فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
"در دوران شوروی مجال سخن بسی تنگ بود و هر کس هم جرأت نمی‌کرد که در مورد شخصیت و آثار شعرای صوفی و عرفای نکته‌سنج سخنی بگوید، یا چیزی بنویسد. ولی به رغم همهٔ فشارها و تعقیب‌های عقیدتی، مردم ادب‌دوست و پرفرهنگ ما توانستند نام و آثار آنان را از خطر نیستی و نابودی نگاه دارند."
(انوری سلیمان، نگاهی به کلیات حاجی حسین کنگورتی)


"شُورَوی دور میں مجالِ سخن بسیار تنگ تھی اور کوئی شخص بھی صوفی شُعَراء اور نکتہ سنج عُرَفاء کی شخصیت اور تألیفات کے بارے میں کچھ کہنے یا کچھ لکھنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ لیکن تمام نظریاتی و عقیدتی فِشاروں اور تعاقبوں کے باوجود، ہمارے ادب دوست و پُرثقافت مردُم اُن کے نام و تألیفات کو خطرِ نیستی و نابودی سے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔"

× شُورَوی = سوویت
× فِشار = دباؤ
 
آخری تدوین:
سرخ جملے کے ترجمے میں اشتباہ ہے۔ذرا حل کردیں:۔
ما داستان کربلا را از روز تاسوعا می دانیم و عصر عاشورا ختمش می کنیم , بعد دیگر نمی دانیم چه شد ! همین طور هستیم تا اربعین ( آنجا شله ای می دهیم و بعد قضیه دیگر بایگانی ست ! ) و بعد سال دیگر باز همین طور و سال دیگر و سال دیگر باز همین طور . داستان کربلا نه از تاسوعا و یا محرم شروع می شود و نه به عصر عاشورا یا اربعین تمام می شود . این است که از دوطرف قیچی اش کردیم , و آن را از معنی انداختیم
(دکتر علی شریعتی)
ہم داستانِ کربلا کا آغاز روزِ تاسوعا (نو محرم) سے تصور کرتے ہیں اور اور عاشورا (دس محرم) کی (نمازِ) عصر پر ختم کرتے ہیں، اور ہم نہیں جانتے کہ پس ازاں کیا ہوا؟ اربعین تک بھی اسی طرح ہم ہوتے ہیں(وہاں ہم شولہ دیتے ہیں اور پھر معاملہ ختم ہوجاتا ہے) یہ روش پیش آمدہ سالوں تک اسی طرح چلتا رہتا ہے اور چلتا رہتا ہے۔داستانِ کربلا نہ تاسوعا یا محرم سے شروع ہوتی ہے اور نہ عاشورا کی نمازِ عصر یا اربعین پر ختم ہوتی ہے۔ ہم نے داستانِ کربلا کو دونوں طرف سے کاٹا ہے اور اسے بسیار سادہ کردیا ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
مولانا عبدالرحمٰن جامی کی کتاب 'بہارستان' سے ایک حکایت:

پسری را پرسیدند که می‌خواهی که پدرِ تو بمیرد تا میراثِ وی بگیری؟ گفت: نی؛ امّا می‌خواهم که او را بکُشند تا چنانکه میراثِ وَی بگیرم، خون‌بهایِ وَی نیز بسِتانم. قطعه:
فرزند که خواهد ز پَیِ مال پدر را
خواهد که نمانَد پدر و مال بمانَد
خوش نیست به مرگِ پدر و بُردنِ میراث
خواهد که کُشندَش که دِیَت هم بسِتانَد


ترجمہ:
کسی پِسَر سے پوچھا گیا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا پدر مر جائے تاکہ تم اُس کی میراث حاصل کر لو؟ اُس نے کہا: نہیں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اُسے قتل کر دیں تاکہ جس طرح مجھے اُس کی میراث ملے گی، میں اُس کی دِیَت بھی حاصل کر لوں۔ قطعہ:
جو فرزند اپنے پدر کا مال کی خاطر طالب ہوتا ہے
وہ چاہتا ہے کہ پدر نہ رہے، لیکن مال رہ جائے
وہ اپنے پدر کی موت، اور میراث حاصل کرنے پر خوش نہیں ہوتا
بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اُسے قتل کر دیں تاکہ وہ دِیَت بھی حاصل کر لے
 

حسان خان

لائبریرین
"شاه اسماعیل پس از فتح هر ولایت غنایم و اسیران و زمین‌های آنجا را میان سرداران قزلباش تقسیم می‌کرد، بدین ترتیب در سراسر ایران طوایف ترک‌نژاد و ترک‌زبان بر ایرانیان اصیل پارسی‌گوی فرمان‌روا شدند تا جایی که در دوران صفویه مملکت ایران را قزلباش می‌گفتند. "
ماخذ
"شاہ اسماعیل [صفوی] ہر ولایت کی فتح کے بعد وہاں کے مالِ غنیمت، اسیروں اور زمینوں کو قزلباش سرداروں کے درمیان تقسیم کرتا تھا، اِس طرح تمام ایران میں تُرک نژاد و تُرک زبان طائفے اصل فارسی گو ایرانیوں پر فرماں روا ہو گئے یہاں تک کہ صفوی دور میں مملکتِ ایران کو قزلباش کہتے تھے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"پدرم صائبِ اصفهانی را بسیار دوست می‌داشت، شعرهای او را، چنانکه بچگان نبات را مکیده، مزه‌کنان می‌خورده باشند، لذّت گرفته می‌خواند و از روی احترام او را 'بابا صائب' می‌گفت."
(صدرالدین عینی، یادداشت‌ها)


"میرے والد صائب اصفہانی [تبریزی] کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ وہ اُس کے اشعار کو اِس طرح لذت حاصل کر کے خوانتے (پڑھتے) تھے جس طرح بچّے مصری کو چوس چوس کر مزہ لیتے ہوئے کھاتے ہیں، اور احتراماً اُنہیں 'بابا صائب' کہتے تھے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
(لقب)
شاعر - محمد شمس‌الدین، به من بگو: چرا ملت بزرگ و نامی تو ترا حافظ لقب داده‌است؟
حافظ - پرسشت را پاس می‌دارم و بدان پاسخ می‌گویم: مرا حافظ نامیدند، زیرا قرآن مقدس را از بر داشتم، و چنان پرهیزکارانه آیین پیمبر را پیروی کردم که غم‌های جهان و زشتی‌های روزانهٔ آن در من و آنانکه چون من روح و معنی کلام پیمبر را دریافته‌اند اثر نکرد.


کتاب: دیوانِ غربی-شرقی
نویسنده: یوهان ولفگانگ فون گوته/Johann Wolfgang von Goethe
سالِ اشاعتِ اول: ۱۸۱۹ء
مترجم: شجاع‌الدین شفا
سالِ اشاعتِ اولِ ترجمه: ۱۹۴۹ء

(لقب)
شاعر: محمد شمس الدین، مجھ سے کہو: تمہاری بزرگ و نامور ملّت نے کس لیے تمہیں حافظ لقب دیا ہے؟
حافظ: میں تمہارے سوال کا احترام کرتا ہوں اور اُس کا جواب دے رہا ہوں: مجھے اُنہوں نے حافظ کا نام دیا کیونکہ میرے سینے میں قرآنِ مقدّس محفوظ تھا اور میں نے طریقِ پیمبر کی اِس طرح پرہیزکارانہ پیروی کی کہ دنیا کے غموں اور اُس کی روزانہ کی بدصورتیوں نے مجھ میں، اور اُن افراد میں کہ جو میری طرح کلامِ پیمبر کی روح و معنی کو فہم کر چکے ہیں، اثر نہ کیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
معروف آلمانی شاعر گوتِه اپنے دفترِ خاطرات میں حافظ شیرازی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"دارم دیوانه می‌شوم. اگر برای تسکین هیجان خود دست به غزل‌سرایی نزنم، نفوذ عجیب این شخصیت خارق‌العاده را که ناگهان پا در زندگانی من نهاده تحمل نمی‌توانم کرد."
"میں دیوانہ ہوتا جا رہا ہوں۔ اگر میں اپنے ہیجان کی تسکین کے لیے غزل سرائی کا اِقدام نہ کروں، تو ناگہانی طور پر میری زندگی میں قدم رکھنے والی اِس خارقِ عادت شخصیت [یعنی حافظ شیرازی] کے تعجب انگیز نفوذ کو میں تحمّل نہیں کر پاؤں گا۔"

مأخذ: یوهان ولفگانگ فون گوتِه کے شعری مجموعے 'دیوانِ غربی-شرقی' کے شجاع الدین شفا کی جانب سے کیے جانے والے فارسی ترجمے کا مقدمہ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"...به هندوستان آمدم دیدم اینجا وضع عجیبی‌ست که مطبعه‌ها اشعاری را چاپ کرده نسبت به شاعری می‌دهند و مردم آن نسبت مطبعه را وحی مُنزَل دانسته قبول می‌کنند در حالتی که به هیچ راهی نمی‌شود آن اشعار را از آن شاعر دانست مثل اشعاری که در بعضی از نُسَخ مطبوعهٔ حافظ هست. مخصوصاً نزد نائب رئیس جامعهٔ ما نسخهٔ مطبوعه‌ای‌ست از دیوان حافظ (که در سال ۱۸۲۸م در بمبی طبع شده) که در آن غزلی است با ردیف سفید و سیاه و سرخ و این شعر در آن موجود است.
از رنگ برگ پان و سپیاری و چونه شد
دندان آن نگار سفید و سیاه و سرخ
در حالتی که حافظ به هند نیامد و از پان و سپیاری و رنگ سرخ پان خبر نداشته و معشوقهٔ او شاخ نبات هم هیچ وقت پان نخورده که دندانش سرخ شود..."


کتاب: شعر و شاعریِ عُرفی
نویسنده: آقا سید محمد علی داعی‌الاسلام (استادِ دانشکدهٔ نظام، حیدرآباد دکن)
سالِ اشاعت: ۱۳۴۵ھ/۱۹۲۷ء

"۔۔۔میں ہندوستان آیا تو میں نے دیکھا کہ یہاں ایک عجیب صورتِ حال ہے کہ طباعت خانے چند اشعار کو شائع کر کے کسی شاعر سے نسبت دے دیتے ہیں اور عامّۃ الناس طباعت خانوں کی اُس نسبت کو نازل شدہ وحی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں، در حالیکہ کسی بھی صورت اُن اشعار کو اُس شاعر کا کلام نہیں سمجھا جا سکتا، مثلاً وہ اشعار جو حافظ کے بعض مطبوعہ نسخوں میں موجود ہیں۔ خصوصاً ہماری دانشگاہ کے نائب رئیس کے پاس دیوانِ حافظ کا ایک مطبوعہ نسخہ ہے (جو سال ۱۸۲۸ء میں بمبئی میں طبع ہوا تھا) کہ جس میں 'سفید و سیاہ و سرخ' کی ردیف کے ساتھ ایک غزل ہے اور یہ شعر اُس میں موجود ہے۔

از رنگ برگ پان و سپیاری و چونه شد
دندان آن نگار سفید و سیاه و سرخ

در حالیکہ حافظ ہند نہیں آئے تھے اور وہ پان و سپاری اور پان کے سرخ رنگ سے بے خبر تھے اور اُن کی معشوقہ 'شاخِ نبات' نے بھی کبھی پان نہیں کھایا تھا کہ اُس کے دندان سرخ ہو گئے ہوں۔۔۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
معروف آلمانی شاعر گوتِه اپنے شعری مجموعے 'دیوانِ غربی-شرقی' میں حافظ شیرازی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"اگر هم دنیا به سر آید، آرزو دارم که تنها، ای حافظ آسمانی، با تو و در کنار تو باشم و چون برادر توأم در شادی و غمت شرکت کنم. همراه تو باده نوشم و چون تو عشق ورزم، زیرا این افتخار زندگی من و مایهٔ حیات من است."

کتاب: دیوانِ غربی-شرقی
نویسنده: یوهان ولفگانگ فون گوته/Johann Wolfgang von Goethe
سالِ اشاعتِ اول: ۱۸۱۹ء
مترجم: شجاع‌الدین شفا
سالِ اشاعتِ اولِ ترجمه: ۱۹۴۹ء

"اے حافظِ ملکوتی! خواہ دنیا کا خاتمہ ہو جائے، میری آرزو ہے کہ میں صرف تمہارے ساتھ اور تمہارے پہلو میں رہوں اور تمہارے برادرِ توأم کی طرح تمہاری شادی و غم میں شرکت کروں۔ تمہارے ہمراہ بادہ نوش کروں اور تمہاری طرح عشق کروں، کیونکہ یہ میری زندگی کا افتخار اور میری حیات کی اساس ہے۔"
× توأم = دوقلو، جڑواں
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ملک قمی کا ایک خوبصورت شعر جو کہ ضرب المثل بن چکا ہے۔

رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد


میں نے پاؤں سے کانٹا نکالنا چاہا (اور اتنے میں) محمل نظر سے پوشیدہ ہو گیا، میں ایک لمحہ غافل ہوا اور راہ سے سو سال دور ہو گیا۔
علی قُلی خان والہ داغستانی اپنے 'تذکرۂ ریاض الشعراء' میں 'مولانا مَلِک قُمی' کے ذیل میں لکھتے ہیں:

"مَلِک مُلک سخن‌وری و شهریار کشور بلاغت‌گستری بوده. به دکن آمده در آن مملکت سکونت اختیار کرده و مدّت چهل سال در آنجا گذرانید. سلاطین دکن شفقت بر احوالش داشتند و تفقّد بسیار به وی می‌فرمودند. مولانا ظهوری فرزندخوانده و داماد او بوده و تربیت از وی یافته. مولانا مَلِک را دو سه مثنوی خوب هست، لیکن به نظر راقم حروف نرسیده‌است. در سنهٔ یک هزار و بیست و شش هجری در دکن به جوار رحمت حق پیوسته‌است."

"وہ مُلکِ سخنوری کے پادشاہ اور کشورِ بلاغت گُستَری کے شہریار تھے۔ اُنہوں نے دکن آ کر اُس مملکت میں سکونت اختیار کر لی اور وہاں چالیس سال کی مدّت گذاری۔ سلاطینِ دکن اُن کے احوال پر مہربانی رکھتے تھے اور اُن کی جانب بسیار توجّہ فرمایا کرتے تھے۔ مولانا ظہوری اُن کے فرزندخواندہ اور داماد تھے اور اُن ہی سے تربیت یافتہ تھے۔ مولانا مَلِک کی دو تین خوب مثنویاں ہیں، لیکن وہ راقمِ حروف کی نظر سے نہیں گذری ہیں۔ وہ سن ۱۰۲۶ھ میں دکن میں جوارِ رحمتِ حق سے پیوست ہو گئے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
تاریخِ ادبیاتِ فارسی سے متعلق تحریروں میں اِس جالب نُکتے کی بار بار تکرار کی جاتی ہے کہ سیاسی و مذہبی لحاظ سے باہم متخاصِم و بر سرِ پیکار رہے سلطان سلیم خان اول عثمانی اور شاہ اسماعیل صفوی اگرچہ بالترتیب دیارِ روم اور دیارِ ایران کے فرماں روا تھے، جہاں کی غالب تر زبانیں بالترتیب تُرکی اور فارسی تھیں، لیکن عثمانی خلیفہ و سلطان کا شعری دیوان فارسی میں ہے جب کہ صفوی شاہ نے اپنی مادری زبان ترکی میں اپنا شعری دیوان ترتیب دیا تھا۔
لسانی اعتبار سے دونوں پادشاہ ہی تُرکی زباں تھے۔
"با برخاستن امپراطوری عثمانی و حکومت صفوی شرق نزدیک جذب دو قطب ترکی سنی و ترکی شیعه شد که هر دو وارثان سلجوقیان بودند. چون سلطان سلیم به رقیبش شاه اسماعیل نامه می‌نگاشت به فارسی بود و پاسخ را اسماعیل به ترکی می‌داد. بعدها صفویه فارس‌تر و عثمانی ترک‌تر شدند و هر کدام در ادب و هنر و فرهنگ راه خاصی پیش گرفتند. شعر فارسی البته بر دل گروه‌های آموزش یافتهٔ هر دو کشور می‌نشست. هم‌چنانکه بر دل مردم سراسر دوران و اقلیم‌ها می‌نشیند. زیرا که مضمون آن و شیوهٔ بیان آن جهانی است."

کتاب: عصر زرّین فرهنگ ایران/The Golden Age of Persia
نویسنده: ریچارد نلسون فرای/Richard Nelson Frye
مترجم: مسعود رجب‌نیا

"عثمانی سلطنت اور صفوی حکومت کے ظاہر ہو جانے کے بعد شرقِ نزدیک 'سُنّی ترک' اور 'شیعہ تُرک' کے دو قُطبوں میں تقسیم ہو گیا، اور دونوں ہی سلجوقیوں کے وارث تھے۔ جب سلطان سلیم اپنے رقیب شاہ اسماعیل کو نامہ لکھتا تھا تو وہ فارسی میں ہوتا تھا جبکہ اسماعیل اُس کا جواب تُرکی میں دیتا تھا۔ بعد کے زمانوں میں صفوی فارس تر اور عثمانی تُرک تر ہو گئے اور ہر دو نے ادب و ہنر و ثقافت میں ایک مخصوص و منفرد راہ اپنا لی۔ لیکن فارسی شاعری دونوں مملکت کے تعلیم یافتہ گروہوں کے دل پر حکومت کرتی تھی، جیسا کہ ہر دور اور ہر اقلیم کے مردُم کے دلوں پر حکومت کرتی آئی ہے، کیونکہ اُس کے مضامین اور شیوۂ بیان عالَمی ہیں۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"شیخ نجم‌الدین کُبریٰ را چنگیزیان گفتند با یاران خود از خوارزم بیرون شو که ما را قصد قتال است فرمود من با اهل این شهر در همه حال هم‌راه بودم در این مصیبت از آن‌ها جدا نشوم جز اینکه همهٔ شهر ایمن شوند و دفاع کرد تا شهید شد."
کتاب: اسرارالمعارف و میزان‌المعرفه
نویسنده: صفی علی‌شاه

"شیخ نجم الدین کُبریٰ کو چنگیزیوں نے کہا کہ آپ اپنے یاروں کے ہمراہ خوارَزم سے بیرون نکل جائیے کیونکہ ہمارا قتال کا ارادہ ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ میں اِس شہر کے مردُم کے ساتھ ہر سرد و گرم میں ہمراہ رہا ہوں اور اِس مصیبت میں اُن سے جدا نہیں ہوؤں گا اِلّا یہ کہ تمام اہلِ شہر محفوظ ہو جائیں۔ پس اُنہوں نے دفاع کیا یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
علی قُلی خان والہ داغستانی اپنے 'تذکرۂ ریاض الشعراء' میں 'نظام‌الدّین امیر علی‌شیر فانی' کے ذیل میں ایک جا لکھتے ہیں:

"وی به سه زبان شعر می‌فرمود: عربی و ترکی و فارسی. اشعار عربی او را فقیر ندیده و اشعار ترکی او را همیشه ملاحظه نموده و می‌نماید. سه دیوان در ترکی دارد و هر کدام را نامی است و مثنویّات متعدّد دارد مثل: خسرو شیرین و لیلی و مجنون و فرهاد و شیرین و نظم الجواهر و نوادر الشّباب و سکندر نامه و غیره که مجموع منظومات و تألیفات ترکی امیر علی‌شیر بیست و سه جلد است و راقم حروف همه آن‌ها را دیده و فیض‌ها برده‌است."

"وہ تین زبانوں میں شعر فرمایا کرتے تھے: عربی و ترکی و فارسی۔ فقیر نے اُن کے عربی اشعار نہیں دیکھے ہیں لیکن اُن کے ترکی اشعار کو ہمیشہ ملاحظہ کیا ہے اور کرتا ہے۔ تُرکی میں اُن کے تین دیوان ہیں اور ہر دیوان کا ایک نام ہے اور اُن کی متعدّد مثنویاں ہیں مثلا: خسرو شیرین و لیلیٰ و مجنون و فرہاد و شیرین و نظم الجواہر و نوادر الشّباب و سکندر نامہ وغیرہ۔ امیر علی شیر کی کُل ترکی منظومات و تألیفات تئیس جلدوں پر مشتمل ہیں اور راقمِ حروف نے اُن تمام کو دیکھا اور اُن سے فیوض حاصل کیے ہیں۔"

والہ داغستانی خود ایک آذربائجانی تُرک اور فارسی و تُرکی کے ذولسانین شاعر تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"ورود زبان عربی به قلمرو شعر فارسی به یک دورهٔ زمانی و یا شاعری خاص بر‌نمی‌گردد. بلکه همه شاعران پارسی‌زبان کم و بیش زبان عربی را در سروده‌های خود به کار برده‌اند."
(تاثیر زبان عربی بر شعر نظیری نیشابوری، صغرا فلاحتی)

"شعرِ فارسی کی قلمرو میں عربی زبان کا ورود کسی ایک زمانے یا کسی ایک شاعر سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ کم و بیش تمام فارسی گو شعراء اپنی شاعری میں عربی زبان کو استعمال میں لائے ہیں۔"
 

حسان خان

لائبریرین
"اصفهان که از شهرهای عراق عجم است شهری بزرگ و زیبا است. ولی اکنون قسمت زیادی از آن در نتیجهٔ اختلافاتی که بین سنیان و شیعیان آن شهر به وقوع می‌پیوندد به ویرانی افتاده‌است. این اختلافات هنوز هم ادامه دارد و مردم آن شهر دایم در منازعه و کشتار به سر می‌برند."

کتاب: سفرنامۂ ابنِ بطوطہ
نویسندہ: ابنِ بطوطہ (مُتَوفّیٰ ۷۷۹ھ)
مترجم: محمد علی موحّد


"اصفہان، کہ عراقِ عجم کے شہروں میں سے ہے، ایک بزرگ و زیبا شہر ہے۔ لیکن الحال اُس کا ایک بڑا حصہ اُس شہر کے سُنّیوں اور شیعیوں کے مابین پیش آنے والے اختلافات کے نتیجے میں ویران ہو گیا ہے۔ یہ اختلافات ہنوز جاری ہیں، اور اُس شہر کے مردُم دائماً منازعہ و کُشتار میں بسر کرتے ہیں۔"
 

حسان خان

لائبریرین
"در روی زمین هیچ جا قرآن را به خوبیِ شیرازیان خواندن ‌نمی‌توانند."

کتاب: سفرنامۂ ابنِ بطوطہ
نویسندہ: ابنِ بطوطہ (مُتَوفّیٰ ۷۷۹ھ)
مترجم: محمد علی موحّد

"روئے زمین میں کہیں بھی اہلِ شیراز کی جیسی خوبی سے قرآن کی قرائت نہیں کر سکتے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
معروف سیّاح ابنِ بطوطہ اپنے سفرنامے میں عبدالرحمٰن جامی اور امیر علی شیر نوائی کے شہر ہِرات کے بارے میں لکھتے ہیں:

"هرات بزرگ‌ترین شهر‌های آباد خراسان است. شهرهای خراسان چهار است دو آبادان و دو ویران؛ دوتای آبادان عبارت است از هرات و نیشابور و دوتای ویران عبارت است از بلخ و مرو.
هرات شهری بزرگ و دارای ابنیهٔ بسیار است، مردم این شهر متقی و متدین و پاک‌دامن و حنفی‌مذهب می‌باشند و شهر هرات از هر گونه فسق و فساد مبرا است."


کتاب: سفرنامۂ ابنِ بطوطہ
نویسندہ: ابنِ بطوطہ (مُتَوفّیٰ ۷۷۹ھ)
مترجم: محمد علی موحّد

"ہِرات خُراسان کا بزرگ ترین آباد شہر ہے۔ خُراسان کے چار شہر ہیں؛ دو آباد اور دو ویران۔ دو آباد شہر ہِرات و نیشابور ہیں، جبکہ دو ویران شہروں کے نام بلخ و مَرو ہیں۔
ہِرات ایک بزرگ شہر ہے اور اُس میں عمارتیں بکثرت ہیں۔ اِس شہر کے مردُم متّقی، دین دار، پاک دامن اور حنفی المذہب ہیں اور شہرِ ہِرات ہر قسم کے فِسق و فساد سے پاک ہے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
نصر بن محمّد بن احمد صوفی خبر داد که یحیی بن معاذ رازی (ره) گفت: "چهار خصلت از صفات اولیاست: در هر چیز به خدا اعتماد کردن، در هر چیز به سوی او بازگشتن، در هر چیز از او یاری خواستن و در هر چیز نیازمند به او بودن".

کتاب: جوانمردی و جوانمردان: ترجمهٔ کتاب‌الفُتُوّة
مؤلف: ابوعبدالرّحمٰن محمد بن حُسین سُلَمی نیشابوری (م: ۴۱۲ھ)
مترجم: قاسم ا‌نصاری

نصر بن محمّد بن احمد صوفی نے روایت کی کہ یحییٰ بن مُعاذ رازی (رح) نے کہا: "چار خصلتیں اولیاء کی صفات میں سے ہیں: ہر چیز میں خدا پر اعتماد کرنا، ہر چیز میں اُس کی جانب مُراجعت کرنا اور پلٹنا، ہر چیز میں اُس سے یاری چاہنا، اور ہر چیز میں اُس کا نیازمند ہونا"۔
 

حسان خان

لائبریرین
"چون امروز تاجیکستان به استقلال رسیده است، نباید از یاد بُرد که استقلال فرهنگی لازمِ ذاتِ استقلال ملی است و شه‌پایهٔ دولت ملی همانا زبان ملی است و تأمین رشد و تکامل آن و به وجود آوردن زبان علم و اصطلاحات ملی از جملهٔ مهم‌ترین فرموده‌های تاریخ است. متأسفانه، این ضرورت در جامعه هنوز عمیقا‌ً درک نشده است و این یکی از مانعه‌های رشد اجتماعی و فرهنگی و شعور ملی است."
(واژه‌گزینی در تاجیکستان و بعضی مشکلات آن، محمد جان شکوری بخارایی، ۱۹۹۹ء)

"چونکہ اب تاجکستان استقلال و خودمختاری حاصل کر چکا ہے، یہ چیز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ثقافتی استقلال ملّی استقلال کا لازمہ ہے اور ملّی ریاست کا رُکنِ اصلی یقیناً ملّی زبان ہے اور اُس کے رُشد و تکامُل کو یقینی بنانا اور علمی زبان و ملّی اصطلاحات کو وجود میں لانا تاریخ کے اہم ترین اَحکام میں سے ہے۔ متأسفانہ، مُعاشرے میں ہنوز اِس ضرورت کا عمیقاً اِدراک نہیں ہوا ہے اور یہ چیز اجتماعی و ثقافتی پیشرفت اور ملّی شعور کے نمو کے مانعات میں سے ایک ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صفوی دربار میں رائج زبان

المانی طبیب انگلبرت کمپفر صفوی حکومت کے دوران سال ۱۶۸۴ء/۱۰۹۵ھ میں سوئیڈن کے سفیروں کی ہمراہی میں صفوی دارالحکومت اصفہان میں آئے تھے۔ وہ اپنے سفرنامے میں لکھتے ہیں:

"زبان رایج دربار ایران ترکی است که زبان مادری سلسلهٔ صفویه است و این زبان با زبان مردم عادی مملکت تفاوت دارد. ترکی از دربار به خانهٔ بزرگان و محترمین نیز سرایت کرده و سرانجام طوری شده‌است که کلیهٔ کسانی که می‌خواهند مورد عنایت شاه قرار گیرند به این زبان تکلم می‌کنند. امروز کار به جایی رسیده که ندانستن زبان ترکی برای کسی که سرش به تنش می‌ارزد در حکم ننگی محسوب می‌شود."

"دربارِ ایران کی زبانِ رائج تُرکی ہے، جو سلسلۂ صفویہ کی مادری زبان ہے، اور یہ زبان مملکت کے عام مردُم کی زبان سے مختلف ہے۔ تُرکی زبان دربار سے نکل کر اَشراف و کِبار کے خانوں (گھروں) میں بھی سرایت کر چکی ہے اور انجامِ کار صورتِ حال یہ ہو گئی ہے کہ جو افراد بھی شاہ کے زیرِ عنایت آنا چاہتے ہیں وہ اِس زبان میں تکلّم کرتے ہیں۔ الحال نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کسی محترم و باآبرو شخص کے لیے تُرکی زبان کا نہ جاننا رسوائی و بدنامی شمار ہوتا ہے۔"

کتاب: سفرنامهٔ کِمپفر به ایران
نویسندہ: انگلبرت کِمپفر/Engelbert Kaempfer
سالِ اشاعتِ اول: ۱۷۱۲ء
مترجم: کیکاووس جهانداری
سالِ اشاعتِ اولِ ترجمۂ فارسی: ۱۳۵۰هش/۱۹۷۱ء
 
آخری تدوین:
Top