سید عمران
محفلین
فکر نہ کریں۔۔۔سلاماباد تو لٹیروں کی زد میں ہے
محفوظ تو ایبٹ آباد بھی نہیں کاکول بھی نہیں
کراچی دارلخلافہ جناح نے بنایا تھا
دار الحکومت بننے کی دیر ہے۔۔۔
مسافر نواز بہتیرے!!!
فکر نہ کریں۔۔۔سلاماباد تو لٹیروں کی زد میں ہے
محفوظ تو ایبٹ آباد بھی نہیں کاکول بھی نہیں
کراچی دارلخلافہ جناح نے بنایا تھا
معلوم نہیں کیا سوال ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے کہ مشرف کے اقتدار کے آخری سالوں میں ایسا کوئی ایشو منظرعام پر نہیں تھا جو وکلا کی تحریک سے التوا میں چلا گیا ہو۔ مسئلہ کشمیر اس کے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں زیر بحث تھا جس کا تذکرہ پہلے کیا ہے۔کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے پر مشرف نے کب عمل درآمد کرنا تھا؟
یہاں تو دارالحکومت پیچھے کی طرف لے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو پھر ایک قدم مزید پیچھے جانے کے بارے میں کیا خیال ہےفکر نہ کریں۔۔۔
دار الحکومت بننے کی دیر ہے۔۔۔
مسافر نواز بہتیرے!!!
میرا سوال یہ تھا کہ آپ کے خیال میں مشرف نے کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرنے کے منصوبہ پر عمل درآمد کب کرنا تھا ؟معلوم نہیں کیا سوال ہے
ابتدا میں تو بھارتی قیادت کے ساتھ فرنٹ ڈور ڈپلومیسی چلتی رہی جو خبروں میں آتی رہی جیسا کہ آگرہ مذاکرات مگر اس کے بعد مشرف کے معتمد خاص "طارق عزیز" (ٹی وی کمپئیر نہیں) کی زیر قیادت بیک ڈور ڈپلومیسی چلتی رہی۔ وکلاء تحریک کی وجہ سے مشرف کی اقتدار پر گرفت پہلے کی طرح مضبوط نہیں رہی جس وجہ سے مشرف کے بہت سے منصوبوں پر پانی پھر گیا تھا۔مسئلہ کشمیر اس کے اقتدار کے ابتدائی سالوں میں زیر بحث تھا جس کا تذکرہ پہلے کیا ہے
میری رائے میں مشرف کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا، ورنہ وہ کرگل کا بکھیڑا ہی کیوں شروع کرتا۔میرا سوال یہ تھا کہ آپ کے خیال میں مشرف نے کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرنے کے منصوبہ پر عمل درآمد کب کرنا تھا ؟
کارگل کے اڈونچر کے وقت مشرف کی رائے ایسی نہیں ہوگی، بعد میں بدلی ہوگی۔میری رائے میں مشرف کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں تھا، ورنہ وہ کرگل کا بکھیڑا ہی کیوں شروع کرتا۔
کشمیر کا کسی بھی قسم کا مستقل حل، کم از کم دونوں ملکوں کی غریب عوام کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ دونوں ملکوں کی غریب عوام کی ٹیکس منی کے اربوں ڈالرز ہتھیاروں کی بجائے صحت، تعلیم، روزگار جیسی بنیادی ضروریات پر استعمال ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ تیسرے فریق، کشمیری، جن کا اصل علاقہ ہے ان کی جان بھی بہت سے مسائل سے چھوٹ جائے گی۔کارگل کے اڈونچر کے وقت مشرف کی رائے ایسی نہیں ہوگی، بعد میں بدلی ہوگی۔
یہ سوال واقعی قابل غور ہے کہ کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ اصل فائدہ تو بھارت کو ہوگا! شاید محمد وارث صاحب اس پر روشنی ڈال سکیں۔
یہ فوائد تو دونوں ملکوں کی دشمنی ختم ہونے سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ میری رائے میں دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر نہیں ہے بلکہ دشمنی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پیدا ہوا۔۔ دونوں ملکوں کی غریب عوام کی ٹیکس منی کے اربوں ڈالرز ہتھیاروں کی بجائے صحت، تعلیم، روزگار جیسی بنیادی ضروریات پر استعمال ہو سکتے ہیں۔۔۔
یہ مسئلہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ 72ء میں کشمیری اتنے متحرک نہیں تھے اب انٹرنیشنل بارڈر شاید انہیں ہی منظور نہ ہو۔یہ فوائد تو دونوں ملکوں کی دشمنی ختم ہونے سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ میری رائے میں دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر نہیں ہے بلکہ دشمنی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پیدا ہوا۔
یہ بات اصولی طور پر درست ہے کہ کشمیر کے اصل حقدار کشمیری ہیں وہ کیا چاہتے ہیں اسی بنیاد پر ہی اس کا فیصلہ ہونا چاہئے۔
اگر پاکستان کنٹرول لائن کو بارڈر تسلیم کر لے دوسرے لفظوں میں بھارت کا کشمیر پر قبضہ قانونی طور پر درست تسلیم کر لے تو کیا پاکستان کو اس کا کچھ فائدہ ہوسکتا ہے؟
پاکستانیوں کی غالب اکثریت کشمیر کنٹرول لائن کو بارڈر تسلیم کرنے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گی آپ ہی کے الفاظ میں ملک میں آگ جائے گی چاہے کوئی بھی کرے۔یہ مسئلہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ 72ء میں کشمیری اتنے متحرک نہیں تھے اب انٹرنیشنل بارڈر شاید انہیں ہی منظور نہ ہو۔
دوسرا مسئلہ، فرض کریں نواز شریف یہ مان لے تو کیا ہوگا؟ ملک میں آگ لگ جائے گئی۔ اگر زرداری مان لے تو پھر بھی یہی ہوگا۔ جنرل مشرف بھی نہیں کر سکتا تھا تو پاکستان کے فائدے سے پہلے تو یہ سوچنا ہوگا کہ لائن آف کنڑول کو انٹر نیشنل بارڈر ماننے کا فیصلہ پاکستان میں کرے گاِ کون؟
اگر جنرل ضیا الحق یہی فیصلہ کرتا تو کیا آپ مان لیتے؟
صوبائی اسمبلی بھی پاس کر دے گی۔آخر قومی اسمبلی اور سینیٹ نے فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کا قانون پاس کر دیا۔ اب صوبائی اسمبلی میں اس پر فیصلہ ہو گا۔
اور صدر نے بھی دستخط کر دیئے۔صوبائی اسمبلی بھی پاس کر دے گی۔
میری کم علمی کے مطابق فاٹا کی عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کا انضمام پر کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔ ابھی تک تو صرف کچھ مخصوص مذہبی طاقتوں کی طرف سے رد عمل نظر آیا ہے۔چلیں فساد کے عالمی دیوتاؤں کو ایک بار پھر خوش کردیا گیا۔ اب راوی چین ہی چین لکھے گا۔ یہ اَن پڑھ سپاہی اور عالمی طاقتوں کے سامنے بے بس اور بے خبر فوجی کمانڈرز اور کر بھی کیا سکتے تھے۔
اب چین کے پنجے فاٹا کو بھی نوچنا شروع کردیں گے۔ جس میں غیر ملکی آقاؤں کے نسلی غلام اُن کا بھر پور ساتھ دیں گے۔
صدر کا دستخط نہ کرنا خبر ہوتا شاید۔اور صدر نے بھی دستخط کر دیئے۔
قبائل کے 70 فیصد عوام اس کے مخالف تھے. جو حامی ہیں ان کو پشتون قوم کے ایک ہونے اور ایف سی آر کے خاتمے کے مضحکہ.خیز پٹیاں پڑھوائی گئیں. اس پر کوئ رائے شماری نہیں ہوئی. ایک غیر پشتون اور غیر قبائلی سرتاج عزیز جیسے جانے مانے مہرے سے رپورٹ تیار کی گئی جس کا قبایل سے دور کا کوئی واسطہ نہیں. اس سے بڑا مزاق اور بڑی حق تلفی اور کیا ہوگی. جب کہ یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ یہ فیصلہ فوج نے کروایا ورنہ وزیراعظم اور کچھ دیگر آخر تک انضمام سے متعلق فیصلہ نہیں کرنا چاہتے تھےِ.میری کم علمی کے مطابق فاٹا کی عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کا انضمام پر کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔ ابھی تک تو صرف کچھ مخصوص مذہبی طاقتوں کی طرف سے رد عمل نظر آیا ہے۔