غوری سلطنت سے نریندر مودی تک

رباب واسطی

محفلین
غوری سلطنت

1 = 1193 محمد غوری
2 = 1206 قطب الدین ایبک
3 = 1210 آرام شاہ
4 = 1211 التتمش
5 = 1236 ركن الدين فیروز شاہ
6 = 1236 رضیہ سلطان
7 = 1240 معیزالدین بہرام شاہ
8 = 1242 الہ دين مسعود شاہ
9 = 1246 ناصرالدين محمود
10 = 1266 غیاث الدین بلبن
11 = 1286 رنگ كھشرو
12 = 1287 مذدن كےكباد
13 = 1290 شمس الدین كےمرس
غوری سلطنت اختتام
(دور حکومت -97 سال تقریبا)

خلجي سلطنت

1 = 1290 جلال الدین فیروز خلجی
2 = 1292 الہ دین خلجی
4 = 1316 شھاب الدین عمر شاہ
5 = 1316 قطب الدین مبارک شاہ
6 = 1320 ناصر الدین خسرو شاہ
خلجی سلطنت اختتام
(دور حکومت -30 سال تقریبا)


تغلق سلطنت

1 = 1320 غیاث الدین تغلق (اول)
2 = 1325 محمد بن تغلق (دوم)
3 = 1351 فیروز شاہ تغلق
4 = 1388 غیاث الدین تغلق (دوم)
5 = 1389 ابوبکر شاہ
6 = 1389 محمد تغلق (سوم)
7 = 1394 الیگزینڈر شاہ (اول)
8 = 1394 ناصر الدین شاہ (دوم)
9 = 1395 نصرت شاہ
10 = 1399 ناصرالدين محمدشاہ (دوم)
11 = 1413 دولت شاه
تغلق سلطنت اختتام
(دور حکومت -94 سال تقریبا)

سعید سلطنت

1 = 1414 كھجر خان
2 = 1421 معیزالدین مبارک شاہ (دوم)
3 = 1434 محمد شاہ(چہارم)
4 = 1445 الہ دين عالم شاہ
سعید سلطنت اختتام
(دور حکومت -37 سال تقریبا)

لودھی سلطنت

1 = 1451 بهلول لودھی
2 = 1489 الیگزینڈر لودھی (دوم)
3 = 1517 ابراہیم لودھی
لودھی سلطنت اختتام
(دور حکومت -75 سال تقریبا)
مغلیہ سلطنت

1 = 1526 ظہیرالدين بابر
2 = 1530 ہمایوں
مغلیہ سلطنت اختتام


سوري سلطنت

1 = 1539 شیر شاہ سوری
2 = 1545 اسلام شاہ سوری
3 = 1552 محمود شاہ سوری
4 = 1553 ابراہیم سوری
5 = 1554 پرویز شاہ سوری
6 = 1554 مبارک خان سوری
7 = 1555 الیگزینڈر سوری
سوری سلطنت اختتام
(دور حکومت -16 سال تقریبا)

مغلیہ سلطنت دوبارہ

1 = 1555 همايوں(دوبارہ گدی نشین)
2 = 1556 جلال الدين اکبر
3 = 1605 جہانگیر سلیم
4 = 1628 شاہ جہاں
5 = 1659 اورنگزیب
6 = 1707 شاہ عالم (اول)
7 = 1712 بهادر شاہ
8 = 1713 پھاروكھشير
9 = 1719 ريپھد راجت
10 = 1719 ريپھد دولا
11 = 1719 نےكشييار
12 = 1719 محمود شاہ
13 = 1748 احمد شاہ
14 = 1754 عالمگیر
15 = 1759 شاہ عالم
16 = 1806 اکبر شاہ
17 = 1837 بہادر شاہ ظفر
مغلیہ سلطنت اختتام
(دور حکومت -315 سال تقریبا)

برطانوی راج

1 = 1858 لارڈ كینگ
2 = 1862 لارڈ جیمز بروس یلگن
3 = 1864 لارڈ جهن لورےنش
4 = 1869 لارڈ رچارڈ میو
5 = 1872 لارڈ نورتھبك
6 = 1876 لارڈ ایڈورڈ لٹین
7 = 1880 لارڈ جيورج ریپن
8 = 1884 لارڈ ڈفرین
9 = 1888 لارڈ هنني لےسڈون
10 = 1894 لارڈ وکٹر بروس یلگن
11 = 1899 لارڈ جيورج كرجھن
12 = 1905 لارڈ گلبرٹ منٹو
13 = 1910 لارڈ چارلس هارڈج
14 = 1916 لارڈ فریڈرک سےلمسپھورڈ
15 = 1921 لارڈ ركس ايجےك رڈيگ
16 = 1926 لارڈ ایڈورڈ ارون
17 = 1931 لارڈ پھرمےن وےلگدن
18 = 1936 لارڈ اےلےكجد لنلتھگو
19 = 1943 لارڈ اركبالڈ وےوےل
20 = 1947 لارڈ ماؤنٹ بیٹن

برطانوی سامراج کا اختتام

بھارت، وزرائے اعظم

1 = 1947 جواہر لال نہرو
2 = 1964 گلزاری لال نندا
3 = 1964 لال بهادر شاستری
4 = 1966 گلزاری لال نندا
5 = 1966 اندرا گاندھی
6 = 1977 مرارجی ڈیسائی
7 = 1979 چرن سنگھ
8 = 1980 اندرا گاندھی
9 = 1984 راجیو گاندھی
10 = 1989 وشوناتھ پرتاپسه
11 = 1990 چندرشیکھر
12 = 1991 پيوينرسه راؤ
13 = 1992 اٹل بہاری واجپائی
14 = 1996 چڈيدے گوڑا
15 = 1997 ايل كےگجرال
16 = 1998 اٹل بہاری واجپائی
17 = 2004 منموھن سنگھ
18 = 2014 نریندر مودی


764 سالوں تک مسلم بادشاھت ہونے کے باوجود بھی ہندو، ھندوستان میں باقی ہیں. مسلمان حکمرانوں نے کبھی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا

اور ۔۔۔۔

ھندوں کو اب تک 100 سال بھی نہیں ہوئے اور یہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں
ضروری گزارش!!
یہ معلومات طلباءاوراساتذہ
میں عام کریں۔
جزاکم اللّه خیراً کثیرا

اس پوسٹ کو سکول کے بچوں کے ساتھ ضرور شئیر کریں
کیونکہ آجکل کے دور میں 90% لوگوں کو اس بارے میں کوئی علم نہیں ھے

وٹس ایپ کاپی
 

محمد وارث

لائبریرین
اس تمام تاریخ کو تاریخ کے ایک تلخ جملے میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ محمود غزنوی نے سومنات کو پاش پاش کرنے اور اس کا مالِ غنیمت سمیٹنے کے لیے اس پر 17 حملے کیے مگر سومنات آج بھی کھڑا ہے اور کوئی مائی کا لعل اس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ بھی نہیں سکتا اور محمود کو یاد کیا جاتا ہے تو اس کے مرد محبوب ایاز کے ساتھ، ایک ہی صف میں کھڑا کر کے!
 

آصف اثر

معطل
اس تمام تاریخ کو تاریخ کے ایک تلخ جملے میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ محمود غزنوی نے سومنات کو پاش پاش کرنے اور اس کا مالِ غنیمت سمیٹنے کے لیے اس پر 17 حملے کیے مگر سومنات آج بھی کھڑا ہے اور کوئی مائی کا لعل اس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ بھی نہیں سکتا اور محمود کو یاد کیا جاتا ہے تو اس کے مرد محبوب ایاز کے ساتھ، ایک ہی صف میں کھڑا کر کے!
بت کو پاش پاش کرنے، قیمتی زروجواہرات کو بُت میں دفنانے کے بجائے عامۃ الناس پر خرچ کرنے کے برعکس انسانی قتل و غارت میں فرق بہرحال رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کی کوئی سند بھی ہے یا صرف پلڑے میں پتھر رکھنا ہے۔
جیسے کشمیریوں، فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے بارہ میں بھارتیوں، اسرائیلیوں سے نہیں پوچھتے۔ ویسے ہی ہندوؤں پر ہونے والے مظالم کے بارہ میں مسلم فاتحین سے نہ پوچھا جائے۔
 

آصف اثر

معطل
جیسے کشمیریوں، فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے بارہ میں بھارتیوں، اسرائیلیوں سے نہیں پوچھتے۔ ویسے ہی ہندوؤں پر ہونے والے مظالم کے بارہ میں مسلم فاتحین سے نہ پوچھا جائے۔
بتادیں، تحفظ کی ضمانت میری جانب سے!
 

جاسم محمد

محفلین
بتادیں، تحفظ کی ضمانت میری جانب سے!
مسلمان بھارت میں باہر سے آئے تھے یعنی فاتحین تھے۔ فاتحین سے یہ توقع رکھنا کہ انہوں نے اپنے مفتوحین کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا خود کو دھوکہ دینا ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کوئی مسلمانوں سے بغض کی بنیاد پر قائم ہونے والا نظریہ نہیں۔ بلکہ یہ انگریز کی آمد سے قبل جو مختلف مسلم فاتحین نے ہندوؤں کے ساتھ کیا۔ اس کا شدید ردعمل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جیسے مسلم فاتحین نے ہندو اکثریت کو دبا کر رکھا۔ ویسے ہی وہ مسلم اکثریت علاقوں کے ساتھ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
Religious persecution inflicted upon Hindus Over time in India
 

آصف اثر

معطل
مسلمان بھارت میں باہر سے آئے تھے یعنی فاتحین تھے۔ فاتحین سے یہ توقع رکھنا کہ انہوں نے اپنے مفتوحین کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا خود کو دھوکہ دینا ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کوئی مسلمانوں سے بغض کی بنیاد پر قائم ہونے والا نظریہ نہیں۔ بلکہ یہ انگریز کی آمد سے قبل جو مختلف مسلم فاتحین نے ہندوؤں کے ساتھ کیا۔ اس کا شدید ردعمل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جیسے مسلم فاتحین نے ہندو اکثریت کو دبا کر رکھا۔ ویسے ہی وہ مسلم اکثریت علاقوں کے ساتھ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
Religious persecution inflicted upon Hindus Over time in India
کوڈ:
Muhammad Bin Qasim mobilized 6000 cavalries and attacked Indian kingdoms ruled by Hindu and Buddhist Kings. Temples were demolished, mass execution of resisting forces and enslavement of their dependents. Many were taken as slaves to the area where it is now Iraq and elsewhere of Muslim’s control. This was the start of the era of Mughal Empires in ancient India. Qasim chose the Hanafi school of Islamic law to control his empire and other religions like Hindus, Buddhists, and Jains were required to pay the heavy tax for religious freedom. It is estimated that about millions of Hindus were persecuted at this period.

11th Century – Mahmud of Ghazni, Sultan of the Ghaznavid Empire invaded the Indian subcontinent during this period. His campaign to spread Islam led to the destruction of many temples, forceful conversion of Hindus into Islam, lootings of wealth, and executions in Indian Subcontinent.
پہلے تو یہ ماخذ کوئی مستند ثبوت نہیں۔ پھر بھی صرف ان دو پیراگراف پر غور کیجیے۔
محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے ظلم کے ردعمل کے طور پر حملہ کیا، جس کا ذکر نہیں۔
مندر گرائے گئے، کوئی ثبوت نہیں۔
سپاہیوں کو قتل کیا گیا، کیا سپاہیوں کو جنگ میں ہار پہنائے جاتے ہیں؟
بطورِ غلام عراق لے جایا گیا۔ ثبوت نہیں۔
بھاری ٹیکسز کہنا بھی علمی خیانت ہے۔
اندازے سے بتایا جارہا ہے کہ لاکھوں ہندوؤں کو قتل کیا گیا۔

محمود غزنوی۔ ٹیمپل نہیں بلکہ ہندو پنڈتوں کے خزانوں کو انسانیت کے لیے استعمال کیا گیا۔
ہندوؤں کو قتل نہیں کیا گیا بلکہ جنگی سپاہی قتل ہوئے۔
باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔ مستند حوالاجات دیں۔
 

رباب واسطی

محفلین
مسلمان بھارت میں باہر سے آئے تھے یعنی فاتحین تھے۔ فاتحین سے یہ توقع رکھنا کہ انہوں نے اپنے مفتوحین کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا خود کو دھوکہ دینا ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کوئی مسلمانوں سے بغض کی بنیاد پر قائم ہونے والا نظریہ نہیں۔ بلکہ یہ انگریز کی آمد سے قبل جو مختلف مسلم فاتحین نے ہندوؤں کے ساتھ کیا۔ اس کا شدید ردعمل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جیسے مسلم فاتحین نے ہندو اکثریت کو دبا کر رکھا۔ ویسے ہی وہ مسلم اکثریت علاقوں کے ساتھ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
Religious persecution inflicted upon Hindus Over time in India
لیکن میرے مطالعے کے مطابق تو مسلمان بادشاہوں نے خصوصاً مغل شاہی دور میں برصغیر پاک و ہند کے امورِ سلطنت میں غیر مسلموں کو کافی اعلیٰ درجات اور خود مختاری حاصل رہی
 

رباب واسطی

محفلین
کوڈ:
Muhammad Bin Qasim mobilized 6000 cavalries and attacked Indian kingdoms ruled by Hindu and Buddhist Kings. Temples were demolished, mass execution of resisting forces and enslavement of their dependents. Many were taken as slaves to the area where it is now Iraq and elsewhere of Muslim’s control. This was the start of the era of Mughal Empires in ancient India. Qasim chose the Hanafi school of Islamic law to control his empire and other religions like Hindus, Buddhists, and Jains were required to pay the heavy tax for religious freedom. It is estimated that about millions of Hindus were persecuted at this period.

11th Century – Mahmud of Ghazni, Sultan of the Ghaznavid Empire invaded the Indian subcontinent during this period. His campaign to spread Islam led to the destruction of many temples, forceful conversion of Hindus into Islam, lootings of wealth, and executions in Indian Subcontinent.
پہلے تو یہ ماخذ کوئی مستند ثبوت نہیں۔ پھر بھی صرف ان دو پیراگراف پر غور کیجیے۔
محمد بن قاسم نے راجہ داہر کے ظلم کے ردعمل کے طور پر حملہ کیا، جس کا ذکر نہیں۔
مندر گرائے گئے، کوئی ثبوت نہیں۔
سپاہیوں کو قتل کیا گیا، کیا سپاہیوں کو جنگ میں ہار پہنائے جاتے ہیں؟
بطورِ غلام عراق لے جایا گیا۔ ثبوت نہیں۔
بھاری ٹیکسز کہنا بھی علمی خیانت ہے۔
اندازے سے بتایا جارہا ہے کہ لاکھوں ہندوؤں کو قتل کیا گیا۔

محمود غزنوی۔ ٹیمپل نہیں بلکہ ہندو پنڈتوں کے خزانوں کو انسانیت کے لیے استعمال کیا گیا۔
ہندوؤں کو قتل نہیں کیا گیا بلکہ جنگی سپاہی قتل ہوئے۔
باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔ مستند حوالاجات دیں۔

متفق
 

سید عمران

محفلین
لیکن میرے مطالعے کے مطابق تو مسلمان بادشاہوں نے خصوصاً مغل شاہی دور میں برصغیر پاک و ہند کے امورِ سلطنت میں غیر مسلموں کو کافی اعلیٰ درجات اور خود مختاری حاصل رہی
کچھ لوگ کہیں اور جاکر مطالعہ کرتے ہیں۔۔۔
اسی کے اثرات ذہن پر چھائے رہتے ہیں!!!
 

عرفان سعید

محفلین
ایک طالب علمانہ سوال ہے اگر کوئی محفلین رہنمائی کر دیں۔
محمود غزنوی کے بار بار ہندوستان پر حملہ کرنے کا محرک کیا تھا؟
 

سید عمران

محفلین
سول سروس کے امتحان میں تاریخِ پاک و ہند اور تاریخِ اسلام میرے اختیاری مضامین میں شامل تھے۔ یہ دونوں تاریخیں ایسی ہیں جن میں گذشتہ دو تین سو سالوں میں انگریز نے ایک خاص مقصد سے اسقدر جھوٹ کا اضافہ کیا ہے کہ اگر آج کوئی سچ بولنا بھی چاہیے اور تاریخ کے اصل مآخذ سامنے لا کر بتائے کہ انگریز کس قدر بددیانت اور جھوٹا ہے تو اکثریت یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے گی کہ ہم نے جو کورس کی کتابوں میں پڑھا ہے اور جو اپنے بزرگوں کے منہ سے سنتے آئے ہیں، کیا یہ سب جھوٹ ہے۔

تاریخ پاک و ہند پر تو گورے نے خاص کرمفرمائی کی ہے اور مسلمانوں کے ہر اس کرِدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس سے ذراسی مذہبیت جھلکتی تھی۔ یوں بھی ہندوستان مسلمانوں سے پہلے کئی ریاستوں میں بٹا ہوا علاقہ تھا، اس لیے اس کی تاریخ کی گہرائی میں اترنے کے لیے آپ کو ایک ایسی عمر چاہیے جو صرف کتابوں میں ہی بسر ہو۔سول سروس کے امتحان کی تیاری کے دوران میں ایک ایسی مورٔخ سے روشناس ہوا جس میں تعصب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔

اس کی کتاب(A History of India) میرے لیے ایک حیران کن تجربہ تھی۔ پینگوئن والوں نے اسے 1966 میں چھاپا تھا۔ اس کی مولف اس زمانے میں دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر تھی۔1931میں پیدا ہونے والی رو میلا تھاپر (Romila Thaper)نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پھر یونیورسٹی آف لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں وہ پڑھاتی رہی۔

اسے2005ء میں پدمابھوشن ایوارڈ دیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اپنے علمی کام پر سرکاری سرپرستی نہیں چاہتی۔ رومیلا تھاپر نے برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں گورے کی بددیانتی کی ایک بہت بڑی مثال اپنی کتاب سومنات: تاریخ کی بہت سی آوازیں (Somantha: the many voices of history) میں پیش کی ہے۔

اس کتاب میں اس نے قدیم سنسکرت اور فارسی کے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ محمود غزنوی کی سومنات کے عظیم مندر کی تباہی، اس کے بہت بڑے بت کو توڑنا، اس کے اندر سے سونا اور دولت کا نکالنا اور اس دولت کو لوٹ کر غزنی لے جانا، یہ ساری کہانی انگریز دور میں تراشی گئی۔ انگریز دور میں ہی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر مسلمانوں کے ہاں اس کے کردار کی عظمت اور ہندوؤں کے ہاں کردار کشی کی گئی۔اس تاریخی بددیانتی کا آغاز برطانوی پارلیمنٹ کی1843کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے(The proclamation of gates) یعنی دروازوں کی برآمدگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ بحث گورنر جنرل لارڈ ایلن برو(Ellen brough) کے اس اعلان کے بعد شروع ہوئی،جس میں اس نے کہا تھا کہ محمود غزنوی کے سومنات کے عظیم مندر سے صندل کی لکڑی کے تاریخی دروازے اکھاڑ کر غزنی میں نصب کیئے گئے تھے، یہ دروازے ہندوستان کا اثاثہ ہیں اور انھیں واپس لایا جائے۔پارلیمنٹ کی بحث کے دوران یہ ثابت کیا گیا کہ سومنات کے مندر کی تباہی دراصل ہندو قوم کی بہت بڑی توہین ہے، اس لیے دروازوں کو واپس لاکر ان کی عزت بحال کی جائے۔

انگریز کا اس بحث سے ایک ہی مقصد تھا کہ ہندو قوم کو افغانستان میں ہونے والی جنگ میں ساتھ ملایا جائے اور پورے ہندوستان پر یہ ثابت کیا جائے کہ انگریز کا افغانستان پر کس قدر کنٹرول ہے۔ یوں ایک مقامی فوجی بھرتی کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا گیا۔غزنی میں موجود دروازوں کو اکھاڑا گیا ۔ جب انھیں ہندوستان لایا گیا تو ان پر کنندہ آیاتِ قرآنی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کا سومنات تو دور کی بات ہندو مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ دروازے آج بھی آگرہ کے قلعے کے اسٹور روم میں پڑے ہوئے ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد اسی انگریز کے جھوٹ کو متعصب ہندوؤں نے اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا اور تقسیم کے فوراً بعد ہی سومنات کا مندر دوبارہ تعمیر کرنے کی تحریک شروع کردی۔ اس کا سرغنہ کے ایم منشی تھا، جس نے گجرات کی تاریخ لکھی جس میں اس نے سومنات کو پورے برصغیر کے ہندو مذہب کی عظیم علامت اور بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں بھارت کی جدوجہد کا استھان قرار دیا۔

تمام ہندو قوم پرستوں کے نزدیک اس کا دوبارہ تعمیر کیا جانا، محمود غزنوی کے حملوں کا منہ توڑ تاریخی جواب ہوگا۔ انگریز کی تحریر کردہ اسی تاریخ کی بنیاد پر جذباتی مسلمانوں نے بھی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر ایک اس واقعے کے دفاع پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جس کی حیثیت بہت ہی معمولی تھی۔

رومیلا تھاپر کہتی ہے کہ جب میں نے اصل سنسکرت میں لکھے تاریخی مآخذ کا مطالعہ شروع کیا تو میں حیران رہ گئی کہ وہاں سومنات نام کا شہر تو ملتا ہے لیکن وہاں کسی بڑے مندر کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جب کہ محمود غزنوی کے ہندوستان آنے سے بہت پہلے جین مت کے تاریخی مواد سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے سومنات پر حملہ کیا اور ایک مندرکو تباہ کیا۔

اس مندر کی تباہی کو وہ مہاویرکی شیو کے اوپر فتح کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ رومیلا تھا پر حیرانی کے ساتھ تحریر کرتی ہے کہ میں نے جین تاریخ اور سنسکرت کے تاریخی مواد کو بہت تفصیل سے جانچا اور پرکھا اور ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ کہیں محمود غزنوی کے مندر پر حملے اور اس کی لوٹ مار کا تذکرہ ملے، لیکن مجھے اس کا بالکل ذکر تک نہ ملا۔

جب کہ آج کے ہندو اس واقعہ کو اس قدر شدید درد اور کرب سے بیان کرتے ہیں جیسے یہ ان کی تاریخ کی بدترین کہانی ہو۔ محمود غزنوی کی آمد اور لڑائی کو جین اور سنسکرت کے تاریخی مآخذ ایک چھوٹے سے واقعہ کے طور پر لیتے ہیں جب کہ اس واقعہ کے سو سال بعد وہ بالکل خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی واقعہ ہی نہ تھا۔ جب کہ اس مندر کی آرائش اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مسجد کی تعمیر کے بارے میں جین اور سنسکرت کے مورخین بہت کچھ تحریر کرتے ہیں۔

سومنات کا شہر ہندو آبادی اور مسلمان تاجروں کا شہر تھا، جہاں ہندو راجہ نے عرب کے تاجروں کو مسجد بنانے کے لیے زمین بھی دی تھی۔ رومیلا تھا پر کہتی ہے کہ سومنات کے ایک بوہرہ مسلمان تاجر کے بارے میں ایک کتبہ اسے ملا ،جو سومنات شہر کے دفاع میں مارا گیا۔

یہ تاریخی بددیانتی کب شرو ع ہوئی۔1872میں انگریز سرکار کی سرپرستی میں دو مورخیںH.M.Elliotاور Ed.John Dowsonنے ایک تاریخ مرتب کی جس کا نام تھا(History of India as told by its own historians)اِس کتاب کو تحریر کرنے کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ہندوستان ایک منقسم ملک ہے، یہ لوگ ہر وقت آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں، اپنے خلاف ہونے والے حملوں کا دفاع نہیں کر سکتے۔

مسلمان حملہ آور خونخوار ہیں، مذہبی شدت پسند ہیں اور ہندوستان صرف انگریز ہی پر امن اور مستحکم رکھ سکتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے ہر نصاب تعلیم کی کتابوں میں، دانشوروں کی گفتگو میں اور عام لوگوں کی کہانیوں میں اسی کتاب کی جھوٹی داستانیں آج بھی گونجتی رہتی ہیں۔ محمود غزنوی لٹیرا تھا، اورنگ زیب ظالم تھا، مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا، ان کے مندر تباہ کیئے، انار کلی ایک جیتا جاگتا کردار تھی، اکبر بہت روادار تھا، ایسی کتنی کہانیاں ہیں جو اس برصغیر میں گردش کر رہی ہیں۔

لیکن برصغیر کی تاریخ میں کوئی یہ نہیں پڑھاتا کہ مندروں کو تباہ کرنا اور ان کو لوٹنا ہندوستان کے راجاؤں کا صدیوں سے دستور رہا ہے۔’’ چھولا ‘‘اور’’ چالوکا‘‘ کا خاندان جو برصغیر کے مختلف علاقوں پر حکمران تھے، ان کی تاریخی روایات(Epigraphic account) بتاتی ہیں کہ وہ حملہ کرتے اور مندروں کو لوٹتے اور تباہ کرتے تا کہ اپنی دھاک قائم کر سکیں۔642عیسوی میں نرسمہاومِن جو ’’پالوا‘‘ بادشاہ تھا اس نے ’’چالو کا‘‘ کے دارالحکومت واپتی کو فتح کیا تو گنیش کے مندر کو تباہ کر کے مورتی وہاں سے لے گیا۔

اس کے پچاس سال بعد’’ چالو کا‘‘ کا بادشاہ ونادتیا نے مختلف علاقوں کو فتح کیا، گنیش کی مورتی بھی واپس لے کر آیا اور دیگر مندروں کو تباہ کر کے گنگا اور جمنا کی بھی کئی مورتیاںدکن لے کر آیا۔ اسی طرح کی تباہی راشترا کوتا کے بادشاہ گوندا نے پھیلائی جس نے نویں صدی عیسوی میں کنچی پورم فتح کیا اور سری لنکا سے تمام مندروں کے بت اٹھا کر شیو کے مندر میں رکھ دیے۔ اجنتا اور الورا کی بدھ عبادت گاہوں کو ختم کیا گیا اور اس میں شیو اور گنگا کی مورتیاں رکھ کر انھیں مندر بنا دیا گیا۔ کوئی نہیں بتاتا کہ تاریخ میں دوسروں کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے کا آغاز سکندر اعظم نے ایران میں پرسی پولس کی عبادت گاہ تباہ کر کے کیا تھا۔

سومنات کی تباہی کی کہانی بھی ویسی ہی ہے جیسے انگریز مورخین نے تاریخ میں یہ بددیانتی کی اور تحریر کیا کہ اسکندریہ میں دنیا کی سب سے قدیم لا ئبریری کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جلایا گیا۔ حالانکہ یہ لائبریری ان کی آمد سے چھ سو سال قبل مسیح میں جلا دی گئی تھی او ر اسے روم کے بادشاہ کے حکم پر جلایا گیا تھا۔

انگریز مورخین نے یہ جھوٹ تحریر کیا اور پھر جس کسی کو بھی حضرت عمر سے بغض تھا اس نے اس واقعہ کو تاریخ کا حصہ بنا لیا۔ اسی طرح جس کسی کو اسلام سے بغض تھا اس نے محمود غزنوی اور سومنات کے قصے کو ایسا لکھا کہ جھوٹ بھی سچ محسوس ہو۔
ربط
 

رباب واسطی

محفلین
تاریخ پاک و ہند پر تو گورے نے خاص کرمفرمائی کی ہے اور مسلمانوں کے ہر اس کرِدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس سے ذراسی مذہبیت جھلکتی تھی

انگریز کا اس بحث سے ایک ہی مقصد تھا کہ ہندو قوم کو افغانستان میں ہونے والی جنگ میں ساتھ ملایا جائے اور پورے ہندوستان پر یہ ثابت کیا جائے کہ انگریز کا افغانستان پر کس قدر کنٹرول ہے

برصغیر کی تقسیم کے بعد اسی انگریز کے جھوٹ کو متعصب ہندوؤں نے اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا اور تقسیم کے فوراً بعد ہی سومنات کا مندر دوبارہ تعمیر کرنے کی تحریک شروع کردی

متفق
بہت خوب تحقیقی مقالہ
میرے خیال میں اب ناقدین کو کچھ ٹھوس ثبوت شواہد کے ساتھ بات کرنا پڑے گی کیونکہ اس تحری کے بعد اب کسی دلیل کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی
 

محمد وارث

لائبریرین
سول سروس کے امتحان میں تاریخِ پاک و ہند اور تاریخِ اسلام میرے اختیاری مضامین میں شامل تھے۔ یہ دونوں تاریخیں ایسی ہیں جن میں گذشتہ دو تین سو سالوں میں انگریز نے ایک خاص مقصد سے اسقدر جھوٹ کا اضافہ کیا ہے کہ اگر آج کوئی سچ بولنا بھی چاہیے اور تاریخ کے اصل مآخذ سامنے لا کر بتائے کہ انگریز کس قدر بددیانت اور جھوٹا ہے تو اکثریت یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے گی کہ ہم نے جو کورس کی کتابوں میں پڑھا ہے اور جو اپنے بزرگوں کے منہ سے سنتے آئے ہیں، کیا یہ سب جھوٹ ہے۔

تاریخ پاک و ہند پر تو گورے نے خاص کرمفرمائی کی ہے اور مسلمانوں کے ہر اس کرِدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس سے ذراسی مذہبیت جھلکتی تھی۔ یوں بھی ہندوستان مسلمانوں سے پہلے کئی ریاستوں میں بٹا ہوا علاقہ تھا، اس لیے اس کی تاریخ کی گہرائی میں اترنے کے لیے آپ کو ایک ایسی عمر چاہیے جو صرف کتابوں میں ہی بسر ہو۔سول سروس کے امتحان کی تیاری کے دوران میں ایک ایسی مورٔخ سے روشناس ہوا جس میں تعصب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔

اس کی کتاب(A History of India) میرے لیے ایک حیران کن تجربہ تھی۔ پینگوئن والوں نے اسے 1966 میں چھاپا تھا۔ اس کی مولف اس زمانے میں دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر تھی۔1931میں پیدا ہونے والی رو میلا تھاپر (Romila Thaper)نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پھر یونیورسٹی آف لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں وہ پڑھاتی رہی۔

اسے2005ء میں پدمابھوشن ایوارڈ دیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اپنے علمی کام پر سرکاری سرپرستی نہیں چاہتی۔ رومیلا تھاپر نے برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں گورے کی بددیانتی کی ایک بہت بڑی مثال اپنی کتاب سومنات: تاریخ کی بہت سی آوازیں (Somantha: the many voices of history) میں پیش کی ہے۔

اس کتاب میں اس نے قدیم سنسکرت اور فارسی کے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ محمود غزنوی کی سومنات کے عظیم مندر کی تباہی، اس کے بہت بڑے بت کو توڑنا، اس کے اندر سے سونا اور دولت کا نکالنا اور اس دولت کو لوٹ کر غزنی لے جانا، یہ ساری کہانی انگریز دور میں تراشی گئی۔ انگریز دور میں ہی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر مسلمانوں کے ہاں اس کے کردار کی عظمت اور ہندوؤں کے ہاں کردار کشی کی گئی۔اس تاریخی بددیانتی کا آغاز برطانوی پارلیمنٹ کی1843کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے(The proclamation of gates) یعنی دروازوں کی برآمدگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ بحث گورنر جنرل لارڈ ایلن برو(Ellen brough) کے اس اعلان کے بعد شروع ہوئی،جس میں اس نے کہا تھا کہ محمود غزنوی کے سومنات کے عظیم مندر سے صندل کی لکڑی کے تاریخی دروازے اکھاڑ کر غزنی میں نصب کیئے گئے تھے، یہ دروازے ہندوستان کا اثاثہ ہیں اور انھیں واپس لایا جائے۔پارلیمنٹ کی بحث کے دوران یہ ثابت کیا گیا کہ سومنات کے مندر کی تباہی دراصل ہندو قوم کی بہت بڑی توہین ہے، اس لیے دروازوں کو واپس لاکر ان کی عزت بحال کی جائے۔

انگریز کا اس بحث سے ایک ہی مقصد تھا کہ ہندو قوم کو افغانستان میں ہونے والی جنگ میں ساتھ ملایا جائے اور پورے ہندوستان پر یہ ثابت کیا جائے کہ انگریز کا افغانستان پر کس قدر کنٹرول ہے۔ یوں ایک مقامی فوجی بھرتی کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا گیا۔غزنی میں موجود دروازوں کو اکھاڑا گیا ۔ جب انھیں ہندوستان لایا گیا تو ان پر کنندہ آیاتِ قرآنی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کا سومنات تو دور کی بات ہندو مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ دروازے آج بھی آگرہ کے قلعے کے اسٹور روم میں پڑے ہوئے ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد اسی انگریز کے جھوٹ کو متعصب ہندوؤں نے اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا اور تقسیم کے فوراً بعد ہی سومنات کا مندر دوبارہ تعمیر کرنے کی تحریک شروع کردی۔ اس کا سرغنہ کے ایم منشی تھا، جس نے گجرات کی تاریخ لکھی جس میں اس نے سومنات کو پورے برصغیر کے ہندو مذہب کی عظیم علامت اور بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں بھارت کی جدوجہد کا استھان قرار دیا۔

تمام ہندو قوم پرستوں کے نزدیک اس کا دوبارہ تعمیر کیا جانا، محمود غزنوی کے حملوں کا منہ توڑ تاریخی جواب ہوگا۔ انگریز کی تحریر کردہ اسی تاریخ کی بنیاد پر جذباتی مسلمانوں نے بھی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر ایک اس واقعے کے دفاع پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جس کی حیثیت بہت ہی معمولی تھی۔

رومیلا تھاپر کہتی ہے کہ جب میں نے اصل سنسکرت میں لکھے تاریخی مآخذ کا مطالعہ شروع کیا تو میں حیران رہ گئی کہ وہاں سومنات نام کا شہر تو ملتا ہے لیکن وہاں کسی بڑے مندر کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جب کہ محمود غزنوی کے ہندوستان آنے سے بہت پہلے جین مت کے تاریخی مواد سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے سومنات پر حملہ کیا اور ایک مندرکو تباہ کیا۔

اس مندر کی تباہی کو وہ مہاویرکی شیو کے اوپر فتح کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ رومیلا تھا پر حیرانی کے ساتھ تحریر کرتی ہے کہ میں نے جین تاریخ اور سنسکرت کے تاریخی مواد کو بہت تفصیل سے جانچا اور پرکھا اور ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ کہیں محمود غزنوی کے مندر پر حملے اور اس کی لوٹ مار کا تذکرہ ملے، لیکن مجھے اس کا بالکل ذکر تک نہ ملا۔

جب کہ آج کے ہندو اس واقعہ کو اس قدر شدید درد اور کرب سے بیان کرتے ہیں جیسے یہ ان کی تاریخ کی بدترین کہانی ہو۔ محمود غزنوی کی آمد اور لڑائی کو جین اور سنسکرت کے تاریخی مآخذ ایک چھوٹے سے واقعہ کے طور پر لیتے ہیں جب کہ اس واقعہ کے سو سال بعد وہ بالکل خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی واقعہ ہی نہ تھا۔ جب کہ اس مندر کی آرائش اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مسجد کی تعمیر کے بارے میں جین اور سنسکرت کے مورخین بہت کچھ تحریر کرتے ہیں۔

سومنات کا شہر ہندو آبادی اور مسلمان تاجروں کا شہر تھا، جہاں ہندو راجہ نے عرب کے تاجروں کو مسجد بنانے کے لیے زمین بھی دی تھی۔ رومیلا تھا پر کہتی ہے کہ سومنات کے ایک بوہرہ مسلمان تاجر کے بارے میں ایک کتبہ اسے ملا ،جو سومنات شہر کے دفاع میں مارا گیا۔

یہ تاریخی بددیانتی کب شرو ع ہوئی۔1872میں انگریز سرکار کی سرپرستی میں دو مورخیںH.M.Elliotاور Ed.John Dowsonنے ایک تاریخ مرتب کی جس کا نام تھا(History of India as told by its own historians)اِس کتاب کو تحریر کرنے کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ہندوستان ایک منقسم ملک ہے، یہ لوگ ہر وقت آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں، اپنے خلاف ہونے والے حملوں کا دفاع نہیں کر سکتے۔

مسلمان حملہ آور خونخوار ہیں، مذہبی شدت پسند ہیں اور ہندوستان صرف انگریز ہی پر امن اور مستحکم رکھ سکتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے ہر نصاب تعلیم کی کتابوں میں، دانشوروں کی گفتگو میں اور عام لوگوں کی کہانیوں میں اسی کتاب کی جھوٹی داستانیں آج بھی گونجتی رہتی ہیں۔ محمود غزنوی لٹیرا تھا، اورنگ زیب ظالم تھا، مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا، ان کے مندر تباہ کیئے، انار کلی ایک جیتا جاگتا کردار تھی، اکبر بہت روادار تھا، ایسی کتنی کہانیاں ہیں جو اس برصغیر میں گردش کر رہی ہیں۔

لیکن برصغیر کی تاریخ میں کوئی یہ نہیں پڑھاتا کہ مندروں کو تباہ کرنا اور ان کو لوٹنا ہندوستان کے راجاؤں کا صدیوں سے دستور رہا ہے۔’’ چھولا ‘‘اور’’ چالوکا‘‘ کا خاندان جو برصغیر کے مختلف علاقوں پر حکمران تھے، ان کی تاریخی روایات(Epigraphic account) بتاتی ہیں کہ وہ حملہ کرتے اور مندروں کو لوٹتے اور تباہ کرتے تا کہ اپنی دھاک قائم کر سکیں۔642عیسوی میں نرسمہاومِن جو ’’پالوا‘‘ بادشاہ تھا اس نے ’’چالو کا‘‘ کے دارالحکومت واپتی کو فتح کیا تو گنیش کے مندر کو تباہ کر کے مورتی وہاں سے لے گیا۔

اس کے پچاس سال بعد’’ چالو کا‘‘ کا بادشاہ ونادتیا نے مختلف علاقوں کو فتح کیا، گنیش کی مورتی بھی واپس لے کر آیا اور دیگر مندروں کو تباہ کر کے گنگا اور جمنا کی بھی کئی مورتیاںدکن لے کر آیا۔ اسی طرح کی تباہی راشترا کوتا کے بادشاہ گوندا نے پھیلائی جس نے نویں صدی عیسوی میں کنچی پورم فتح کیا اور سری لنکا سے تمام مندروں کے بت اٹھا کر شیو کے مندر میں رکھ دیے۔ اجنتا اور الورا کی بدھ عبادت گاہوں کو ختم کیا گیا اور اس میں شیو اور گنگا کی مورتیاں رکھ کر انھیں مندر بنا دیا گیا۔ کوئی نہیں بتاتا کہ تاریخ میں دوسروں کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے کا آغاز سکندر اعظم نے ایران میں پرسی پولس کی عبادت گاہ تباہ کر کے کیا تھا۔

سومنات کی تباہی کی کہانی بھی ویسی ہی ہے جیسے انگریز مورخین نے تاریخ میں یہ بددیانتی کی اور تحریر کیا کہ اسکندریہ میں دنیا کی سب سے قدیم لا ئبریری کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جلایا گیا۔ حالانکہ یہ لائبریری ان کی آمد سے چھ سو سال قبل مسیح میں جلا دی گئی تھی او ر اسے روم کے بادشاہ کے حکم پر جلایا گیا تھا۔

انگریز مورخین نے یہ جھوٹ تحریر کیا اور پھر جس کسی کو بھی حضرت عمر سے بغض تھا اس نے اس واقعہ کو تاریخ کا حصہ بنا لیا۔ اسی طرح جس کسی کو اسلام سے بغض تھا اس نے محمود غزنوی اور سومنات کے قصے کو ایسا لکھا کہ جھوٹ بھی سچ محسوس ہو۔
ربط
دلچسپ اور افسوسناک!

ہمارے "محبوب" مصنف نے سارا ملبہ انیسویں صدی کے ایک انگریز کے سر پر ڈال دیا ہے مگر ان کتابوں کا کیا کریں جو محمود غزنوی کے دور میں یا اس کے فوری بعد مسلمان مؤرخین نے لکھی تھیں، مثال کے طور پر بارہویں صدی کی طبقاتِ ناصری، تیرہویں صدی کی تاریخَ فیروز شاہی، سولہویں صدی کی تاریخِ فرشتہ اور اسی صدی کی منتخب التواریخ۔ اس وقت تو ہندوستان میں انگریزوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا لیکن ان تمام کتب میں محمود غزنوی کے مالِ غنیمت کے احوال تفصیل کے ساتھ درج ہیں کہ وہ کتنا سونا اور مال و زر اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ ان کی تو محمود غزنوی یا مسلمانوں کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔
 

عرفان سعید

محفلین
سول سروس کے امتحان میں تاریخِ پاک و ہند اور تاریخِ اسلام میرے اختیاری مضامین میں شامل تھے۔ یہ دونوں تاریخیں ایسی ہیں جن میں گذشتہ دو تین سو سالوں میں انگریز نے ایک خاص مقصد سے اسقدر جھوٹ کا اضافہ کیا ہے کہ اگر آج کوئی سچ بولنا بھی چاہیے اور تاریخ کے اصل مآخذ سامنے لا کر بتائے کہ انگریز کس قدر بددیانت اور جھوٹا ہے تو اکثریت یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے گی کہ ہم نے جو کورس کی کتابوں میں پڑھا ہے اور جو اپنے بزرگوں کے منہ سے سنتے آئے ہیں، کیا یہ سب جھوٹ ہے۔

تاریخ پاک و ہند پر تو گورے نے خاص کرمفرمائی کی ہے اور مسلمانوں کے ہر اس کرِدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس سے ذراسی مذہبیت جھلکتی تھی۔ یوں بھی ہندوستان مسلمانوں سے پہلے کئی ریاستوں میں بٹا ہوا علاقہ تھا، اس لیے اس کی تاریخ کی گہرائی میں اترنے کے لیے آپ کو ایک ایسی عمر چاہیے جو صرف کتابوں میں ہی بسر ہو۔سول سروس کے امتحان کی تیاری کے دوران میں ایک ایسی مورٔخ سے روشناس ہوا جس میں تعصب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔

اس کی کتاب(A History of India) میرے لیے ایک حیران کن تجربہ تھی۔ پینگوئن والوں نے اسے 1966 میں چھاپا تھا۔ اس کی مولف اس زمانے میں دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر تھی۔1931میں پیدا ہونے والی رو میلا تھاپر (Romila Thaper)نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پھر یونیورسٹی آف لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں وہ پڑھاتی رہی۔

اسے2005ء میں پدمابھوشن ایوارڈ دیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اپنے علمی کام پر سرکاری سرپرستی نہیں چاہتی۔ رومیلا تھاپر نے برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں گورے کی بددیانتی کی ایک بہت بڑی مثال اپنی کتاب سومنات: تاریخ کی بہت سی آوازیں (Somantha: the many voices of history) میں پیش کی ہے۔

اس کتاب میں اس نے قدیم سنسکرت اور فارسی کے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ محمود غزنوی کی سومنات کے عظیم مندر کی تباہی، اس کے بہت بڑے بت کو توڑنا، اس کے اندر سے سونا اور دولت کا نکالنا اور اس دولت کو لوٹ کر غزنی لے جانا، یہ ساری کہانی انگریز دور میں تراشی گئی۔ انگریز دور میں ہی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر مسلمانوں کے ہاں اس کے کردار کی عظمت اور ہندوؤں کے ہاں کردار کشی کی گئی۔اس تاریخی بددیانتی کا آغاز برطانوی پارلیمنٹ کی1843کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے(The proclamation of gates) یعنی دروازوں کی برآمدگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ بحث گورنر جنرل لارڈ ایلن برو(Ellen brough) کے اس اعلان کے بعد شروع ہوئی،جس میں اس نے کہا تھا کہ محمود غزنوی کے سومنات کے عظیم مندر سے صندل کی لکڑی کے تاریخی دروازے اکھاڑ کر غزنی میں نصب کیئے گئے تھے، یہ دروازے ہندوستان کا اثاثہ ہیں اور انھیں واپس لایا جائے۔پارلیمنٹ کی بحث کے دوران یہ ثابت کیا گیا کہ سومنات کے مندر کی تباہی دراصل ہندو قوم کی بہت بڑی توہین ہے، اس لیے دروازوں کو واپس لاکر ان کی عزت بحال کی جائے۔

انگریز کا اس بحث سے ایک ہی مقصد تھا کہ ہندو قوم کو افغانستان میں ہونے والی جنگ میں ساتھ ملایا جائے اور پورے ہندوستان پر یہ ثابت کیا جائے کہ انگریز کا افغانستان پر کس قدر کنٹرول ہے۔ یوں ایک مقامی فوجی بھرتی کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا گیا۔غزنی میں موجود دروازوں کو اکھاڑا گیا ۔ جب انھیں ہندوستان لایا گیا تو ان پر کنندہ آیاتِ قرآنی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کا سومنات تو دور کی بات ہندو مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ دروازے آج بھی آگرہ کے قلعے کے اسٹور روم میں پڑے ہوئے ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد اسی انگریز کے جھوٹ کو متعصب ہندوؤں نے اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا اور تقسیم کے فوراً بعد ہی سومنات کا مندر دوبارہ تعمیر کرنے کی تحریک شروع کردی۔ اس کا سرغنہ کے ایم منشی تھا، جس نے گجرات کی تاریخ لکھی جس میں اس نے سومنات کو پورے برصغیر کے ہندو مذہب کی عظیم علامت اور بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں بھارت کی جدوجہد کا استھان قرار دیا۔

تمام ہندو قوم پرستوں کے نزدیک اس کا دوبارہ تعمیر کیا جانا، محمود غزنوی کے حملوں کا منہ توڑ تاریخی جواب ہوگا۔ انگریز کی تحریر کردہ اسی تاریخ کی بنیاد پر جذباتی مسلمانوں نے بھی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر ایک اس واقعے کے دفاع پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جس کی حیثیت بہت ہی معمولی تھی۔

رومیلا تھاپر کہتی ہے کہ جب میں نے اصل سنسکرت میں لکھے تاریخی مآخذ کا مطالعہ شروع کیا تو میں حیران رہ گئی کہ وہاں سومنات نام کا شہر تو ملتا ہے لیکن وہاں کسی بڑے مندر کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جب کہ محمود غزنوی کے ہندوستان آنے سے بہت پہلے جین مت کے تاریخی مواد سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے سومنات پر حملہ کیا اور ایک مندرکو تباہ کیا۔

اس مندر کی تباہی کو وہ مہاویرکی شیو کے اوپر فتح کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ رومیلا تھا پر حیرانی کے ساتھ تحریر کرتی ہے کہ میں نے جین تاریخ اور سنسکرت کے تاریخی مواد کو بہت تفصیل سے جانچا اور پرکھا اور ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ کہیں محمود غزنوی کے مندر پر حملے اور اس کی لوٹ مار کا تذکرہ ملے، لیکن مجھے اس کا بالکل ذکر تک نہ ملا۔

جب کہ آج کے ہندو اس واقعہ کو اس قدر شدید درد اور کرب سے بیان کرتے ہیں جیسے یہ ان کی تاریخ کی بدترین کہانی ہو۔ محمود غزنوی کی آمد اور لڑائی کو جین اور سنسکرت کے تاریخی مآخذ ایک چھوٹے سے واقعہ کے طور پر لیتے ہیں جب کہ اس واقعہ کے سو سال بعد وہ بالکل خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی واقعہ ہی نہ تھا۔ جب کہ اس مندر کی آرائش اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مسجد کی تعمیر کے بارے میں جین اور سنسکرت کے مورخین بہت کچھ تحریر کرتے ہیں۔

سومنات کا شہر ہندو آبادی اور مسلمان تاجروں کا شہر تھا، جہاں ہندو راجہ نے عرب کے تاجروں کو مسجد بنانے کے لیے زمین بھی دی تھی۔ رومیلا تھا پر کہتی ہے کہ سومنات کے ایک بوہرہ مسلمان تاجر کے بارے میں ایک کتبہ اسے ملا ،جو سومنات شہر کے دفاع میں مارا گیا۔

یہ تاریخی بددیانتی کب شرو ع ہوئی۔1872میں انگریز سرکار کی سرپرستی میں دو مورخیںH.M.Elliotاور Ed.John Dowsonنے ایک تاریخ مرتب کی جس کا نام تھا(History of India as told by its own historians)اِس کتاب کو تحریر کرنے کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ہندوستان ایک منقسم ملک ہے، یہ لوگ ہر وقت آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں، اپنے خلاف ہونے والے حملوں کا دفاع نہیں کر سکتے۔

مسلمان حملہ آور خونخوار ہیں، مذہبی شدت پسند ہیں اور ہندوستان صرف انگریز ہی پر امن اور مستحکم رکھ سکتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے ہر نصاب تعلیم کی کتابوں میں، دانشوروں کی گفتگو میں اور عام لوگوں کی کہانیوں میں اسی کتاب کی جھوٹی داستانیں آج بھی گونجتی رہتی ہیں۔ محمود غزنوی لٹیرا تھا، اورنگ زیب ظالم تھا، مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا، ان کے مندر تباہ کیئے، انار کلی ایک جیتا جاگتا کردار تھی، اکبر بہت روادار تھا، ایسی کتنی کہانیاں ہیں جو اس برصغیر میں گردش کر رہی ہیں۔

لیکن برصغیر کی تاریخ میں کوئی یہ نہیں پڑھاتا کہ مندروں کو تباہ کرنا اور ان کو لوٹنا ہندوستان کے راجاؤں کا صدیوں سے دستور رہا ہے۔’’ چھولا ‘‘اور’’ چالوکا‘‘ کا خاندان جو برصغیر کے مختلف علاقوں پر حکمران تھے، ان کی تاریخی روایات(Epigraphic account) بتاتی ہیں کہ وہ حملہ کرتے اور مندروں کو لوٹتے اور تباہ کرتے تا کہ اپنی دھاک قائم کر سکیں۔642عیسوی میں نرسمہاومِن جو ’’پالوا‘‘ بادشاہ تھا اس نے ’’چالو کا‘‘ کے دارالحکومت واپتی کو فتح کیا تو گنیش کے مندر کو تباہ کر کے مورتی وہاں سے لے گیا۔

اس کے پچاس سال بعد’’ چالو کا‘‘ کا بادشاہ ونادتیا نے مختلف علاقوں کو فتح کیا، گنیش کی مورتی بھی واپس لے کر آیا اور دیگر مندروں کو تباہ کر کے گنگا اور جمنا کی بھی کئی مورتیاںدکن لے کر آیا۔ اسی طرح کی تباہی راشترا کوتا کے بادشاہ گوندا نے پھیلائی جس نے نویں صدی عیسوی میں کنچی پورم فتح کیا اور سری لنکا سے تمام مندروں کے بت اٹھا کر شیو کے مندر میں رکھ دیے۔ اجنتا اور الورا کی بدھ عبادت گاہوں کو ختم کیا گیا اور اس میں شیو اور گنگا کی مورتیاں رکھ کر انھیں مندر بنا دیا گیا۔ کوئی نہیں بتاتا کہ تاریخ میں دوسروں کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے کا آغاز سکندر اعظم نے ایران میں پرسی پولس کی عبادت گاہ تباہ کر کے کیا تھا۔

سومنات کی تباہی کی کہانی بھی ویسی ہی ہے جیسے انگریز مورخین نے تاریخ میں یہ بددیانتی کی اور تحریر کیا کہ اسکندریہ میں دنیا کی سب سے قدیم لا ئبریری کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جلایا گیا۔ حالانکہ یہ لائبریری ان کی آمد سے چھ سو سال قبل مسیح میں جلا دی گئی تھی او ر اسے روم کے بادشاہ کے حکم پر جلایا گیا تھا۔

انگریز مورخین نے یہ جھوٹ تحریر کیا اور پھر جس کسی کو بھی حضرت عمر سے بغض تھا اس نے اس واقعہ کو تاریخ کا حصہ بنا لیا۔ اسی طرح جس کسی کو اسلام سے بغض تھا اس نے محمود غزنوی اور سومنات کے قصے کو ایسا لکھا کہ جھوٹ بھی سچ محسوس ہو۔
ربط
مجھے پھر بھی محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کا محرک نہیں معلوم ہو سکا۔
 

سید عمران

محفلین
دلچسپ اور افسوسناک!

ہمارے "محبوب" مصنف نے سارا ملبہ انیسویں صدی کے ایک انگریز کے سر پر ڈال دیا ہے مگر ان کتابوں کا کیا کریں جو محمود غزنوی کے دور میں یا اس کے فوری بعد مسلمان مؤرخین نے لکھی تھیں، مثال کے طور پر بارہویں صدی کی طبقاتِ ناصری، تیرہویں صدی کی تاریخَ فیروز شاہی، سولہویں صدی کی تاریخِ فرشتہ اور اسی صدی کی منتخب التواریخ۔ اس وقت تو ہندوستان میں انگریزوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا لیکن ان تمام کتب میں محمود غزنوی کے مالِ غنیمت کے احوال تفصیل کے ساتھ درج ہیں کہ وہ کتنا سونا اور مال و زر اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ ان کی تو محمود غزنوی یا مسلمانوں کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔
یہ ان کی دوستی کی علامت تھی!!!
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن میرے مطالعے کے مطابق تو مسلمان بادشاہوں نے خصوصاً مغل شاہی دور میں برصغیر پاک و ہند کے امورِ سلطنت میں غیر مسلموں کو کافی اعلیٰ درجات اور خود مختاری حاصل رہی
کچھ لوگ کہیں اور جاکر مطالعہ کرتے ہیں۔۔۔
اسی کے اثرات ذہن پر چھائے رہتے ہیں!!!
جب آپ اپنی مرضی کی تاریخ پڑھنے کو ترجیح دیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔
کوئی بھی قوم اپنے پر مسلط شدہ فاتحین و قابضین کو پسند نہیں کرتی۔ یہ عجیب منطق ہے کہ مسلم فاتحین و قابضین تو فرشتے تھے البتہ بھارتی و اسرائیلی فاتحین و قابضین غاصب ہیں۔ اگر مسلمان اپنے پر غیرقوموں کا تسلط برداشت نہیں کرتے۔ تو ہندوؤں سے یہ توقع کیوں رکھی گئی ہے کہ وہ مسلم فاتحین و قابضین کا تسلط برداشت کرتے یا کریں۔
 
Top