خالد محمود چوہدری
محفلین
جناب سید عمران شاہ صاحب جو سوال میں نے پوچھا ہے وہ واحد سوال ہے جس سے مسلمانوں کے تقریباً تمام فرقے حوالہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں
ویسے جناب سید عمران شاہ صاحب کیا آپ کو واقعی علم ہے بائیبل کہتے کسے ہیں؟
اناجیل کا گھڑاک خود اتنا پیچیدہ ہے کہ مجھے بھی سمجھ نہیں آتا...
برسوں پہلے جوش چڑھا تھا اور مختلف ادیان کی کتابیں پڑھیں...
اب جہاں تک یادداشت کام کرتی ہے بے شمار اناجیل میں سے چار اناجیل لوقا متی اور ایک اور انجیل جس کا نام یاد نہیں اور یوحنا کو جمع کیا گیا...
پہلی تین مضامین کے لحاظ سے کافی حد تک مطابقت رکھتی تھیں جبکہ یوحنا میں کچھ مختلف مضامین بھی تھے...
ان کے علاوہ ایک اور انجیل بھی بہت مشہور ہے جسے بربناس کہتے ہیں...
اسے بھی کافی متنازع تسلیم کیا گیا ہے...
اگر آپ کی مراد مشہور نام فارقلیط ہے جس کا ترجمہ مسلمان احمد سے کرتے ہیں تو وہ یا تو یوحنا یا بربناس میں ہوسکتا ہے...
بالکل صحیح کے لیے دیکھنا پڑے گا...
اور اگر فارقلیط کے علاوہ کچھ اور ہے تو واضح کریں...
اس کے علاوہ یہودیوں کی متعدد کتب جن میں سے کچھ اسفار کے نام سے ہیں عہد نامہ قدیم اور باقی چار اناجیل کو عہد نامہ جدید کا نام دے کر موجودہ بائبل کا روپ دیا گیا...
فی الوقت اتنا ہی یاد آرہا ہے...
مزید تحقیق کے لیے اس وقت کوئی دلچسپی نہیں!!!
بالکل صحیح بات کی آپ نے جاسمن۔ ہم سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ بنی اسرائیل کو اس غرور کی سزا ملی کہ وہ اپنے آپ کو بہترین اور دوسروں کو کمتر قوم سمجھتے تھے۔ دیکھا جائے تو ہم مسلمان بھی اکثر اسی زعم میں مبتلا رہتے ہیں۔ میں اگر ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوئی تو یہ اللہ تعالٰی کا احسان اور میری خوش قسمتی ہے۔ میں اگر اپنی زندگی اپنے دین کے مطابق گزارتی ہوں تو یہ میرا فرض ہے, میری بڑائی نہیں۔ اور نہ ہی میرا ایمان اتنا کمزور ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ بات چیت کرنے یا ملنے جلنے سے اسے کوئی نقصان پہنچے گا۔ہمارے پیارے نبیﷺ کی سیرت و کردار کا مطالعہ کریں تو عیاں ہوتا ہے کہ وہ واقعتاََ "رحمت العالمین" ہیں۔۔پوری دنیا کے لئے رحمت۔ وہ صرف "رحمت المسلمین" نہیں ہیں۔
یہاں ہم جائزہ لیں گے کہ ہمارے اخلاق میں وہ کون سی خامیاں ہیں کہ جو ہماری اصل تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔اور محفلین کے پاس غیر مسلموں سے اپنے اچھے برتاؤ کی بھی مثالیں یقیناََ موجود ہوں گی،وہ بھی شئیر کریں۔
1۔مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک زُعم میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پہ فخر ہے۔حالانکہ یہ تو اللہ کا احسان ہے ہم پہ۔ہمیں عاجزی و انکساری کی صفت اپنے اندر پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
2۔ ہم دوسروں پہ طنز و طعنہ زنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ محفل پہ ہی دیکھ لیں۔ کوئی ہمارے شکنجہ میں ایک بار پھنس جائے سہی۔ پھر چل سو چل۔
3۔مذاق اڑانا کس قدر برا فعل ہے۔ ہم اپنے رب کے بندوں کے دل دکھاتے ہیں۔ وہ "رب العالمین" ہے ،رب العالمین۔ وہ یہودیوں ،عیسائیوں،کافروں،قادیانیوں،لامذہب لوگوں کا بھی اُتنا ہی "رب" ہے جتنا ہم مسلمانوں کا۔
اگر وہ نارااض ہوگیا ہم سے ہمارے اِن افعال پہ ،تو ہم کہاں جائیں گے؟
دوسروں کو نہ دیکھیں، خود کو دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
بالکل صحیح بات کی آپ نے جاسمن۔ ہم سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ بنی اسرائیل کو اس غرور کی سزا ملی کہ وہ اپنے آپ کو بہترین اور دوسروں کو کمتر قوم سمجھتے تھے۔ دیکھا جائے تو ہم مسلمان بھی اکثر اسی زعم میں مبتلا رہتے ہیں۔ میں اگر ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوئی تو یہ اللہ تعالٰی کا احسان اور میری خوش قسمتی ہے۔ میں اگر اپنی زندگی اپنے دین کے مطابق گزارتی ہوں تو یہ میرا فرض ہے, میری بڑائی نہیں۔ اور نہ ہی میرا ایمان اتنا کمزور ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ بات چیت کرنے یا ملنے جلنے سے اسے کوئی نقصان پہنچے گا۔
میرا اپنی زندگی میں غیر مسلموں خصوصا مسیحیوں سے کافی واسطہ رہا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس سے میرے ایمان پر کوئی آنچ آئی ہے۔
میرے اساتذہ سے لے کر ہم جماعتوں, ساتھیوں ,جونیئرز تک اور گھر میں صفائی کا کام کرنے والوں تک کہیں نہ کہیں میرا مستقل رابطہ رہا ہے اور ہر جگہ ان کا میرے ساتھ اور میرا ان کے ساتھ سلوک ہمیشہ بہت اچھا رہا ہے۔ اٹھنے بیٹھنے سے لے کر لینے دینے تک۔
کسی سے اچھا برتاو یا اچھے تعلقات رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ یا وہ اپنے مذہب پر کمپرومائز کر رہے ہیں۔ کٹر یا شدت پسند لوگ ہر مذہب میں ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک ہر غیر مذہب سے تعلق رکھنا صریح گناہ ہے۔ لیکن اکثریت اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے۔ یونیورسٹی میں میرا ایک جونیئر یہودی تھا۔ ایک بار ہم لوگوں کی اکٹھی کلاس ہو رہی تھی اور ہماری پروفیسر نے ایک ایکٹیویٹی میں میوزک بجانا شروع کر دیا۔ اور وہ کلاس سے اٹھ کر چلا گیا کیونکہ اس کے نزدیک موسیقی سننا ممنوع تھا۔ خصوصا لڑکیوں اور غیر یہودی لوگوں سے بات کرنا اس کے لیے تقریبا ناممکن تھا۔ کیونکہ وہ خود کو آرتھوڈوکس یہودی کہتا تھا۔ لیکن وہیں پر میں ایک اور کٹر یہودی خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو بھی جانتی ہوں جو پہبنے اوڑھنے میں تو اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتی تھی لیکن اس کا اخلاق اس قدر اچھا تھا کہ جیسے پوری یونیورسٹی ہی اس کی دوست ہو۔
آپ نے درست کہا کہ اچھا اخلاق و برتاو , ہمارے دین کی تعلیمات کی عکاسی کرتا ہے اور نہیں معلوم کہ یہی بات ان کو اسلام کی طرف لانے کا باعث بنے۔ برطانیہ میں میرے کلاس فیلوز میں ہندو, عیسائی, مسلمان شامل تھے اور یونیورسٹی فیلوز میں یہودی بھی تھے۔ انھی میں ایک افریقن امریکن عیسائی سینئر بھی تھی۔ اکثر سٹوڈنٹ سنٹر میں کافی کافی وقت اکٹھا گزرتا تھا اور پاکستان آتے جاتے تحفے تحائف کا سلسلہ بھی چلتا تھا لیکن کبھی بھی کوئی مذہبی تبلیغ یا بحث نہیں ہوئی۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں کسی کرائسس سے گزر رہی تھی سو ہماری کوشش ہوتی تھی کہ اس کو خوش رکھیں۔ اس نے جب بہت سا وقت ہم لوگوں کے ساتھ گزارا تو شاید کچھ محسوس کیا اور قرآن کا مطالعہ شروع کر دیا۔ جس کے بارے میں ہمیں علم نہیں تھا۔ اور پھر ایک دن جب سردیوں کی چھٹیوں کے بعد ہم یونیورسٹی گئے تو وہ سب سے ملتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ الحمداللہ اب میں بھی مسلمان ہوں۔ اس بات کو کتنے سال گزر گئے ہیں۔ اس کا اسلام پہ ایمان شاید ہم سے زیادہ مضبوط بھی ہے اور وہ ہم سے زیادہ پریکٹسنگ مسلم ہے۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ جو لوگ سمجھ کر دائرہ اسلام میں شامل ہوتے ہیں وہ ہم پیدائشی مسلمانوں سے زیادہ اچھے مسلمان ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اس بات پر بھی کوئی فتوی لگ جائے لیکن اکثر کلاس کے دوران یا واپسی کے سفر میں میرے غیر مسلم کلاس فیلوز میری افطاری کے لیے خصوصی طور پر کچھ نہ کچھ لاتے تھے اور میں اس سے ہی روزہ افطار کرتی تھی۔
ہم سب اللہ کی مخلوق ہیں اور اس کے لیے کیا مشکل تھا کہ وہ سب کو ایک ہی مذہب کی ہدایت دے دیتا۔ میرا ماننا ہے کہ اللہ کے لیے اپنی تمام مخلوق پیاری ہے۔ جو گمراہی کے رستے پر قائم رہا, اس کے حساب اور عذاب کا فیصلہ وہ خود کرے گا۔ ہم بندے اس کا فیصلہ کرنے والے کون ہیں؟ میں اللہ کے لیے اس کے بندوں سے اچھا برتاو کرتی ہوں۔ مجھے نہ تو ان کے مذہب سے کچھ لینا دینا ہے نہ میرا ایمان اتنا کمزور ہے کہ وہ مجھے اس سے ہٹا سکیں۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ایک فضا قائم کی اپنے بلند اخلاق سے۔پھر بہت مرتبہ تو آپ کو کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔لوگ آپ کے اخلاق سے متاثر ہوکر خود اسلام کی طرف آتے تھے۔جیسا کہ فرحت نے مثال دی۔
اگر آپ نے مراسلہ پورا پڑھ لیا ہوتا تو اتنا بکھیڑا نہ پھیلاتے!!!آپ کے اسقدر طویل ارشاد سے بھی اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ بائیبل کسے کہتے ہیں ۔ انجیل کو بائیبل نہیں کہتے۔ بائیبل دو عہد ناموں کو کہتے ہیں ایک پرانا عہد نامہ (عہد نامہ قدیم) اس میں یہود کی تمام کتابیں بشمول تورات (شروع کی پانچ کتابیں) شامل ہیں۔ عہدنامہ قدیم تنک کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے تین اجزاء ہیں: تورات (قانون)، نبییم (انبیاء) اور کتُبیم (کتب)۔
کیتھولک اور راسخ الاعتقاد کلیسیاؤں کے مطابق عہدنامہ قدیم 46 کتابوں پر مشتمل ہے، جنہیں اسفار بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ پروٹسٹنٹ اور یہود کے نزدیک اس مجموعہ میں محض 39 کتابیں ہیں، یہود نے اس مجموعہ میں صرف ان کتابوں کو شامل کیا ہے جو عبرانی زبان میں مدون ہوئے تھے، اس کے علاوہ یونانی زبان میں ترتیب پانے والی دیگر کتابیں ان کے نزدیک مذہبی وقانونی استناد کا درجہ نہیں رکھتیں
نیاعہدنامہ (عہدنامہ جدید)عہد نامہ جدید میں درج ذیل کتابیں شامل ہیںَ.
عہد نامہ جدید یا نیا عہد نامہ یا New Testament
متی اور لوقا کی انجیل کے ایک بنیادی ماخذ کا مفروضہ، جس کے مطابق ان کا ایک ماخذ مرقس ہے اور ایک دوسرا ماخذ بھی ہے ، جس کا ایک بڑا حصہ دونوں اناجیل میں ملتا ہے۔ جس کو اس تصویر کی مدد سے واضح کیا گيا ہے۔
1۔ متی کی انجیل
2۔ مرقس کی انجیل
3۔ لوقا کی انجیل
4۔ یوحنا کی انجیل
5۔ رسولوں کے اعمال
6۔ رومیوں کے نام خط
7۔ کرنتھیوں کے نام پہلا خط
8۔ کرنتھیوں کے نام دوسرا خط
9۔ گلتیوں کے نام خط
10۔ افسیوں کے نام خط
11۔ فلپیوں کے نام خط
12۔ کلسیوں کے نام خط
13۔ تھسلنیکیوں کے نام پہلا خط
14۔ تھسلنیکیوں کے نام دوسرا خط
15۔ تیمتھیس کے نام پہلا خط
16۔ تیمتھیس کے نام دوسرا خط
17۔ ططس کے نام خط
18۔ فلیمون کے نام خط
19۔ عبرانیوں کے نام خط
20۔ یعقوب کا خط
21۔ پطرس کا پہلا خط
22۔ پطرس کا دوسرا خط
23۔ یوحنا کا پہلا خط
24۔ یوحنا کا دوسرا خط
25۔ یوحنا کا تیسرا خط
26۔ یہوداہ کا خط
27۔ یوحنا کا مکاشفہ
ان سب (پرانا عہدنامہ اور نیا عہدنامہ) کو ملا کر بائیبل کہا جاتا ہے۔
بالکل ۔یہ ضروری ہے کہ جو برا ہمارے ساتھ ہوا وہ ہم بھی دوسروں کے ساتھ کریں؟ ویسا ہی سلوک ہم بھی کریں؟ میرے پیارے نبی ﷺ نے تو ہر زیادتی کے بدلے میں عفو و درگزر سے کام لیا تھا۔ ناکہ ہم اپنے سلوک اور طرزِ عمل سے اسلام کے عزت و وقار کو بحال کرنے کے بارے میں سوچیں ہم بس ہر وقت جوتا ہی ہر کسی کے لئے ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں
سوال یہ ہے کہ اگر ان کا معیار تعلیم اتنا اچھا ہے مگر فیس انتہائی کم ہے تو وہ اس کا خرچہ کہاں سے پورا کرتے ہیں؟ کیا بیرونی امداد سے؟ایک اور بات ابھی تک سینٹ جوزف، سینٹ پیٹرک اور سینٹ پال کی پرائمری کی فیس دو ہزار روپے ہے۔ جبکہ بیکن ہاوَس کی تیرہ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ بڑے پرائیویٹ اسکولز میں آٹھ سے گیارہ ہزار ہے۔ چھوٹے پرائیویٹ اسکولز میں چار ہزار کے قریب ہے۔
جذباتیت۔سو مجھے کچھ تکلیف دہ باتیں بھی یاد آگئی ہیں۔ میں ان کا بھی ذکر کرنا چاہوں گی۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان کا معیار تعلیم اتنا اچھا ہے مگر فیس انتہائی کم ہے تو وہ اس کا خرچہ کہاں سے پورا کرتے ہیں؟ کیا بیرونی امداد سے؟