محمداحمد
لائبریرین
کہتے ہیں کہ شعر کہنے کے بعد شاعر کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے (قاری کی ذمہ داری شروع ہونا البتہ ضروری نہیں ہے ) ۔ اب قاری اُسے اپنے حالات و واقعات ( بمعہ انتہائی نجی واردات) اور فہم و فراست کے مطابق سمجھتا ہے اور شعر کے معائب و محاسن کے اعتبار سے شاعر کی مدح و ذم کا فریضہ انجام دیتا ہے (کہ یہ سب سے مزیدار کام ہے۔ ) ۔ جبھی تو ہر دوسرا شعر پڑھ کر ہر تیسرا آدمی غالب کا مصرعہ رگڑتا ہے کہ :
"میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا"۔
بہرکیف شاعر کو بھی شعر کہنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ زبان سے نکلا شعر اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا اور اگر واپس آ بھی جائے تو ہمیشہ اُلٹا پڑتا ہے۔ حالات و واقعات کے مطابق ہم بھی آپ کو اشارتاً پرانے اشعار نئے انداز میں پڑھوا رہے ہیں۔ پڑھیے اور سر دُھنیے:
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
میر
عاشقی صبر طلب اور تمنا بےتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
غالب
عاشقی امتیاز کیا جانے
فرقِ نازو نیاز کیا جانے
جگر
باقی آپ سمجھدار ہی ہیں۔