آپ ایسا عذر لے کر آ گئے ہیں جس پر آپ کو اور مجھ کو اپنا اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ویزہ لیتے وقت آپ ایک درخواست فارم فل کرتے ہیں اور اسی میں حلف درج ہوتا ہے کہ آپ ملکی قانون کا احترام کریں گے اور اس ویزا فارم پر آپ سے دستخط لیے جاتے ہیں۔ اور خاص طور پر سٹوڈنٹز جو یہاں جرمنی میں ویزہ لینے جاتے ہیں، ان سے بھی انکے ویزا فارم درخواست پر ان سے دستخط لیے جاتے ہیں۔
آپ کے پاسپورٹ کے شروع میں صدر پاکستان کی طرف سے درخواست درج ہے کہ پاسپورٹ کے حامل ہذا کو آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ اور پاسپورٹ کے آخر میں درج ہے کہ ہر پاسپورٹ کے حامل ہذا کو دیگر ممالک کے امیگریشن قوانین کی پابندی لازمی ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ نہ بھی ہو تب بھی بین الاقوامی معاہدوں کے تحت آپ پر واجب ہے آپ ہر ملک کے قوانین کا احترام کریں اور اس میں کوئی دو آراء نہیں۔
آپ ایک ایسا سوال پوچھ رہے ہیں جس کا علم آپ کو یقینا مذہبی انسان ہوتے ہوئے بہت اچھی طرح ہونا چاہیے۔ بس میں امید ہی کرتی ہوں کہ آپ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے یہ سوال نہ کر رہے ہوں اور نہ آپکی نیت بحث برائے بحث کی ہو۔
اللہ تعالی قرآن میں فرما رہا ہے:
(الانفال 8:72) وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں مگر انہوں نے ابھی ہجرت نہیں کی، ان کے ساتھ تمہارا ولاء (ایک دوسرے کی حفاظت) کا رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد طلب کریں تو تمہارے لئے ان کی مدد کرنا ضروری ہے، مگر کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جن کے اور تمہارے مابین معاہدہ ہو۔ (یاد رکھو) کہ جو تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
اسی طرح کا واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے۔ جب کفار کسی مسلمان پر ظلم و ستم کر رہے ہوں تو شریعت کی رو سے واجب ہو جاتا ہے کہ جہاد کر کے ان مسلمانوں کی مدد کی جائے۔ صلح حدیبیہ کے وقت کفار مکہ مسلمانوں پر انتہائی ظلم و ستم توڑے ہوئے تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریعت کے اس جہاد کے حکم کے برعکس کفار سے صلح کر رہے ہیں اور اس میں ایسی شقوں کو مان رہے ہیں جو اسلامی شریعت کے بائی ڈیفالٹ قوانین کے خلاف ہیں، مثلا یہ کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر آئے گا تو اُسے واپس کر دیا جائے گا، مگر اسکا الٹ صحیح نہ ہو گا۔
اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عہد کا ایسا ایفاء کیا کہ جب ابو جندل کفار مکہ کی قید سے فرار ہو کر مسلمانوں کی پناہ میں آ گئے تب بھی رسول ص نے معاہدے کے مطابق انہیں انہیں کفار کے ہاتھ واپس کیا جو اُن پر اذیتوں کے پہاڑ توڑا کرتے تھے۔
اور غیر مسلم ممالک اور اُن کے غیر اسلامی قانون کے تحت کیسا رہا جائے، اسکا نمونہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود ہمیں دے چکے ہیں جب ایک کافر بڑھیا آنحضرت ص پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی اور برا بھلا کہا کرتی تھی۔ اور جب ایک دن اس نے یہ حرکت نہ کی تو رسول ص خود اسکے گھر چلے گئے اور جب دیکھا کہ وہ بیمار ہے تو اس کی تیمارداری کی۔ ۔۔۔۔ اور آخر میں اس بڑھیا نے رسول کے اس اسوہ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
خدا کا شکہ ہے کہ میرا رسول ص عامر چیمہ جیسا انتہا پسند نہیں اور موقع دیکھ کر چھری نکال کر بڑھیا کو ذبح کرنے کی بجائے اُس کی تیمارداری کرتا ہے حالانکہ اسکا تو اُس وقت کسی سے کوئی معاہدہ بھی نہیں۔ مگر یہ انسانی عقل رہنمائی کرتی ہے کہ کفار پر کافر معاشرے میں آپ اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے۔
مجھے خوشی ہے کہ اس دفعہ آپ نے ایک مثبت طرز اپناتے ہوئے دلائل کے ساتھ اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔
دیکھیے آپ نے جو سورہ مبارکہ کی آیت بیان کی یا صلح حدیبیہ کا معروف واقعہ بطور دلیل کے یہاں بیان کیا ہے وہ اس بات کہ کوئی بھی مسلم کسی غیر اسلامی ملک میں رہائش اختیار کرے تو وہاں کہ سب ہی احکام کی پابندی کرے اور چاہے ان میں اسیے احکام بھی ہوں جن کی زد اس کے عقائد یعنی مثلا توحید و رسالت یا انتہائی بنیادی معاملات مثلا ادائیگی صوم و صلوۃ پر بھی پڑی ہو، سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان دونوں معاملات کا الگ الگ جائزہ لینا پڑے گا۔
سورہ انفال غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی سو اس سورہ میں اس غزوہ کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ہجرت سے متعلقہ بھی بعض مسائل اس سورہ شریفہ میں بیان ہوئے ہیں آپ نے جو آیت شریفہ نقل کی ہے وہ درحقیقت ہجرت سے متعلقہ بعض مسائل کے بارے میں ہے ۔وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کا فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی ہجرت نہیں کی بلکہ کسی نہ کسی وجہ سے مشرکین کے درمیان رہ گئے اب گویا ان کے لیے کچھ خاص احکامات نازل ہوئے اور ان کا رتبہ ہجرت کرنے والوں سے گھٹا دیا گیا۔اولا مہاجر و غیر مہاجر کی باہمی وراثت کو قطع کردیا گیا۔ دوسرے یہ کہ مولانا مودودی کے مطابق ان سے سیاسی ولایت کا رشتہ بھی منقطع کردیا گیا گویا اب اسلامی حکومت میں رہنے والوں سے نہ صرف وراثت باوجود نسبی تعلق کے حاصل نہیں کر سکتے بلکہ شادی بیاہ بھی نہیں کرسکتے اور اسلامی حکومت ان کوکوئی عہدہ بھی نہیں دے سکتی جب تک وہ وہاں کی شہریت ترک نہیں کرتے ہاں اخوتی رشتہ ایک حد تک برقرار رکھا گیا کہ اور وہ دینی اخوت کا رشتہ تھا اور یہ کہ اگر ان پر کہیں ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی حکومت سے مدد مانگیں تو اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ ان کی مدد کرے ۔ لیکن اس میں بھی اللہ رب العزت نے ایک استثنیٰ رکھ دیا کہ اگر ظلم کرنے والی حکومت سے عدم جنگ کا کوئی معاہدہ ہو گیا ہو تو پھر اس حکومت سے جنگ نہیں کی جائے گی۔اس چیز کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح فرمایا کہ میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔
کیا اس تفصیل سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ چیز بطور خاص ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی جنھوں نے ہجرت جیسے اہم فریضہ سے منہ موڑے رکھا جس سے ان کی وراثت تک منقطع ہو گئی اور پھر غور کیجئے تو یہ استثنیٰ خود رب کی طرف سے ہے اور یہ معاملہ دو حکومتوں کے مابین ہے اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اسلامی عقائد و نظریات سے باہم متصادم ہو ایک اسلامی حکومت صرف ان مسلمانوں کی حفاظت سے بری ذمہ قرار دی جارہی ہے جو خود وہاں رہنے پر مصر ہیں۔لیکن اس میں کہیں یہ بات ہم کو نظر نہیں آتی کہ اس سے یہ لازم آتا ہو کہ اسلامی حکومت یا مسلمانوں کو اللہ یہ چھوٹ دے رہا ہے کہ تم کوئی بھی معاہدہ کر ڈالو بھلے اس معاہدہ کے نتیجے میں تمہارا دین و ایمان برباد ہو جائے اس آیت سے کہیں دور دور تک یہ مطلب اخذ نہیں کیا جاسکتا
پھر مہوش ایک بڑی اہم بات یہ کہ سورہ انفال سے متصل سورہ توبہ ہے آپ اس سورہ مبارکہ کی ابتدائئ آیات پڑھیں تو اس معاملے میں مزید بصیرت ملتی ہے اس سورہ میں تمام مشرکین کے ساتھ سارے معاہدہ ختم کرنے کا واضح اعلان موجود ہے عام معاہد ہ جوکسی مدت کے بغیر کیے گئے ہیں ان کے لیے 4 ماہ کی مدت رکھی گئی ہے اور وہ معاہدے جن کی کچھ مدت ہے وہ اپنی مدت تک برقرار رکھے گئے ہیں مگر ایک شرط کے ساتھ بقول ابن کثیر وہ لوگ معاہدے کی شرائط پر قائم رہیں نہ مسلمانوں کو خود کوئی ایذا پہچائیں اور نہ ان کے دشمنوں کی کوئی کمک اور امداد کریں ۔گویا بعد ازاں اللہ ان مشرکین سے کسی قسم کے معاہدے کرنے کا ہی روادار نہیں اور ان کے سامنے دو راستے رکھ رہا ہے یا تو مسلمان ہو جاو ورنہ مسلمانوں کا مرکز خالی کرود یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو اور ادھر آپ ہیں جو توہین رسالت پر بھی مسلمانوں کو ان کے قوانین کی پاسداری کرنے کادرس دے رہی ہیں یہاں میں اختصارا کچھ باتیں عرض کرہا ہوں سورہ توبہ کی تفاسیر اٹھا کر دیکھئے بہت کچھ اور بھی آپ کے علم میں آجائے گا۔
صلح حدیبیہ کا معاملہ بھی کچھ یہی تھا ان کافروں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خاص مدت کے لیے صلح کی تھی اور وقتی طور پر کچھ قربانی بھی دی تھی یہاں تک کہ محمد رسول اللہ کی بجائے اپنا نام محمد بن عبداللہ لکھنا بھی گوارا کر لیا تھا کیونکہ جو کچھ وحی کے ذریعے آپ کو پتہ تھا وہ کسی ا ور کو پتہ نہیں تھا اس سلسلے میں سب سے اہم معاملہ ان مسلمانوں کا تھا جو مسلمان ہو کر مکہ سے مدینہ آئے لیکن ان کو واپس کر دیا گیا جیسا کہ ابو جندل اور ابو بصیر لیکن اس موقع پر آپ گویا بشارت خداوندی کے تحت دیکھ رہے تھے کہ ان مظالم کی عمر زیادہ نہیں اور ہوا بھی ایسا ہی۔ پھر سورہ توبہ کا نزول ہوا جس نے ایسے معاہدات ختم ہی کردئیے
[arabic] بَرَاءَةٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَo[/arabic]
[arabic]فَسِيحُواْ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُواْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّهِ وَأَنَّ اللّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَo[/arabic]
[arabic]وَأَذَانٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍo[/arabic]
[arabic]إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُواْ عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّواْ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَo[/arabic]
[arabic]فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌo
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَعْلَمُونَo
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُواْ لَكُمْ فَاسْتَقِيمُواْ لَهُمْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَo[/arabic]
صلح حدیبیہ دس سال کے لیے تھی جو پہلے ہی توڑ دی گئی تھی اور اس کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ اب اگر مشرکین ایمان نہیں لاتے تو ایسا معاہدہ پھر ان کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا تھا یاد رہے یہ سورہ اواخر زمانے کی ہے چہ جائیکہ اب آپ صلح حدیبیہ کو مثال بنانے کی کوشش کریں؟؟؟
اب آئیے توہین رسالت کے مسئلے کی طرف
قرآن میں ارشاد ہے
[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًاO[/ARABIC]
ترجمہ: …”بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کررکھا ہے۔
[ARABIC]. لَئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًاO [/ARABIC]
60. اگر منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بُغض اور گستاخی کی) بیماری ہے، اور (اسی طرح) مدینہ میں جھوٹی افواہیں پھیلانے والے لوگ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء رسانی سے) باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان پر ضرور مسلّط کر دیں گے پھر وہ مدینہ میں آپ کے پڑوس میں نہ ٹھہر سکیں گے مگر تھوڑے (دن)o
[ARABIC]61. مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًاO[/ARABIC]
61. (یہ) لعنت کئے ہوئے لوگ جہاں کہیں پائے جائیں، پکڑ لئے جائیں اور چُن چُن کر بری طرح قتل کر دیئے جائیںo
[ARABIC]62. سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًاO [/ARABIC]
62. اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گےo (سورہ احزاب)
اور پھر یہی نہیں بعض گستاخان اور نبی کے مخالفین کے بارے میں یہ تک ارشاد ہوا
اے نبی خواہ آپ ان کے لئے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی بخشش مانگیں گے تب بھی اللہ ہرگز ان کو معاف نہ فرمائے گا۔
یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے مٰن نازل ہوئی نبی کریم نے اپنی رحمت کی بنا پر اس بدترین گستاخ کی بھی ایک بار بخشش چاہی تو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں
اور خود مدینہ کی ریاست میں رہتے ہوئے کئی بار مدینہ سے باہر گستاخان کو قتل کرنے کے لیے سرایا روانہ فرمائے یہ بات میں کئی بار لکھ چکا ہوں۔اس کی تفصیل بھی لکھی جاسکتی ہے اگر آپ کو نہ ملے۔
مزید پڑھئے
ذیل میں چند احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ کرام سے بھی تحفظ ِ ناموس رسالت کی اہمیت واضح ہوتی ہے:
۱:… ”حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص کی ام ولد باندی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتی تھی‘ وہ اس کو روکتے تھے مگر وہ نہ رکتی تھی‘ وہ اسے ڈانٹتے تھے مگر وہ نہ مانتی تھی‘ راوی کہتے ہیں جب ایک رات پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنا اور گالیاں دینی شروع کیں تو اس نابینا نے ایک خنجر لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور وزن ڈال کر دبا دیا‘ اور اس کو مار ڈالا‘ عورت کی ٹانگوں کے درمیان سے بچہ نکل پڑا اور جو کچھ وہاں تھا وہ خون آلود ہوگیا‘ جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر کیا گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: میں اس آدمی کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں‘ جس نے جو کچھ کیا میرا اس پر حق ہے وہ کھڑا ہوجائے تو وہ نابینا شخص کھڑا ہوگیا اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ کانپ رہا تھا اور جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کا مالک اور اسے مارنے والا ہوں‘ یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی‘ میں اسے روکتا تھا وہ رکتی نہ تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح خوبصورت ہیں اور وہ مجھ پر بہت مہربان بھی تھی‘ لیکن آج رات جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا اور بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا‘ اس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگاکر اسے مار ڈالا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لوگو! گواہ رہو! اس کا خون ”ھدر“ یعنی بے سزا ہے۔“
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور بُرا بھلا کہتی تھی تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا‘ یہاں تک کہ وہ مر گئی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو ناقابل سزا قرار دے دیا۔
(ابوداؤد ج۲:ص۲۵۲)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر حویرث ابن نقید کو قتل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا‘ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچایا کرتا تھا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کیا
اور کیا نبی اکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں ہے
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو چاہئے کہ اپنی طاقت سے اس کو روکے‘ اگر اس کی قوت نہ ہو تو زبان سے اس کو منع کرے‘ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اس کو بُرا سمجھے ‘یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔“
اب بتائیے کہ توہین رسالت ایک بدترین برائی ہے کہ نہیں اور اس کا انسداد ضروری ہے کہ نہیں
اور پھر خسرو پرویز کا واقعہ یاد کیجئے کہ اس نے نبی پاک کا نامہ مبارک پھاڑ دیا تھا تو نبی اس پر غصہ ہوئے تھے اور فرمایا تھا
جس طرح اس نے میرے خط کو پرزے پرزے کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے فرمادے گا۔
مزید پڑھئیے
بنی خطمہ میں ایک یہودیہ عصماء نامی عورت شاعرہ تھی‘ اس نے اپنی شاعری کا رخ مسلمانوں کی ہجو کی طرف موڑ دیا‘ خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بڑے گستاخانہ اشعار کہتی تھی اور لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑائی پر ابھارتی تھی‘ اپنے ایام ماہواری کے گندے کپڑے مسجد میں ڈالا کرتی‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی غزوئہ بدر سے واپس نہ ہوئے تھے کہ اس نے اپنے اشعار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجو اور گستاخی شروع کردی‘ ایک نابینا صحابی حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے سنا تو دل میں عہد کرلیا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ بدر سے بسلامت واپس تشریف لائے تو میں اس شاعرہ کی زبان بند کروں گا۔ الحمدللہ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے فاتحانہ تشریف لائے تو حضرت عمیر رضی اللہ عنہ اپنی منت پوری کرنے کے لئے تلوار لے کر نکلے‘ رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہوئے‘ راستہ ٹٹولتے ٹٹولتے اس کے قریب پہنچے‘ بچہ اس کی چھاتی سے لگا ہوا تھا‘ اسے ایک طرف کیا اور تلوار دل میں چبھودی‘ وہ آواز تک نہ نکال سکی اور مرگئی۔
صبح کی نماز مسجد نبوی میں ادا کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے عرض کیا‘ کیا مجھ سے کوئی مواخذہ تو نہیں ہوگا؟ فرمایا: نہیں! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے عمیر رضی اللہ عنہ لوٹ رہے تھے تو عصماء کے لڑکے نے کہا: یہ ہماری ماں کا قاتل ہے ‘ جواب میں کہا: بے شک! میں نے ہی اسے قتل کیا ہے اور اگر کسی نے پھر ایسی جرأت کی تو اسے بھی موت کا مزہ چکھاؤں گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا:
”اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہو‘ جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غائبانہ مدد کی ہو تو وہ عمیر بن عدی کو دیکھے۔“
یہ بھی ارشاد ہوا کہ ان کو نابینا نہ کہو‘ یہ بینا اور بصیر ہیں‘ وہ بیمار ہوئے تو عیادت کے لئے جاتے ہوئے فرمایا کہ :مجھے بنی واقف کے بینا کی عیادت کے لئے لے چلو۔