امتثالِ امر میں میں نے دونوں مصاریع پر غور کیا ہے، ظہیر بھائی۔ اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شاید ایک مصرع میں ظاہراً گرامر کی ایک غلطی آپ کے محلِ نظر ہے اور دوسرے میں تنافر۔
"میری جیسی نظر" سننے میں شاید عجیب معلوم ہوتا ہو۔ مگر فقیر کی تحقیق کہتی ہے کہ درست پیرایۂِ اظہار یہی ہے۔ عموماً لوگ اس جگہ "مجھ جیسی نظر" کہیں گے مگر درحقیقت یہ گرامر کی رو سے غلط ہے۔ "مجھ جیسی نظر" کہنے کا مطلب ہے قائل کی ذات جیسی نظر نہ کہ اس کی نظر جیسی نظر۔ اس میں اشارہ قائل کی طرف ہے نہ کہ اس کی نظر کی طرف۔ جبکہ "میری جیسی نظر" کہا جائے تو اس کا مفہوم بالتصریح یہ نکلتا ہے کہ قائل کی نظر جیسی نظر کی بات ہو رہی ہے۔
اس ضمن میں غالبؔ کے ایک شعر کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔ فرماتے ہیں:
جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو؟
"میرا سا" کا ٹکڑا ویسا ہی ہے جیسا "میری جیسی" کا ہے۔ یعنی میرے روزِ سیاہ جیسا دن۔ اگر اسے "مجھ سا روزِ سیاہ" کہا جائے تو معنیٰ کا جو خلط پیدا ہو گا وہ ظاہر ہے۔
تنافر سے جان چھڑانے میں معانی ہاتھ سے جاتے ہیں۔ کوئی صلاح دیجیے تو ممنون ہوں گا۔
اگر میں جناب کے اشارے غلط سمجھا ہوں تو معذرت خواہ ہوں۔ کوڑھ مغزی کا چارہ بھی آپ ہی تجویز کریں تو کریں۔