حسین جب کہ چلے بعد دوپہر رن کو
نہ تھا کوئی کہ جو تھامے رکاب توسن کو
سکینہ جھاڑ رہی تھی عبا کے دامن کو
حسین چپ کے کھڑے تھے جھکائے گردن کو
نہ آسرا تھا کوئی شاہ کربلائی کو
فقط بہن نے کیا تھا سوار بھائی کو
لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں چِھدا ہوا، کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزار قافلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حسین ہے، نبی کا نورِ عین ہے