فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
صدراعظم پاکستان نواز شریف پیشنهاد نمود که می خواهد در کاهش تشنج بین عربستان سعودی و ایران کمک کند.
آقای شریف روز سه شنبه در تهران با رییس جمهور ایران حسن روحانی ملاقات کرد و اظهار داشت می خواهد برای بهبود روابط بین ایران و عربستان سعودی تلاش کند و تعهد نمود که برای انجام این عمل یک هیئتی را تعین خواهد کرد.
شریف یک روز قبل از سفر به ایران با ملک سلمان پادشاه عربستان سعودی در ریاض دیدن کرده بود.
نواز شریف بهبود روابط بین عربستان سعودی و ایران را یک وظیفه مهم و ماموریت مقدس خود خواند. او افزود از عربستان سعودی تقاضا خواهد کرد که یک نماینده مشخص را برای تماس در این مورد تعین کند.

ماخذ: افغان اخبار 'رادیو آزادی'
تاریخ: ۲۰ جنوری ۲۰۱۶ء

پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے پیشکش کی ہے کہ وہ سعودی عربستان اور ایران کے مابین کشیدگی میں کمی میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔
آقائے شریف نے سہ شنبے کے روز تہران میں ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات کی اور اظہار کیا کہ وہ ایران اور سعودی عربستان کے مابین روابط کی بہتری کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہیں اور اُنہوں نے عہد کیا کہ وہ اس عمل کو انجام دینے کے لیے ایک وفد مقرر کریں گے۔
نواز شریف نے ایران کے سفر سے ایک روز قبل سعودی عربستان کے بادشاہ ملک سلمان کے ساتھ ریاض میں ملاقات کی تھی۔
نواز شریف نے سعودی عربستان اور ایران کے مابین روابط کی بہتری کو اپنا ایک اہم فریضہ اور مقدس ذمہ داری پکارا۔ انہوں نے اضافہ کیا کہ وہ سعودی عربستان سے درخواست کریں گے کہ وہ اس سلسلے میں رابطے کے لیے ایک مخصوص نمائندہ متعین کرے۔
× سہ شنبہ = منگل
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مزارِ عالمِ بزرگِ شرق ابوریحان بیرونی در شهرِ غزنی خراب گردیده و سال‌هاست که بازسازی نشده‌است. بنا به گزارشِ عالِم کوهکن، خبرنگارِ بخشِ ازبکیِ رادیوی آزادی از افغانستان، در صورتِ تعمیر و بازسازی نشدنِ مزارِ ابوریحان بیرونی با گذشتِ چند سالِ آینده این مزار کاملاً خراب شده و پیدا کردنِ آن دشوار خواهد شد.
عالِم کوھکن می‌گوید: "این خطر وجود دارد، که در ظرفِ چند سالِ آینده این مزار به خاک یکسان شود. اگر گردِ مزار دیوار گرفته نشده و مقبره بنیاد نشود، محلِ دفنِ این دانشمندِ بزرگ از میان خواهد رفت."

ماخذ: تاجک اخبار 'رادیوی آزادی'
تاریخ: ۲۸ جنوری ۲۰۱۶ء

مشرق کے بزرگ عالم ابوریحان بیرونی کا شہرِ غزنی میں واقع مزار بوسیدہ حال ہو گیا ہے اور سالوں سے اِس کی بازسازی نہیں ہوئی ہے۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے رادیوئے آزادی کے ازبکی شعبے کے خبرنگار عالِم کوہکن کی اطلاع کے مطابق، ابوریحان بیرونی کے مزار کی مرمت اور بازسازی نہ ہونے کی صورت میں آئندہ چند سالوں کے بعد یہ مزار کاملاً ویران ہو جائے گا اور اُس کو ڈھونڈ پانا بھی دشوار ہو جائے گا۔
عالِم کوہکن کا کہنا ہے: "آئندہ چند سالوں کے اندر اِس مزار کے خاک میں مِل جانے کا خطرہ موجود ہے۔ اگر مزار کے گِرد دیوار نہ کھینچی گئی اور مقبرے کی تعمیر نہ کی گئی تو اِن بزرگ دانشمند کا مدفن ناپید ہو جائے گا۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
“پیدا کردن کلمات مناسب برای اندیشه‌ها و مفاهیم نو کار آسانی نیست، این کار [نیاز به] مطالعهٔ فراوان و آشنایی صحیح با ریزه‌کاری‌ها و ویژگی‌های زبان دارد که بی رنج و زحمت میسر نمی‌گردد. حال اگر نویسنده‌ای آزاد باشد که هر وقت به کلمه‌ای نیاز داشت به جای زحمت و رنج در زبان خود آن را به آسانی از هر زبانی که خواست بگیرد و به کار بندد گذشته از اینکه کلمات و اصطلاحات تازه‌ای در زبان به وجود نخواهد آمد چه بسا که کلمات موجود هم کم کم از دایرهٔ استعمال خارج می‌شوند و جای خود را به کلمات بیگانه می‌دهند و بدین سان قدرت تولید زبان به تدریج کاهش می‌یابد.”
یادداشت‌هایی دربارهٔ زبان فارسی از نظر رابطهٔ آن با زبان عربی

دکتر محمد محمدی
۱۳۵۳هش/۱۹۷۴ء

“نئے افکار اور مفاہیم کے لیے مناسب الفاظ ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں ہے، یہ کام زبان کی باریک بینیوں اور خصوصیتوں کے گہرے مطالعے اور صحیح آشنائی کا متقاضی ہے جو مشقت و زحمت کے بغیر میسر نہیں ہوتی۔ اب اگر کوئی مصنف آزاد ہو کہ اُسے جب بھی کسی لفظ کی حاجت ہو وہ اپنی زبان میں زحمت کَشی کی بجائے اُس لفظ کو جس زبان سے بھی چاہے آسانی سے لے لے اور استعمال کر لے تو نہ صرف یہ کہ کوئی جدید الفاظ و اصطلاحات زبان میں اختراع نہیں ہوں گی بلکہ ممکن ہے کہ موجود الفاظ بھی آہستہ آہستہ دائرۂ استعمال سے خارج ہو کر بیگانہ الفاظ کو اپنی جگہ سونپ دیں گے اور اِس طرح زبان کی قدرتِ تولید تدریجاً کم ہوتی جائے گی۔”
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"تا چند سال پیش مجسمه‌های لنین به عنوان میراث دوران شوروی، مرکز همه شهرها و نواحی تاجیکستان را زینت داده بود، اما به تدریج پیکره‌های لنین را با نشانه‌های تاجیکستان و اساساً با پیکره‌های اسماعیل سامانی، رودکی و مولوی عوض کردند."
ماخذ

"چند سالوں قبل تک لینن کے مجسموں نے شوروی دور کی میراث کے طور پر تاجکستان کے تمام شہروں اور ضلعوں کے مراکز کو مزین کیا ہوا تھا، لیکن بتدریج لینن کے مجسموں کو تاجکستان کی علامتوں اور بالخصوص اسماعیل سامانی، رودکی اور مولوی کے مجسموں کے ساتھ عوض کر دیا گیا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
شیر‌علی جانانوف - سفیرِ تاجیکستان در پاکستان گفته‌است، که در شهرِ دوشنبه ۷ اپریل جشنوارهٔ چهار‌روزهٔ تجارتی و فرهنگیِ تاجیکستان و پاکستان آغاز می‌یابد. در چهارچوبهٔ آن تاجران و صاحب کارانِ هر دو کشور هم‌کاری‌های تجارتیِ خود را بررسی می‌کنند.
تاریخ: ۶ مارچ ۲۰۱۶ء
ماخذ

پاکستان میں تاجکستان کے سفیر شیرعلی جانانوف نے کہا ہے کہ شہرِ دوشنبہ میں ۷ اپریل کو تاجکستان اور پاکستان کے چار روزہ تجارتی و ثقافتی جشنوارے کا آغاز ہو گا۔ اس جشنوارے کے ذیل میں دونوں ملکوں کے تاجر اور کاروباری افراد اپنی تجارتی ہم کاریوں کا جائزہ لیں گے۔
× جشنوارہ = فیسٹیول
 

حسان خان

لائبریرین
"خدایی شریف‌زاده، ادبیات‌شناسِ ورزیدهٔ تاجیک و پروفیسورِ دانشگاهِ ملیِ تاجیکستان جایزهٔ بین‌المللیِ سعدی را به دست آورده‌است. این جایزه به پروفیسورِ تاجیک برای تألیفِ کتابِ 'شاهنامه و شعرِ زمانِ فردوسی' از سوی رایزنیِ فرهنگیِ ایران در تاجیکستان اهدا شده‌است."
تاریخ: ۱۰ مارچ ۲۰۱۶ء

ماخذ
"باتجربہ تاجک ادبیات شناس اور دانشگاہِ ملیِ تاجکستان کے استاد خدائی شریف زادہ نے بین الاقوامی سعدی انعام حاصل کر لیا ہے۔ تاجک استاد کو یہ انعام 'شاہنامہ و شعرِ زمانِ فردوسی' نامی کتاب کی تالیف کے لیے تاجکستان میں مشاورتِ ثقافتیِ ایران کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
(فردوسی و افراسیاب)
می‌گویند که فردوسی یک شب در عالم خواب افراسیاب را دید که به او می‌گوید: تو چرا در شاهنامه این قدر کیخسرو و رستم و پهلوانان ایرانی را تعریف و توصیف کرده‌ای و از پهلوانی من چیزی نگفته‌ای زیرا دلیری و شجاعت من از پهلوانان ایرانی کمتر نبوده‌است. فردوسی هم به او می‌گوید: من در شاهنامه یک شعر در بارهٔ تو گفته‌ام که اگر دقت کنی همان یک شعر مقام دلیری و دلاوری ترا بسیار بالا برده‌است و آن شعر این است:
شود کوه آهن چو دریای آب
اگر بشنود نام افراسیاب

کتاب: فردوسی نامه: مردم و فردوسی
مؤلف: سید ابوالقاسم انجوی شیرازی
چاپِ اول: ۱۹۷۶ء

× اِس کتاب میں فردوسی سے مربوط عامیانہ قصے جمع کیے گئے ہیں۔

(فردوسی و افراسیاب)
کہتے ہیں کہ فردوسی نے ایک شب عالمِ خواب میں افراسیاب کو دیکھا جو اُس سے یوں مخاطِب ہوا: "تم نے شاہنامہ میں کیوں اِس قدر کیخسرو، رستم اور ایرانی پہلوانوں کی تعریف و توصیف کی ہے جبکہ میری پہلوانی کے بارے میں کوئی چیز نہیں‌ کہی ہے حالانکہ میری دلیری و شجاعت ایرانی پہلوانوں سے کمتر نہ تھی۔ فردوسی نے بھی اُسے یوں جواب دیا: میں نے شاہنامہ میں ایک شعر تمہارے بارے میں کہا ہے کہ اگر توجہ کرو تو وہی ایک شعر تمہاری دلیری و دلاوری کے مقام کو بہت بالا لے گیا ہے اور وہ شعر یہ ہے:
شود کوهِ آهن چو دریای آب
اگر بشنود نامِ افراسیاب

ترجمہ: اگر کوہِ آہن افراسیاب کا نام سن لے تو وہ دریائے آب کی مانند ہو جائے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"زبان‌های ترکی آذری و ترکی استانبولی هر دو دارای ریشهٔ اوغوزی هستند. این دو زبان به همراه ترکمنی (زبان مردمی که در جمهوری ترکمنستان و بخشی از شمال‌شرق ایران زندگی می‌کنند) گروه اوغوز یا ترکی غربی از خانواده زبان‌های ترکی تشکیل می‌دهند. در واقع تفاوت‌های بسیار اندکی بین این دو لهجه وجود دارد تا جایی که مردم ترک این سه کشور شعرای نامی آذربایجانی را از جمله نسیمی و فضولی و ... و داستان‌های دده‌قورقود و کوراوغلو را به طور مشترک از آن خود و جزو فرهنگشان می‌دانند. علی‌رغم این تفاوت در لهجه، بیشتر مردم ترکیه ترکی آذری، و آذربایجانی‌ها ترکی استانبولی را به راحتی می‌فهمند و می‌توانند به راحتی با یکدیگر صحبت کنند و دست آخر اینکه هر کس یکی از این لهجه‌های زبان ترکی را به صورت علمی یاد بگیرد در درک و تکلّم لهجهٔ دیگر مشکلی نخواهد داشت."

کتاب: پانصد سال چالدران، یا پیوند ایران و ترکیه در مسألهٔ شرق

مؤلف: رسول داغسر
سالِ اشاعت: ۱۳۹۲هش/۲۰۱۳ء


آذری ترکی اور استانبولی ترکی دونوں اوغوزی اصل کی حامل زبانیں ہیں۔ یہ دونوں زبانیں ترکمنی (جموریۂ ترکمنستان اور ایران کے چند شمال شرقی علاقوں میں بسنے والے مردم کی زبان) کے ہمراہ ترکی زبانوں کے خاندان کی مغربی ترکی یا اوغوزی شاخ تشکیل دیتی ہیں۔ در حقیقت اِن دو لہجوں کے درمیان بہت کم فرق پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ اِن تینوں ملکوں کے تُرک مردم نسیمی و فضولی وغیرہ جیسے مشہور آذربائجانی شعراء اور ددہ قورقود اور کوراوغلو کی داستانوں کو بہ طورِ مشترک اپنا اور اپنی ثقافت کا حصہ مانتے ہیں۔ لہجے میں اِس تفاوت کے باوجود، ترکیہ کے بیشتر مردم آذری ترکی، اور آذربائجانی مردم استانبولی ترکی کو آسانی سے سمجھ لیتے ہیں اور بہ آسانی ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے ہیں اور بالآخر یہ کہ جو کوئی بھی ترکی زبان کے اِن لہجوں میں سے کسی ایک کو علمی طور سے سیکھ لے تو اُسے دیگر لہجے کو سمجھنے اور بولنے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔
 

عثمان

محفلین
آپ کی دی گئی خبروں کے ماخذ میں فارسی صفحہ کی بجائے متبادل کسی اور زبان کا صفحہ کھل رہا ہے۔ اگرچہ فارسی صفحہ کی سہولت ساتھ دستیاب ہے۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
کیا یہ رواج اب بھی موجود ہے ؟
حکومت ایران نے آفیشلی "ایران نستعلیق" فانٹ بنوا کر مفت ریلیز کیا تھا۔ اسکے علاوہ نستعلیق کی جدید ترین شکل "شکستہ نستعلیق"، جو ابھی ایران سے باہر نہیں آئی، کے فانٹس بھی ایرانیوں نے بنائے ہوئے ہیں۔
باقی جہاں تک پبلشنگ کا سوال ہے تو ایرانی اخبارات و رسائل میں مجھے نستعلیق خط کی بجائے عموماً نسخ ہی نظر آتا ہے۔ اسکی وجہ سمجھ نہیں آئی کیونکہ ایران کی گلیوں اور سڑکوں پر نستعلیق خط کے اشتہارات عام ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ لوگ نستعلیق کو اشتہاری جب کہ عام تحریر کو نسخ میں پڑھنا قومی مزاج سمجھتے ہوں۔ انڈو پاک میں معاملہ الٹ ہے۔
 

عثمان

محفلین
حکومت ایران نے آفیشلی "ایران نستعلیق" فانٹ بنوا کر مفت ریلیز کیا تھا۔ اسکے علاوہ نستعلیق کی جدید ترین شکل "شکستہ نستعلیق"، جو ابھی ایران سے باہر نہیں آئی، کے فانٹس بھی ایرانیوں نے بنائے ہوئے ہیں۔
باقی جہاں تک پبلشنگ کا سوال ہے تو ایرانی اخبارات و رسائل میں مجھے نستعلیق خط کی بجائے عموماً نسخ ہی نظر آتا ہے۔ اسکی وجہ سمجھ نہیں آئی کیونکہ ایران کی گلیوں اور سڑکوں پر نستعلیق خط کے اشتہارات عام ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ لوگ نستعلیق کو اشتہاری جب کہ عام تحریر کو نسخ میں پڑھنا قومی مزاج سمجھتے ہوں۔ انڈو پاک میں معاملہ الٹ ہے۔
میں نے بھی نستعلیق میں فارسی غالباً خطاطی کے نمونوں پر ہی دیکھ رکھی ہے۔ نیٹ پر فارسی کے بیشتر ماخذ عموماً نسخ وغیرہ ہی میں معلوم ہوتے ہیں۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
کیا فارسی میں نستعلیق فونٹ کا کبھی کوئی رواج رہا ہے ؟

اگر خط نستعلیق میر علی تبریزی الفارس کی ایجاد نہ ہوتی تو میرا جواب یقیناً نفی میں ہوتا

[…]باقی جہاں تک پبلشنگ کا سوال ہے تو ایرانی اخبارات و رسائل میں مجھے نستعلیق خط کی بجائے عموماً نسخ ہی نظر آتا ہے۔[…]

تقریباً پانچ سال پہلے فارسی کمپیوٹنگ گروپ میں اسی موضوع پر بڑی دلچسپ گفتگو ہوئی تھی:


Date: Wed, 05 Jan 2011 18:00:17 -0800
From: John Hudson

I am consulting with a publisher on the production of a number of scholarly editions of classical Indian texts, mostly in Indian scripts but with a couple of titles in Persian and Urdu. Originally, both the Persian and Urdu texts would have been written in nastaliq style, and that is still the clearly preferred style for Urdu. The publishers are considering what script style to use for the Persian text. I favour nastaliq for this too, since it is a Persian style and is particularly appropriate to texts of Mughal Indian origin. The editors, however, prefer naskh for the Persian on the grounds that this is more common for Persian typography today, and perhaps think it will be easier for modern readers. I am intrigued to know what contributors to this list think on this topic.

JH

سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ اکثر ایرانیوں کی ترجیح نسخ تھی، جبکہ اکثر غیر ایرانی نستعلیق کے حق میں تھے۔ :)
 

زیک

مسافر
تقریباً پانچ سال پہلے فارسی کمپیوٹنگ گروپ میں اسی موضوع پر بڑی دلچسپ گفتگو ہوئی تھی:



سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ اکثر ایرانیوں کی ترجیح نسخ تھی، جبکہ اکثر غیر ایرانی نستعلیق کے حق میں تھے۔ :)
کیا ایران میں پرنٹنگ کے آنے پر نستعلیق کو رد کیا گیا تھا؟
 

سعادت

تکنیکی معاون
کیا ایران میں پرنٹنگ کے آنے پر نستعلیق کو رد کیا گیا تھا؟
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے، البتہ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ شروع شروع میں جب عرب دنیا میں کامیابی سے مستعمل نسخ ٹائپ فیسز کے نمونے ایران پہنچے تھے تو وہاں کے ناشران نے انہیں یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ ان کا ڈیزائن عربی ہے، ایرانی نہیں۔ بعد میں ایک مشہور ایرانی اخبار، کيہان‎‎، کے لیے لائنوٹائپ نے ایرانی ترجیحات پر مبنی، ’مترا‘ اور ’نازنین‘ نامی نسخ ٹائپ فیسز بنائے تھے، جنہوں نے آگے چل کر جدید ایرانی ٹائپوگرافی کو ایک نئی شناخت فراہم کی۔ (یہ ٹائپ فیسز آج بھی کیہان میں استعمال ہوتے ہیں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
"قصر سفید روز سه شنبه گفت، بارک اوباما نخستین رئیس جمهور برحال امریکا خواهد بود که به هیروشیما سفر می‌کند، اما تأکید کرده‎است که بارک اوباما از تخریب این شهر در آخرین روزهای جنگ دوم جهانی معذرت نخواهد خواست."
ماخذ
تاریخ: ۱۱ مئی ۲۰۱۶ء
"کاخِ سفید نے منگل کے روز کہا کہ بارک اوباما ہیروشیما کا سفر کرنے والے امریکا کے اولین موجودہ صدرِ مملکت ہوں گے، لیکن ساتھ ہی اُس نے تاکید کی ہے کہ بارک اوباما جنگِ عظیمِ دوم کے آخری دنوں میں اِس شہر کی تخریب پر عذرخواہی نہیں کریں گے۔"

× کاخِ سفید = وائٹ ہاؤس
× 'صدرِ اعظم' کی اصطلاح افغانستان میں استعمال ہوتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"این چه عادتِ بدی‌ست، که افرادِ کم‌سواد یا آنانی، که زبانِ مادریِ خود را به‌درستی نمی‌دانند، بر افرادِ باسواد یا کسانی، که زبانِ مادریِ خود را می‌دانند، پیوسته می‌تازند؟ یعنی یکی بر دیگری داد می‌زند و دوغ و پوپیسه می‌کند، که 'های فلانی! تو برای چه بیش‌تر از من می‌دانی؟! باید به اندازهٔ من کم‌سواد باشی!' گویی دانستن گناه شده و ندانستن ثواب!
به جای ایراد گرفتن و گله کردن و خورده گرفتن از پارسیِ ایرانیان، که هزار برابر شیواتر و رساتر از پارسیِ شماست، کوتاهیِ خود را بپذیرید و در پیِ رفعِ آن کوتاهی بکوشید و زبانِ مادریِ خود را، آن گونه که بایسته است، بیاموزید. تمامِ آن واژه‌هایی، که نمی‌فهمید، در آثارِ گران‌بارِ ما آمده‌است. اگر نمی‌فهمید، در این گروه یا هر گروهِ زبانی و فرهنگیِ دیگر بپرسید، بیاموزید... زبانِ ما با همان واژه‌ها غنی و جهان‌گیر شده‌است، نه با 'گَرینی حیوانْش بْدَی نیکی!' و 'اَسْتَنَفاکَده ژْدات کُن'! پذیرفتنِ حقیقتِ تلخِ گرفتاری سرآغازِ رهایی از آن گرفتاری است."
(داریوش رجبیان، روزنامه‌نگارِ تاجیک)

ماخذ
تاریخ: ۱۴ مئی ۲۰۱۶ء

"یہ ایک کیسی بد عادت ہے کہ کم خواندہ افراد یا وہ لوگ جو اپنی مادری زبان کو درستی سے نہیں جانتے، خواندہ افراد پر یا اپنی مادری زبان جاننے والے لوگوں پر مسلسل حملہ کرتے رہتے ہیں؟ یعنی ایک شخص کسی دوسرے کے مقابل چیخ پکار اور داد و فریاد کرتا ہے کہ 'اے فلاں! تم کس لیے مجھ سے زیادہ جانتے ہو؟ تمہیں بھی میری ہی طرح کم خواندہ ہونا چاہیے۔' گویا جاننا گناہ ہو گیا ہے اور نہ جاننا ثواب!
ایرانیوں کی فارسی پر، جو آپ کی فارسی سے ہزار برابر فصیح تر و بلیغ تر ہے، اعتراض کرنے، گلہ کرنے اور عیب تلاش کرنے کی بجائے، اپنی کوتاہی کو قبول کیجیے اور اُس کوتاہی کو رفع کرنے کی کوشش کیجیے اور اپنی مادری زبان کو، اُس طرح جس طرح لازم و سزاوار ہے، سیکھیے۔ وہ تمام الفاظ جو آپ نہیں سمجھتے وہ ہمارے آثارِ گراں بار میں آ چکے ہیں۔ اگر نہیں جانتے تو اِس گروہ میں یا کسی بھی دیگر لسانی و ثقافتی گروہ میں پوچھیے اور سیکھیے۔۔۔۔ ہماری زبان اُنہی الفاظ کے ساتھ غنی اور جہاں گیر ہوئی ہے، نہ کہ '
گَرینی حیوانْش بْدَی نیکی!' اور 'اَسْتَنَفاکَده ژْدات کُن' کے ساتھ! مصیبت کی تلخ حقیقت کی قبولیت اُس مصیبت سے رہائی کا نقطۂ آغاز ہوا کرتی ہے۔"
(تاجک صحافی داریوش رجبیان)


× گَرینی حیوانْش بْدَی نیکی، اَسْتَنَفاکَده ژْدات کُن = روسی آمیز ماوراءالنہری عامیانہ فارسی کے نمونے۔۔۔ میرے لیے یہ بالکل ناقابلِ فہم ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"زبانِ عربی برای اهلِ علم و ادبِ پارسی یک لازمه هست. بدونِ تازی خیلی از بخش‌ها و مفاهیم و واژه‌ها و حتی تعابیر و جمله‌ها در شعر و ادبیاتِ فارسی علی‌الخصوص ادبیاتِ کلاسیک و حتی در برخی موارد ادبیاتِ معاصر دریافتنش سخت می‌شود."
(سعدی وارثوف)
ماخذ
تاریخ: ۱۶ مئی ۲۰۱۶ء
"عربی زبان اہلِ علم و ادبِ فارسی کے لیے ایک لازمہ ہے۔ عربی کے بغیر فارسی شاعری اور ادبیات میں، بالخصوص کلاسیکی ادبیات اور حتیٰ بعض موارد میں معاصر ادبیات میں، کئی حصوں، مفہوموں، لفظوں اور حتیٰ تعبیروں اور جملوں کو سمجھ پانا دشوار ہو جاتا ہے۔"
 
آخری تدوین:
Top