بس کیا ہے اس میں جو ہو مصلحت رب کبیر
راہ نوردی سے نہیں جاتی الہی توقیر
حکم معبود نے دونوں کو بنایا راہگیر
چرخ پر مہر روانہ تھا زمیں پر شبیرؑ
مہر تنہا تھا یہاں گود کے پالے بھی تھے
ساتھ مولا کے کئی ہںسلیوں والے بھی تھے
وہ کڑے کوس وہ ہر گام پہ اک دشواری
دونوں آنکھوں سے مسافر کی تھی نہریں جاری
تھانہ سبزہ کہ کریں آنکھ کی مہماں داری
تھا فقط خیمہ شہ یا فلک زنگاری
چھوڑ کر اپنا وطن حق کا ولی نکلا تھا
اس تب و تاب میں فرزند ِ علیؑ نکلا تھا
راجہ صاحب محمودآباد