ابن حسن:
ہمارا اصل موضوع ہے ایسے مسلمان جو کہ کافر ملک اور کافر معاشرے میں معاہدے کے تحت رہ رہے ہیں۔
آپ نے جتنے دلائل دیے ہیں، وہ ان سے متعلق نہیں، سوائے مودودی صاحب کی اس تحریر کے کہ:
تو سیدھی سی بات ہے اگر کسی مسلمان کو کافر معاشرے اور ملک میں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اپنے نماز رزرے وغیرہ کی پابندی نہیں کر پا رہا تو وہ وہاں سے ہجرت کر کے اسلامی حکومت میں چلا جائے۔
مگر اس سے اُسے یہ حق کہاں سے حاصل ہو گیا کہ وہ "عہد" کر کے کافر ملک میں جائے کہ وہ اسکے قوانین کی پابندی کرے گا، اور پھر "بدعہدی" کرتے ہوئے لوگوں کو قتل کرتا پھرے؟
دیکھئیے، اتنی لمبی تحریر لکھنے کے باوجود اس اصل مسئلے کے متعلق آپ کی تحریر میں ایک دلیل بھی موجود نہیں ہے۔
بقیہ یہ بحث لاتعلق ہے کہ آیا کفار سے معاہدہ کرنے والی یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے، یا یہ قیاس کرنا کہ رسول نے کفار سے معاہدہ کسی نبوی پیشنگوئی کی وجہ سے کیا ورنہ یہ حرام ہے،۔۔۔ یا پھر وقت کے معیاد کو بیچ میں لانا وغیرہ وغیرہ۔
آج کے حالات کے مطابق اسلامی حکومتوں نے عالمی معاہدہ کیا ہوا ہے کہ اگر اسکے پاسپورٹ پر اسکے شہری دوسرے ممالک جاتے ہیں تو انکے امیگریشن قوانین کی پابندی ان پر لازم ہے۔ اور اگر انہیں یہ شرط منظور نہیں تو کوئی انکے ہاتھ جوڑ کر انہیں آنے کی دعوت نہیں دے رہا اور وہ اپنے ملک میں ہی رہیں۔
اور یہ معاہدے جاری و ساری ہیں اور کسی اسلامی ملک نے انہیں کالعدم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔
چنانچہ، اسکے بعد اگر کوئی شہری غیر ملک میں جا کر اسکے قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بدعہدی کرتا ہے، تو وہ مجرم ہے اور اسکے اس بے وقوفانہ فعل کی وجہ سے ان غیر ممالک میں موجود بقیہ مسلم اقلیت خطرے کا شکار ہو جائے گی۔ ذرا عقل استعمال کرتے ہوئے ٹھنڈے ذہن سے سوچئیے کہ نازی انتہا پسند اسکے اس فعل کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر ہزاروں مسلمانوں کا قتل کر دیں تو نقصان کس کا ہو گا؟ آپ لوگ جذباتی لوگ ہیں اور اس لیے آپکے تمام فیصلے جذباتیت پر مبنی ہیں۔ اس جذباتیت کا امت کو نقصان تو بہت ہو سکتا ہے، مگر بھلا نہیں۔
کافر معاشرے میں کافر بڑھیا عورت کی مثال سب سے اچھا نمونہ ہمارے سامنے تھی۔ مگر افسوس کہ یہ چونکہ ہماری جذباتیت کی تسکین نہیں کر سکتی اس لیے ہم اسے کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ کافر یورپی ممالک کے حساب سے یہی مثال عین اسوہ رسول ہے۔
مہوش صرف یہ کہ دینے سے کہ دلائل لا تعلق ہیں ، ایسا ہو نہیں جاتا آپ اپنے موقف کا شروع سے جائزہ لیجے تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ آپ کے تمام دلائل کا جواب دیا گیا ہے بلکہ رفتہ رفتہ آپ اپنے موقف سے دستبردار ہو کر اس کو محدود کرتی چلی گئیں ہیں۔ شروع میں میں صرف آپ عامر چیمہ شہید اور علم الدین شہید کو mob justice کا ذمہ دار ٹھرا رہیں تھیں بعد ازاں آپ اس سے دسبردار ہو گئیں پھر آپ نے ایفائے عہد ،صلح حدیبیہ اور سورہ انفال کی مثال دے کر بات کی جس کے بعد اپنی سابقہ پوسٹمیں میں نے جب یہ واضح کر دیا کہ اس کا کوئی تعلق توہین رسالت سے نہیں ہے اور یہ دلیل کوئی شرعی دلیل نہیں ہے کہاگر صلح حدیبیہ کی گئی تو اس سے یہ لاز م آتا ہے غیر مسلم معاشرے میں مسلمان توہین رسالت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر جائیں تو اس دفعہ آپ ایک بار پھر وہیںلوٹ گئیں ہیں جہاں سے آپ نے بات شروع کی تھی اپنی سابقہ پوسٹز میں آپ دیکھیں آپ یہ باتیں پہلے بھی کر چکی ہیں اور اب ان کو دہرا رہیں ہیں بحث برائے بحث اسی کو کہتے ہیں۔
مگر اس سے اُسے یہ حق کہاں سے حاصل ہو گیا کہ وہ "عہد" کر کے کافر ملک میں جائے کہ وہ اسکے قوانین کی پابندی کرے گا، اور پھر "بدعہدی" کرتے ہوئے لوگوں کو قتل کرتا پھرے؟
یہ بات آ پ پہلے بھی کرچکی ہیں اور اب پھر اس کو دہرا رہی ہیں تو میرا پھر وہی جواب ہے کہ کوئی مسلمان شرعی طور پر اس کا پابند نہیں کہ وہ کسی ایسے معاہدے یا قانون کی پابندی کرے جس سے اس کے عقائد پر زد آتی ہو۔ اگر مغربی ممالک ایسی جسارت کرنے والوں کو سپورٹ کریں گئے تو یہ بات تمام اخلاقی ضابطوں کی خلاف ورزی ہو گی جس کے تحت خود مغرب میں بہت ساری چیزوں کی اہانت جرم ہے۔
اسکے اس بے وقوفانہ فعل کی وجہ سے ان غیر ممالک میں موجود بقیہ مسلم اقلیت خطرے کا شکار ہو جائے گی۔ ذرا عقل استعمال کرتے ہوئے ٹھنڈے ذہن سے سوچئیے کہ نازی انتہا پسند اسکے اس فعل کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر ہزاروں مسلمانوں کا قتل کر دیں تو نقصان کس کا ہو گا؟ آپ لوگ جذباتی لوگ ہیں اور اس لیے آپکے تمام فیصلے جذباتیت پر مبنی ہیں۔ اس جذباتیت کا امت کو نقصان تو بہت ہو سکتا ہے، مگر بھلا نہیں۔
آپ کیا یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ اگر مغرب کو توہین رسالت کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تو مسلم اقلیت زیادہ محفوظ ہو جائے گی؟؟؟ عجیب منطق ہے آپ کی۔ اور دوسری بات یہ کہ کیا یہ بہت بڑا مفروضہ نہیں کہ کہ مسلمان مغرب میں بہت محفوظ ہیں؟؟؟ ساری دنیا میں مسلمانوں کی جان و مال سے مغرب جس طرح کھلواڑ کر رہا ہے وہ کس کو نہیں معلوم ؟؟؟؟ مروا جیسی بے گنا ہ عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے کوئی اسکا پرسان حال نہیں ؟؟اس کا اور اس کے شوہر کا کیا قصور تھا ؟؟؟ کس دنیا میں رہتی ہیں آپ، مغرب آپ کا دشمن ہے اور رہے گا چاہے آپ تو ہین رسالت ہی پر سمجھوتہ کیوں نہ کر لیں ۔ ہم مسلمان کسی قیمت پر تو ہین رسالت برداشت نہیں کریں گئی ورنہ ہمارا دین ہی ختم ہو جائے گا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و آبرو ہی اس دین کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔
آپ نے جس بڑھیا کی دلیل دی تو یہ صحیح ہے رحمت للعالمین کی رحمت بہت وسیع ہے اور یہ اختیار بھی آپ کا ہی تھا کہ جس کو چاہیں معاف کر دیں اور آپ نے اس بڑھیا کو ہی نہیں بلکہ عبد اللہ بن ابی کو بھی معاف کرنا چاہا تھا لیکن یہ اختیار اب امت کے پاس نہیں کہ وہ توہین رسالت کے مجرمین کو معاف کرے اس پر ہی اس امت کا اجماع ہے۔
”امام خاتمہ المجتہدین تقی الدین ابی الحسن علی بن عبدالکافی السبکی اپنی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم“ میں لکھتے ہیں کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ امت کا اجماع ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تنقیص کرے اور سب و شتم کرے وہ واجب القتل ہے، ابوبکر ابن المنذر فرماتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرے اس کا قتل واجب ہے، امام مالک بن انس، امام لیث، امام احمد اور امام اسحق اسی کے قائل ہیں اور یہی مذہب ہے امام شافعی کا، قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس طرح کا قول امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب سے اور امام ثوری سے اور امام اوزاعی سے شاتم رسول کے بارے میں منقول ہے۔ امام محمد بن سحنون فرماتے ہیں کہ علماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کے کفر پر اجماع کیا ہے،اور ایسے شخص پر عذاب الٰہی کی وعید ہے اور جو شخص ایسے موذی کے کفرو عذاب میں شک و شبہ کرے وہ بھی کافر ہے، امام ابو سلیمان الخطابی فرماتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسا مسلمان معلوم نہیں ،جس نے ایسے شخص کے واجب القتل ہونے میں اختلاف کیا ہو۔“ علامہ ابن عابدین شامی اپنی مشہور زمانہ کتاب ”رسائل ابن عابدین“ میں اس سے بڑھ کر لکھتے ہیں:
”جو ملعون اور موذی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی میں گستاخی کرے اور سب و شتم کرے، اس کے بارے میں مسلمانوں کے دل ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک کہ اس خبیث کو سخت سزا کے بعد قتل نہ کیا جائے یا سولی پر نہ لٹکایا جائے، کیونکہ وہ اسی سزا کا مستحق ہے، اور یہ سزا دوسروں کے لئے عبرت ہے۔“ : ”