وعدہ لہو لہو
وہی نوکِ خنجر تیز ہے، وہی حرفِ حیلۂ خام ہے

وہی ماتمِ مہِ کربلا وہی حاصلِ دلِ مبتلا
یہی رنگ ہے، میرے نطق کا، یہی میرا رنگِ سلام ہے
ایوب خاور
 

سیما علی

لائبریرین
جہاں پہنچے شہیدانِ وفا کے خوں کی بو آئی
قدم جس جس جگہ رکھے زمینِ کربلا پائی

(شاد عظیم آبادی)
 

سیما علی

لائبریرین
حر نہ لشکر ہے نہ جاہ و حشمت و انعام ہے
یہ صداقت کی گواہی کا بس اک اقدام ہے

بات جب کردار کی آئے تو یہ وہ نام ہے
فیصلہ پہ جس کے، سناٹے میں فوجِ شام ہے

عشق گر چاہے تو وہ دریا کو پیاسا مار دے
فرد لشکر سے نکل کر اس کو تنہا مار دے

(عشرت آفرین)
 

سیما علی

لائبریرین
حر کے فوجِ شام سے جانے پہ حجت ہے کہیں؟
ایک بھی تاریخ میں حرفِ شکایت ہے کہیں؟

خاندانِ حر کے دل میں رنج و حسرت ہے کہیں؟
دامنِ تاریخ پہ حرفِ شکایت ہے کہیں؟

پشت پر ہاتھوں کو بندھوائے ہوئے کس شان سے
شام کے لشکر سے حر نکلا نئے عنوان سے

‹ (عشرت آفرین)
 

سیما علی

لائبریرین
اس لعیں کی ہونہ پائگی کہیں بخشش کبھی
کربلا میں جس نے لوٹا ہے قرارِ فاطمہ
رو پڑا عرشِ بریں تھرؔا اٹھا فرشِ زمیں
لٹ رہی تھی کربلا میں جب بہارِ فاطمہ
 

سیما علی

لائبریرین
چشم کرم ہو گھیرے ہیں مجھ کو مصیبتیں
سلطانِ کربلا مرے سلطانِ کربلا
مت پوچھئے ملی ہیں اسے کتنی عظمتیں
"زاہد" ہوا ہے جب سے ثنا خوانِ کربلا
محمد زاہد رضا بنارسی
دارالعلوم حبیبیہ رضویہ گوپی گنج
 
Top