شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۷

کنوتِیاں اُتھا کے بھاگا۔ دونوں نے تعاقُب کیا۔ تمام دن روان و دواں، اُتاں و خیزاں چلے گئے۔ قریبِ شام موقع پا کے بڑے بھائی نے جو تیر مارا، ہَرن ڈگمگا کر گرا۔ یہ گھوڑوں سے اُترے، ذبح کیا۔ دن بھر کی دوڑ سے گھوڑے شل، خود بھی مُضمحِل ہو گئے تھے۔ تمام رُوز کے بے دانہ و آب، بھوک پیاس سے بے تاب تھے۔ لکڑیاں چُن کر، پانی بہم پہنچا کر کباب لگائے، بہ خوبیِ تمام دونوں نے کھائے؛ مگر اُس روز جو کیفیت اور لذت خُشک کباب میں پائی، مُرغ کی زِیر بریانی تر تراتی کبھی ایسی نہ کھائی ۔ پانی جو ڈگڈگا کے پِیا، سُستی معلوم ہوئی اور رات بھی ہو گئی تھی؛ لیکن شبِ ماہ، پورن ماسی کا چاند، اللہ اللہ! جنگل کی فِضا، سبزۂ نو رُستہ جا بہ جا۔ اُنہوں نے کہا: آج کی شب اِس صحر میں سحر کیجیے، چاندی کی بہار، صنعتِ پرور دگار دیکھ لیجیے۔ پھر دل میں سوچے کہ تنہائی کی چاندنی گُور کے اندھیرے سے بدتر ہے۔ سچ ہے: جب ماہ رؤ بَر میں نہ، تو نور نظر میں نہ ہو، اندھیر اُجالا آنکھ میں برابر ہے۔ ناسخؔ :

دھوپ بہتر، پر شبِ فرقت کی بدتر چاندنی (۱)
صاعقے کے طور سے پڑتی ہے مجھ پر چاندنی

خیر، یہ دونوں ایک درختِ سایہ دار چشمے کے قریب دیکھ؛ شطرنجی، چاندنی تو ہمراہ نہ تھی؛ زین پُوش چاندنی کے عِوض بِچھا، چاندنی کی سیر کرنے لگے۔ باگ ڈُور سے گھوڑے اٹکا دیے۔ چھوٹا بھائی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۸

بڑا متین، ذی شعور، نُکتہ سنج، دوربیں تھا، بڑے بھائی نے کہا: آج ہم تمہاری عقل کا اِمتِحان کرتے ہیں؛ بتاؤ تو اِ س وقت ہمارے شہر کا ہم سے کتنا فاصلہ ہے؟ اور یہ سِمت کون سی ہے؟ تیسرے، کباب کی لذت، پانی کا زیادہ مزہ آج ملا، اِس کا سبب کیا تھا؟ اُس نے جواب دی: یہ باتیں سہل ہیں۔ شہر ہمارا یہاسے سَو کُوس ہے اور دلیلِ کامل یہ ہے بارہا تجربہ کیا ہے، میرا گھوڑا تمام دن میں سَو کُوس اِسی چال سے پہنچتا ہے۔ اور سمت، ستاروں سے ثابِت کہ شمال ہے۔ رہا کھانے پانی کا لطف، خِلافِ وقت سے تھا؛ اِلا، نیا مُقدمہ یہ سُنیے: یقینِ کامل ہے کہ صبح کو ننایتِ خالق اور مددِ طالِع سے وہ سامان مُہیا ہو جو کُدورتِ سابِق دور ہو، آیِندہ آسایِش رہے، طبیعت مسرور ہو۔ بڑے بھائی نے اس کی وجہ پوچھی۔ اُس نے کہا: آج سَو کُوس کی مسافت بہ صد آفت طے کی، بھوکے پیاسے رہے، لیکن بشاس ہے۔ وہ سُن کے چُپ ہو رہا۔ یہ قصہ رفت و گُذشت۔

پھر مشورہ ہوا کہ یہ جنگل سُنسان، ہو کا مکان ہے؛ یہاں درِندہ و گزِندہ، سانپ بھو، شیر بھیڑیے کے سوا پرِندہ، دوِندہ نظر نہیں آتا؛ جو ہم تم دونو سو رہے، تو النومُ اخُو الموتِ، خُدا جانے کیا معاملہ رو بہ کار ہو۔ تین پہر رات باقی ہے؛ ڈیڑھ پہر ہم جاگیں، پھر تم ہشیار رہو۔ یہ صلاح پسندِ خاطِرِ طرفین ہوئی۔ پہلے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷۹

بڑے بھائی نے آرام کیا، چھوٹے نے جاگنے کا سر انجام کیا۔ تیر و کماں ہاتھ میں اُٹھا ٹہلنے لگا۔ جب زُلف، لیلاے شب کمر تک آئی؛ اُسی درخت پر دو جانور آپس میں اپنی اپنی توصیف و تعریف زبانِ بے زبانی میں کرنے لگے۔ اور یہ شخص بہت جانوروں کی بُولی سمجھتا تھا، آواز پر کان لگائے۔ ایک بولا: میرے گوشت میں یہ تاثیر ہے: جو کھائے؛ ایک لعل تو پہلے دو (۲) پہر کے بعد اُگلے، پھر ہر مہینے مُنہ سے نکلے۔ دوسرا بولا؛ جو شخص میرا گوشت کھائے، اُسی روز بادشاہ ہو جائے۔

یہ باتیں سمجھ دل میں نہایت خوش ہوا۔ تیر و کماں تو موجود تھا؛ الا اللہ کہہ کر، بیر بے تامُل چِلے سے جُوڑ کھینچا۔ لبِ سؤفار کان کے آ، بہ وعدۂ نشانہ سرگُوشی کر کے روانہ ہوا۔ قضا نے ہر چند اُن کے سِر پر "خبردار" پکارا، کمان کڑ کڑا کر چِلائی کہ وہ مارا۔ رات کا تیر سرا سری اُنکرلیس؛ مگر مرگ جو درپے ہو گئی، کسی گوشے میں جان نہ بچی۔ پیکان سے تاسؤفار دو سار ہوا۔ زمین پر چِھد کر دونوں ایک گیر میں گِر پڑے۔ اِس نے تکبیر بِلا تاخیر کہہ کہ ذبح کیا، طاہرِ روح اُن کا اُڑ گیا۔ دن کی لکڑیاں بچی پھر سُلگا کباب لگائے۔ جس کے گوشت میں سلطنت کا ذائقہ سمجھا تھا، اُسے کھایا۔ دوسرا، بھائی کے واسطے اُٹھا رکھا اور ایسا خوش ہوا کہ تمام شب آپ پاسبانی کی، بڑے بھائی کو تکلیف نہ دی۔ جل جلالہ! معاملاتِ قضا و قدر سے مجبور بشر ہے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۰

انسان کے قبضۂ قُدرت میں نفع ہے نہ ضرر ہے۔

مصرع : تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ

شعر :

اُنچہ نصیب است، بہم میر سد
در نستانہ، بہ ستم میر سد

جس وقت زاغِ شب نے بیضہ ہائے انجم آشیانۂ مغرب میں چھپائے اور صیادانِ سحر خِیز دام بر دُوش آئے اور سیمُرغِ زریں جناح، طِلا بال، غیرتِ لعلِ بدخشاں بہ صد عُطم و شاں قفسِ مشرق سے نکل کے گشنِ زنگاری میں جلوہ افروز ہوا، یعنی شب گُزری، رُوز ہوا؛ بڑا بھائی نیند سے جو چانکا، چھوٹے نے وہ کبابِ پس ماندۂ شب ، رات کے بچے رؤ بہ رؤ رکھے؛ وہ نُوش کر گیا، اور حال کچھ نہ کہا۔ دو گھڑی دن چڑھے جب لعل اُگلا، تب سمجھا: ہم نے بہت تدبیر کی، مگرسلطنت بڑے بھائی کی قسمت میں تھی۔ پھر وہ لعل بہ طریقِ نذر رؤ بہ رؤ لایا اور رات کا فسانہ مُفصل سب کہہ سُنایا، کہا: اللہ کی عنایت سے جلد آپ کو سلطنت کا حُصول ہو، یہ نذر غُلام کی قبول ہو۔ اُس کو اِس کی سعادت مندی سے خُرسندی حاصل ہوئی؛ پھر کہا: سامنے آبادی معلوم ہوتی ہے؛ ہم جا کر اِس لعل کی کسی دلال کے ہاتھ بیچ آئیں، تم گھوڑوں کے پاس رہو۔ اگر اپنے شہر چل کر یہ امر کریں گے؛ حاکم کا خوف مانِعِ کار ہو گا، مفلسی کے باعِث کس کو ہمار اِعتِبار ہو گا۔ یہ کہہ کر سِمتِ شہر چلا۔

جس دم شہر کے دروازے پر پہنچا، خلقت کا انبُوہ نظر پڑا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۱

اُس ملک کا یہ معمول تھا: جب وہاں کا بادشاہ دارُالسلطنتِ عدم کا تخت نشیں ہوتا وضیع و شریف شہر کے، سُوُم کی رسم کے بعد، وزیر اعظم کے ہمراہ صُبھ دم تخت لے کر دروازے پر آتے تھے؛ جو اُس روز پہلے مسافر باہر سے آتا، اُسے بادشاہ بناتے تھے۔ قضارا، وہاں کا بادشاہ قضا کر گیا تھا، لوگ تخت لیے مُنتظِر تھے، یہ داخل ہوا۔ سب نے تخت پر بِٹھا نذریں دیں۔ نوبت و نشان، جُلوش کا سب سامان موجود تھا، دھوم دھڑکے سے دیوانِ خاص میں داخل کیا۔ مُنادی ہوئی، بہ قولِ مشہور: اِ کی رائی دُہائی نزدیک و دور ہو گئی۔ اِس کو سُرورِ سلطنت اور احکامِ مملُکت کے باعِث اُس دن بھائی کا خیال نہ آیا۔ دوسرے روز جب تخت پر رونق افروز ہوا اور سامنے لعل آیا، تب بھائی کا خیال آیا۔ فوراً جاسوس، ہرکارے درخت کا پتا بتا روانہ کیے، کہا: اِس صورت کا جوان اور دو (۲) گھوڑے وہاں ہیں، جلد حُضور میں حاضر کرو۔

وہ سب دوپہر تک تمام جنگل کی خاک چھان، حیران و پریشاں پھر آئے، عرض کی: تمام دشت میں پِھر کر پاؤں تُوڑے، نہ آدمی ملا نہ گھوڑے۔ وہ کچھ رنجیدہ ہو سلطنت کے شُغل میں مشغول ہوا، بھائی بے چارے کو بھولے سے بھی کبھی یاد نہ کیا؛ مگر وہ لعل جسے بیچنے کو لایا تھا، جس کے بیعانے میں تخت و تاج مُیسر آیا تھا؛
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۲

فالِ مُبارک اور بے نشان بھائی کی نشانی سمجھ، ہر روز سرِ دربار لاتا، ملازموں کو دکھاتا۔ وہ سب بہ خاطرِ شاہ واہ واہ کہتے، یہ سن کر خوش رہتے۔

حکایتِ پُر شکایت چھوٹے بھائی کی، نقل سِپِہرے بے مہر کی کج ادائی کی۔ اُٹھا لے جانا جانور مُہیب کا، بدولتِ سوداگر کُنویں سے نکلنا اُس بلا نصیب کا۔ میرِ قافلہ کی بُرائی، شہ زادی تک رسائی، پھر تقدیر کی بھلائی۔

صیادانِ طائِرِ معانی، ذی ہوش و دام دارانِ بلبلِ خوش بیانی، خانہ بدُوش نے حال اُس مُنتظرِ زِیرِ درخت کا یہ لکھا ہے کہ ہمہ تن چشم محوِ انتظارِ برادرِ فراموس کار بیٹھا تھا؛ ناگہاں ایک جانورِ مُہیب، بہ شکلِ عجیب آیا اور پنجے میں داب کر اُڑا۔ گھوڑوں نے ڈر سے باگ ڈُور تُڑا کے جنگل کا رستہ لیا، کود بھاگے۔ اللہ کی قدرت دیکھیے بڑا بھائی سلطنت کا مالک ہوا، چھوٹا بِچارا موذی کے چنگُل میں پھنسا۔ وَاللہُ اَعلَم بِالصَواب وہ جانور وہاں سے کتنی دور اُڑا۔ آخر کار تھک کر، ایک درخت کُنویں کی جگت پر تھا، اُس پر جو بیٹھنے لگا، یہ پنجے سے چُھٹ کر چاہ میں ڈوبا۔ جامیؔ :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۳

فُغاں زین چرخِ دولابی کہ ہر روز (۱)
بچا ہے افگند ماہِ دل افروز

اِلا، رسنِ حیات مضبوط تھی؛ نہ گزند پنچے کی پہنچی، نہ چُوٹ چپِیٹ گرنے کی لگی۔ میر حسینؔ :

کُنواں وہ جو اندھا تھا، رُوشن ہوا
جواں اُس میں وہ، سانپ کا من ہوا (۲)

وہ جانور تو دم لے کر اُڑ گیا، یہ بے پر کُنویں پڑا رہا۔ اِتِفاقاً اُسی روز ایک قافلۂ گُم گشتہ راہ خستہ و تباہ سرِ چاہ پہنچا۔ کنواں دیکھ کر پانی کے لالچ سے وہاں قیام کیا۔ آدمی پانی بھرنے کنویں پر آئے۔ اِس بے چارے نے رسی کا سہارا جو پایا، اِس پھندے میں کنویں سے باہر آیا۔ جس نے اِ س کا چہرۂ رعنا مشاہدہ کیا، یا بُشری ھذا غلام کا غُل برپا کیا۔ دُنیا کے عجب معاملے ہیں۔ شعر :

روزی نگر کہ طوطیِ جانم سوی لبش
بربوی پستہ آمد و بر شکر اوفتاد

جب لوگ حال پوچھنے لگے؛ اِس نے جیسا موقع دیکھا، ویسا بیان کیا۔ غرض کہ میر قافلہ کی خدمت میں توقیر سے رہنے لگا۔ چند روز میں قافلہ منزلِ مقصود کو پہنچا اور مہینا بھی تمام ہوا؛ جوانِ غم دیدہ، بلا رسیدہ نے دوسرا لعل اُگلا۔ رئیسِ قافلہ دیکھ کے تمام ملا بھولا۔ پست ہمتی سے سوچا کہ ایسی گِراں بہا شے کا سہل لے لینا مشکل ہے، مبادا کچھ فساد اُتھے۔ وہ بد افعال اِس کا خون حلال سمجھا، بُرے کام کا مطلق نہ مآل سمجھا۔ جوان کو قید کر کے کُوتوال پاس بھیجا، کہا: یہ میرا غُلام ہے، آج اِس نے لعل چُرایا، کچھ ایسا وسوسۂ شیطانی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۴

دل میں آیا؛ میں نےآپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ اِسے سزا ملے، تا، لوگ ڈریں، عبر سے آیِندہ ایسی حرکت نہ کریں۔ کوتوال نے قاضی سے مسئلہ پوچھا۔ اُس نے بے تحقیق ہاتھ کاٹنے کا فتویٰ دیا؛ مگر اُس شہر کا چندے سے یہ دستور تھا: جب کسی شخص پر گُناہ ثابِت ہوتا، تو مُدعی اور مُدعا علیہ بادشاہ کی بیٹھی کے رؤ بہ رؤ حاضر ہوتے۔ اَظہار، حال کے بعدمُرافعۂ ثانی میں جو اُس کی رائے معدِلت پیرائے میں آتا، وہ ہوتا؛ اِس واسطے کہ بادشاہ مُسِن تھا، بیٹی کے سوا اور کوئی تخت و سلطنت کا وارِث نہ تھا۔ اللہ رے اُس کے جمال کا جلوہ اور حُسن کا غوغا! پری کو ہزار جان سے اُس کی پروا، حور اُس کی شیدا، خلقِ خُدا اُس مہ سیما پر نثار، آفتِ عصر، بلاے روزگار تھی۔ حُسنِ عالم فریب کے علاوہ طبعِ حلیم، رائے سلیک؛ نُکتہ فہم، دقیقہ رس، اپنے عصر کی حکیم۔ حقیقتہً قابلِ ریاست وہ صاحبِ فراست تھی۔ غُنچۂ خاطر اُس گُل اندام، چاسمیں پیکر ا رؤنا دیدۂ صبا تھا۔ ڈہنِ صدفِ مُراد تمنائے قطرۂ نیساں میں بند۔ کوچۂ عِصمت و عِفت میں اُس دُرِ ناسُفتۂ دُرجِ شہر یاری کے وہم و فکرِ تاج دارانِ دہر کا گُزر نہ ہوا تھا، اُس دم تک ناکتخُدا تھی۔

جس وقت وہ دونوں رؤ بہ رؤ ہوئے، پہلے شاہ زادی نے میرِ قافلہ سے پوچھا۔ اُس نے جو کچھ کُوتوال سے قیل و قال کیا تھا، وہی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۵

بے کم و کاست مُکرر عرض کیا۔ شہ زادی نے یہ مصرع برجستہ پڑھا، سعدیؔ :

باطِلست اُنچہ مدعی گوید (۱)

پھر جوان کی طرف مُخاطِب ہوئی۔ بس کہ یہ زیست سے تنگ، آمادۂ مرگ تھا، بے تامُل بولا: شہ زادی! آپ رُوشن ضمیر ہیں، ہم مصیبت زدوں کی طرح سلسلۂ بے جُرمی میں اسیر ہیں، یہ شخص سچا ہے۔ وہ تو عقیلہ تھی، زیادہ شک ہوا، دل سے کہا: آج تک کسی چُور نے حاکم کے رؤ بہ رؤ بجز انکارِ دست پُردی، دفعتہً اَقراِ دُزدی کیا نہیں۔ یہ بے گناہ ہے۔ تقریر اِس شاہد کی، شاہد ہے، خُدا گواہ ہے؛ کچھ اِ س میں بھید ہے۔ قافلہ باشی سے فرمایا: کل تو محکمے میں حاضر ہونا۔ جوان کو ڈیوڑھی پر قید کیا۔ یہ تو حسین، بلکہ مِہر طلعت، ماہ جبیں تھا طالِع کا ستارہ جو چمکا، شہ زادی کا میلانِ خاطِر جوان کی جانب ہوا۔ شب کو تنہا بُلا کے بہ دِل داری و تاسُف اِستِفسارِ حال فرمایا۔ اُس وقت جوان ناکردہ گناہ نے دل سے آہِ سرد بھر مشرؤحاً از آغاز تا انجام عرض کیا۔ شہ زادی کا دل، یہ نیا قصہ سُن کے، بہ مرتبۂ اتم مسرور ہوا۔ چوری کا شک اُس دُزدِ دل کی جانب سے دور ہوا۔

صُبح کو بادشاہ کے حُضور میں لا، خود دستِ ادب باندھ کر عرض کی: قبلۂ عالم و عالمیاں کی عُمر دراز ہو، قیصر و فغفؤر کی اِس در پر جبیں بہ نِیاز ہو! شہر کا قاضی اور کوتوال بے دریافتِ حقیقتِ حال
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۶

حُکمِ سزا بندہ ہائے خُدا کو دیتے ہیں، رُوزِ جزا کی جواب دِہی اپنی گردن پر لیتے ہیں غضب کی جا ہے، عجیب ماجرا ہے واجَبُ التعذیر، صاحِبِ تقصیر کو لعل ملے، بے گُناہ کا ہاتھ کٹے۔ بادشاہ نے پھر دونوں کی زبان سے حال سُنا۔ بہ سببِ کِبرِ سِن کہ عقل کو زوال ہوتا ہے، یہ وہ دن ہیں کہ نِسیان بہ مرتبۂ کمال ہوتا ہے؛ ذِہن نہ لڑا، تامُل کیا۔ شہ زادی نے اِلتِماس کیا: حُضور! یہ اِمتِحان بہت آسان ہے، ایک مہینے اور اِ س جوان کو قید رکھیے؛ اگر دوسرا اُگلا، تو سچا ہے؛ پھر ایسے دُر یتیمِ صدفِ راستی کو کیوں بے آب و تاب کیجیے، آبرو لیجیے؛ وگرنہ بہ ماہِ آیِندہ یہ بد کِردار دار کا سزا وار ہے، ہاتھ کاٹنے سے کیا ہاتھ آئے گا؟

بادشاہ کو سرِ دست جوابِ باصواب بیٹی کا بہت پسند آیا، حاضرین نے تحسین و آفریں کی۔ بادشاہ نے اپنی آنکھوں کے سامنے نظر بند کیا۔ میرِ قافلہ کو شہ زادی نے محبس بھیجا۔ قصہ کُوتاہ، وہ مہینا بھی تمام ہوا اور اَتنے دنوں میں شُعلۂ محبت ملمرِ سینۂ شہ زادی سے بھڑکنے لگا، دم پھڑکنے لگا، حال طشت از بام اُفتادہ ہُوا۔ جوان نے عرض کی: کل لعل اُگلوں گا۔ پھر صُبح کو سرِ دربار رؤ بہ رؤے حُضار لعلِ بے بہا دُرجِ وہاں سے نکالا۔ سب کو حیرت، شہ زادی کو فرحت و مسرت حاصل ہوئی۔ اُسی دم مال و اسباب قافلہ باسی کا جوان کو ملا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۷

اُسے تشہیر کر کے شہر سے بدر کیا۔ جوان کی صورتِ دل پذیر، فصاحتِ تقریر پسندِ خاطِرِ صغیر و کبیر تھی؛ بہ ایماے شہ زادی سب نے مُتفقُ اللفظ بادشاہ سے عرض کی کہ یہ شخص حضور کی عنایت کے لائق ہے تمنائے ملازمت رکھتا ہے، کفش برداری کا شائِق ہے۔ بادشاہ بھی اِس کی راست بازی سے خوش تھا، راضی ہوا۔ سعدیؔ :

راستی مؤجبِ رضای خدا ست (۱)
کس ندیدم کہ گم شد از رہ راست

چند عرصے میں مُقربِ بارگاہ سُلطانی، مورِدِ عِنایاتِ جہانبانی ہوا۔ ہر مہینے لعل اُگل کے حُضور میں لانے لگا۔ روز بہ روز ہم چشموں میں سُرخ رؤئی حاصل کر کے آبرو پانے لگا۔ آخِر کار، یہ مشورۂ مُلازمانِ قدیم و بہ تحریکِ حُکما و ندیم بادشاہ نے اُس گوہرِ مُسلمِ سِلکِ تاج داری کو بہ رشتہ عقد اُس لعلِ بے بہا کے مُنعقِد کیا۔ یہ دونوں مشتاق بہ صد اِشتیاقِ باہم، لطف کے ساتھ بے اندیشہ و غم، ایام گُزاری بڑی دھوم اور تیاری سے کرنے لگے؛ مگر ہر رُوز بِلا ناغہ جوان بادشاہ کے دربار میں حاضر رہتا تھا۔

ایک دن اِیلچی اِس کے بھائی کا کسی تقریب میں وارِد ہوا اور جواہِر کا ذِکر نکلا۔ ایلچی نے عرض کی: ہمارے بادشاہ کے پاش ایک لعل اِس رنگ، ڈھنگ، سنگ کا ہے کہ آج تک جوہریِ چرخ نے باوجودِ عینکِ مِہر و ماہ و گردِشِ شام و پگاہ، سال و ماہ میں، اُس کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۸

سنگ کا کیا، پاسنگ کے برابر نہیں دیکھا ہے۔ یہ کلمہ سُن کر، بادشاہ نے وہی لعل، جو سینۂ بے کینۂ جواں سے نکلے تھے، دس بارہ ایلچی کو دکھائے۔ وہ بھی جواہِر شناس تھا؛ سخت حیراں، تادِیر سر بہ گِرِیباں رہا، پھر عرض کی: قِبلۂ علام! عجب کی جا ہے کہ رنگ، روپ، وزن، نقسہ انِ کا اُس کا ایک سا ہے۔ اِتنا فرق مُقرر ہے کہ وہاں ایک ہے، یہاں ایک سے ایک بہتر و برتر ہے۔ بادشاہ نے جوان کی طرف اِشارہ کیا کہ یہ میرا فرزند ہر مہینے ایک لعل بے رنج و ملال تھوکتا ہے۔ ایلچی نے غور سے دیکھا، اپنے بادشا ہ سے مُشابِہ کیا، بعِینہ پایا۔ خیر، رُخصت ہوا۔

جب اپنے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا؛ اُس کا تو معمول تھا، جب تخت پر آ کر جلوہ گر ہوتا، وہ لعل پیشِ نظر ہوتا؛ ایلچی کو وہ سانِحہ یاد آیا، دست بستہ عرض کی: قِبلۂ عالم اِس لعل کہ جُدا کرتے نہیں، بے اِس کے قدمِ مبارک تخت پر دھرتے نہیں؛ اِ ن رُوزُوں خانہ زاد جس بادشاہ کے پاس بیا تھا، نیا ماجرا دیکھا: معدنِ لعل کہ وہ اِمکان نہیں، لیکن وہ جواہرِ بے قِیاس رکھتا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ وہ لعل کا پُتلا زندہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ بادشاہ نے اُس کا حال مُفصل پوچھا۔ اُس نے سب بیان کیا کہ داماد اُس شاہِ خُجستہ نِہاد کا ہر مہینے لعل اُگلتا ہے۔ اور کیا گُزارِش کروں، جیسے حُضور کی صورت ملتی ہے، حقیقی بھائی ایسے دکھائی نہیں دیے۔ یہ سُنتے ہی اُس کو یقین ہوا کہ اب پتا مِلا، مُقرر وہ میرا بھائی ہے۔ اُسی وقت نامہ شوقیہ اُس کانِ گُہر کے اِشتِیاقِ دید
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۸۹

میں بادشاہ کو لکھا کہ براے چندِے اگر اُس فرزندِ ارجُمند کر اِدھر روانہ کرو، محبتِ دِلیرینہ سے بعید نہ ہو۔ ہمیں شوقِ دیدار از حدِ تحریر و اِظہار افزوں ہے۔ اور پوشیدہ خطِ تمنا بھائی کو رقم کیا کہ آج تک تیری مُفارقت سے تختِ شاہی، بدتر از بُورِیاے گدائی تھا؛ اب اِیلچی سے یہ خبرِ فرحت اثر سُن کر دل کو سُرور، آنکھوں میں نور آیا؛ لازِم کہ بہ مۃبرد وُرؤدِ رقمیۂ وِداد اِدھر کو روانہ ہو۔ اور کچھ پتے حست و نسب کے، سانِحۂ شکار تفصیل وار قلمبند کر دیے۔ ایلچی سے فرمایا یہ نامہ علیٰ رُؤُسِ الاشھاد بادشاہ کو اور یہ خط خُفیہ اُس غیرتِ ماہ کو دینا۔

قاصدِ صبا دم، صر صر قدم جلد تر اُس شہر میں وارِد ہوا۔ بادشاہ کو نامہ دیا اور خط پوشیدہ جوان کو حوالے کیا۔ وہ مکتوبِ محبت دیکھ کر ایسا گھبرایا، یہ لہو نے جوش کھایا کہ اُسی دن رخصت کا ذِکر بادشاہ سے لایا۔ آخر وہ عاشقِ برادر، معشوقۂ روح پرور کو لے کر، جہاز پر سوار ہوا، تب اُس بے چین کو قرار ہوا۔ راہ میں ایلچی سے شہر کا نقشہ، راہ کا پتا، سب پوچھ لیا۔ فرطِ شوق سے دن رات سر گرمِ رفتار تھا۔ ساعت بھر مُقام کسی منزل کا ناگوار تھا کہ جلد پہنچیں، کہیں نہ ٹھہریں۔ نیرنگ زمانۂ کج سرشتِ بؤ قلمؤں کہ ہر دم و ہر ساعت دِگر گؤں ہے، کیا کہوں! جب دس بارہ کُوس وہ شہر رہا، جہاز تباہ ہو کے بہا۔ جس کی قضا تھی تہِ آب و گِردات رہا۔ جس کی بقا تھی بہ نکلا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۰

یہ قصۂ جاں گُداز دور دراز پہنچا، ان کے بھائی نے سُنا؛ فوراً ہزار سوار تیز رفتار دوڑائے کہ جس ڈوبتے اُچھلتے کا پتا پاؤ، جلد حُضور میں لے آؤ۔ آخر کار بہ ہزار جُستجُو و تگاپو، شہ زادیِ خو، ہاتھ آئی، جوان کی خبر نہ پائی۔ اُسے بادشاہ پاس حاضر کیا، جوان کے ڈوبنے کا حال کہہ دیا۔ بادشاہ بہ حالِ تباہ گردابِ فراق میں پھنسا۔ شہ زادی صف نشینِ ماتمل لُجہ و نطمۂ اندوہ و غم میں اُلجھی۔ جوان کا حال یہ کہ ہوا کہ تختے کے سہارے سے بہتا بہتا، پیاس کےصدمے، بھوک کے موجیں سہتا سہتا کئی دن میں کنارے پر پہنچا۔ فی الجُملہ، جب کچھ تاب و طاقت آئی، پوچھتا پوچھتا اُس شہر میں داخل ہوا۔ بادشاہ کو خبر پہنچی، رؤ بہ رؤ بلایا۔ بہ سببِ طولِ ایامِ مُہاجرت اور درازِیِ زمانۂ صُعوبت مُطلق نہ پہچانا۔ اُستاد :

اِتنی مدت میں ملا مجھ سے وہ دھوکا دے کر (۱)
یاد بھی جب مجھے اُس شوخ کی صورت نہ رہی

ہیئت تبدیل، خوار و ذلیل تھا۔ اس اِختِلاف کو دیکھیے: یہاں صحرا نووردی، بھوک پیاس، مصیبت؛ وہاں حُکم رانی، عیش و آرام و تخِت سلطنت۔ ناچار شہ زادی کو طلب کیا، اُسے بھی تامُل ہوا۔ وہ شخص بولا: پہر بھر کا عرصہ باقی ہے، آج لعل اُگلنے کا دن ہے، پھر تم سب پہچانو گے۔ بادشاہ کو یقین ہوا، کہا: اگر یہ جھوٹا ہوتا، تو ایک پہر کا وعدہ نہ کرتا۔ شہ زادی نے کہا: اُس شخص
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۱

کی طبیعت کی ضودت مشہور ہے، ایک معما پوچھتی ہوں؛ اگر بدیہ جواب دیا، تو بے شک شک رفع ہوا: بھلا وہ کیا شے ہے جسے گبرو مسلماں، یہود و نصاریٰ، سب انسان کا فرقہ آشکارا کھاتا ہے؛ مگرجب اس کا سر کاٹ ڈالو تو زہر ہو جائے، کوئی نہ کھائے اور جو غصے میں زیست سے خفا ہو کر کھائے تو فوراً مر جائے۔ جوان نے ہنس کر کہا: شہ زادی! "قسم" ہے۔ یہ کیا مُعما پوچھا ہے! وہ پھڑک گئی، وحشت مِٹی، دل کی بھڑک گئی، بے باکانہ چلمن اُٹھا، پروانے کی طرح اُس شمعِ بزمِ فرقت کے گرد پِھری۔

بادشاہ مُتعجِب ہوا کہ ہم تو کچھ نہ سمجھے، شہ زادی کیا سمجھ کر سامنے ہوئی۔ جوان نے عرض کی: قِبلہ! وہ چیز "قسم" ہے، تمام عالم کھاتا ہے، سِر اُس کا "قاف" ہے، اُسے کاٹو تو "سم" صاف ہے؛ "سم" زہر کو کہتے ہیں، کون کھاتا ہے؟ کھانے والا مر جاتا ہے۔ بادشاہ یہ سُن کر بغل گیر ہوا۔ اُس نے لعل اُگلا۔ شادِیانے بجے، بچھڑے ملے۔ اِس طرح جامعُ المُتفرقین سب بچھڑوں کی دؤری کا بکھیڑا مِٹائے۔ جو جس کا مشتاق ہو، جس کی جُدائی جسے شاق ہو، وہ اُس سے مل جائے۔

جوگی یہ رام کہانی تمام کر کے جانِ عالم سے کہا: بابا! شعر:

مشکلے نیست کہ آساں نشود
مرد باید کہ ہرا ساں نشود
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۲

جُویِندہ، یا بِندہ ہے۔ یہاں سے منزلِ دوست قریب ہے۔ سب کچھ معلوم ہے؛ اِلا، کہنا منع ہے، بُرا ہے۔ دُنیا مقام چُپ رہنے کا ہے۔ اتنا اس جگہ وقفہ کر کہ میری زیست کا ساغر بادۂ اجل سے لب ریز سے، سمندِ جاں کو نفسِ سرد مہمیز ہے؛ مجھے زیر زمیں سونپ تشریف لے جانا۔ اور چند وصیت کیں۔ جانِ عالم نے کہا: یہ قلق و رنج کس سے اُتھے گا! بیٹھے بِٹھائے یہ صدمہ کیوں کر دیکھا جائے گا! پتھر کا کلیجا کہاں سے ہاتھ آئے گا کہ ایسے دوستِ غم خوار کو اپنے جیتے جی زِیرِ خاک کیجیے، اُس کے ماتم میں گِرِیبانِ صبر چاک کیجیئے! یہ کہہ کر رُونے لگا، گریباں تا دامن بارِشِ اشک سے بھگونے لگا۔ جُوگی اس کی محبت کا بِرُوگی ہوا، کہا: افسوس! دمِ واپسیں کا عرصہ بہت کم، دم نہیں مار سکتے ہم: وگرنہ تیرے ہمراہ شریکِ درد و غم ہوتا۔ بھلا آخری، فقیر کا، اگر تجھ کو یاد یہ لٹکا رہے گا، سائیں چاہے تو کہیں نہ اٹکا رہے گا، قبر میں لے جا کر کیا کروں گا۔ پھر چند کلمے وہ بتائے کہ صورت کا دھیان لائے، فوراً ہو جائے۔

یہ مُقدمہ بتا، ہر ہر کر، گُرو کا نام لیا۔ پھر کلمہ جو پڑھا، دُنیا سے چل بسا، دم نکل گیا۔ جُوگی مسافرِ عدم، بیکنٹھ باشی رم گیا۔ جانِ عالم کا روتے روتے دم گیا، بے تابانہ نعرۂ الفِراق مارے۔ مُرید، چیلے جمع ہو کر "گُرو گُرو" "یا ہادی" کہہ کر بہت پکارے۔ بُولتا، نکل گیا، جوگی نے صدا نہ دی، منزلِ مقصد کی راہ لی۔ شہ زادے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۳

نے بہ مؤجب وصیت غُسل دیا، کفنایا؛ قبر تک لاتے لاتے کچھ نہ پایا۔ آخر کار برابر کفن پھاڑ دیا؛ آدھا چِیلوں نے جلایا، نصف مُریدوں نے منڈھی میں گاڑ دیا۔ ہندوؤں نے راکھ پر چھتری بنائی۔ مسلمانوں نے قبر بنا کے سبز چادر اُڑھائی۔ وہ تند مُندرا، سُبحہ و مُصلیٰ، خِرقہ و جُبہ اُس کے منظورِ نظر کو دے کر جانشیں کیا۔ مُرید، چِیلوں کا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں سونپا۔ اُسے ایک ولولہ آیا، از سرِ نو اُن سب کو یہ تلقین کیا، رازِ سر بستہ کھول کے ذہن نشین کیا کہ سُنو بچہ! گُو جوگی ظاہر میں آنکھوں سے نہاں ہے؛ مگر مُرشِد کا جلوہ، سائیں کا ظہورا ہر برگ و بار، بوٹے پتے، گُل و خار، بلکہ درِ مسجد و دیوارِ کُنشت سے دیدۂ دؤر بیں میں عیاں ہے۔ عارِ ف کا یہ کلام ہے، سعدیؔ :

برگِ درختانِ سبر در نظرِ ہشیار (۱)
ہر ورقے، دفتریست معرفتِ کردگار

دیدۂ بینا، گُوشِ شنوا اس رمز کو درکار ہے۔ ہر ذرے میں اُسی کا جھمکڑا ہے۔ نمونۂ قدرت، نشانِ وحدت دُنیاے بے ثبات کا نقش و نگار ہے۔ بلبل کے پردے میں ترانہ سنجی ہوتی ہے۔ قُمری کی کؤ کؤ مُتلاشی کی جان کُھوتی ہے۔ اُسی کے ذکر میں سر گرم ہے، جس کی زبان و منقار ہے۔ کسی کو حرمِ مُحترم میں نامحرم رکھا، بھٹکایا؛ کسی کو بیتُ الصنم میں بُلا کر جلوہ دکھایا۔ کعبے کا دھوکا، دیر کا بہانہ؛ دوڑا کر تھکانا ہے۔ اور جس نے من یشآءُ کو رہ بر کر کے ڈھونڈھا، اُس نے گھر بیٹھے پایا۔ امیر خسروؔ :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۴

جِن ڈھونڈھا، تِن پائیاں گہرے پانی پیٹھ (۱)
ہوں بوری ڈوبن ڈری، رہی کنارے بیٹھ

دُنیا کا مُعاملہ، مذہب و ملت کا جھگڑا، یہ اچھا وہ بُرا؛ پُر زِیاں، سراسر بے سود ہے۔ حق بے شک داتا ہر آن موجود ہے۔ رنج میں دل کو خوش، الم میں طبیعت کو شاد رکھو۔ وَحدَہ لَا شَرِیکَِ لَہ نِرنکار ہے۔ شرکت کرنے والا مُشرِک، حماقت شِعار ہے۔ مُرسل رہ بر ہیں، پوشیدہ راز سے ماہر ہیں؛ اُن کو رستگار جانو، بریدِ یار سمجھ کر مانو۔ مُرشِد کی ذات، گُرو کی صِفات ہر جلسے میں یاد رکھو۔ بؤد و نابؤد کا غم نہ ہو۔ اور احباب کا دل کہ حباب سے نازک تر ہے، خدا کا گھر ہے، آشُفتہ و برہم نہ ہو۔ اللہ بس باقی بے فائدہ ہوس۔ یہ کہہ کر قصہ مختصر کیا، بے خبروں کو باخبر کیا۔

جب اِس صُحبت سے جانِ عالم کو فرصت ملی، چلنے کا عزم کیا۔ اُس جانشیں مہنت نے رُوکا۔ اور دو چار دن خاطر سے مُقام کیا: پھر جس طرف جُوگی نے بتایا تھا، چل نکلا۔ پہاڑ سے جس دم آگے بڑھا، دریا ملا، ہر چند ڈھونڈھا؛ ناو، بیڑے کا تھل بیڑا نہ لگا؛ مگر لعلِ درخشاں بہ رؤے آبِِ رواں سامنے آیا۔ قریب اُس کے دوسرا نظر پڑا۔ اسی طرح تھوڑے تھوڑے فاصلے سے بہت لعل بہتے دیکھے۔ تازہ فکر ہوئی کہ اِس حال کو کیوں کر دریافت کیجیے۔ کنارے کنارے سیر دیکھتا چلا۔ دو (۲) کُوس راہ جب طے کی، عمارت عالی شان دیکھی، اور اُس چشمے کا اُس کے اندر سے رواں پایا۔ دروازے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۵

اور در کی بہت تلاش کی، تا اندر جانے کا باب مفتؤح ہو، نہ ہُوا۔ سواے دیوار، در نہ تھا۔ اُس وقت بلبل بن کر دیوار پر جا بیٹھا۔ مکان رفیعُ الشان، باغ بھی بہار کا؛ مگر سُنسان، انشان نہ حیوان، فقط ایک بنگلا نہایت نقش و نگار کا۔ وہ نہر اُسی بنگلے کے اندر سے جاری تھی۔ چمن خالی اور بادِ بہاری تھی۔ آدمی یا جانور ناطِق و مُطلق، مُطلق نہ تھا۔ باغ میں اُترل صورتِ قدیم بدل کر بنگلے میں آیا۔ مُنقش، مُطلا، سجا سجایا پایا؛ لیکن طُرفہ حال یہ دیکھا: ایک پلنگ زمُرد کے پایوں کا بچھا ہے، اُس پر کوئی دو شالہ تانے سُوتا ہے۔ برابر، یاقوت کی تِپائی پر پھولوں کا دستہ: آدھے سرخ، نِصف سپید۔ جانِ عالم قدم بڑھا دو شالہ سرکایا۔ وہ تنِ پری پیکر بے سر نظر آیا۔ حسرت سے کہا: کس ظالم، ستم شِعار، بے رحم، جفا کار نے اس سر دفترِ خوبی، سراسر دل بری و محبوبی کا سِر کاٹا ہے۔نخلِ شمشاد کو تبرِ ظلم سے چھانٹا ہے!

بہ حیرت ہر طرف دیکھتا تھا۔ چھت پر آنکھ پڑی: چھینکا بندھال سِر کٹا دھرا ہے۔ سِ کے نیچے نہر جاری ہے۔ جو خون کا قطرہ اُس حلقِ بُریدہ سے پانی میں گرتا ہے، اللہ کی قدرتِ کامِلہ سے وہ لعل ہو کر تِرتا ہے۔ اِس نے کہا: سُبحان اللہ! مُقرر یہ سِحر کا کارخانہ ہے۔ قریب جا کر غور سے جو دیکھا، تو انجمن آرا کا چہرہ تھا۔ پہچانتے ہی سر و تن کا ہوش نہ رہا۔ چاہا کہ سِر سے سِر ٹکرا کر ہم سر ہو، کسی کو نہ خبر ہو؛ بس کہ تجربے کار ہو چکا تھا، سُوچا:
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۶

مرنا ہر وقت ممکن ہے، پہلے حال مفصل معلوم کر لو، کہیں حوض کا سا دُھوکا نہ ہو۔ ہر چند غواصِ عقلِ رسا مُحیطِ فکر میں غُوطہ زن و آشنا ہوا؛ گوہرِ مقصد صدفِ مراد سے ہاتھ نہ لگا، مُعاملے سے ناآشنا رہا۔

اس عرصے میں شام نزدیک ہوئی، تُند ہوا چلی، شُور و غُل مچا۔ یہ سمجھا: اب کسی دِیو یا ساحر کی آمد ہے، چِھپا چاہیے۔ سرِ گُلدستہ، گُلبُن محبت کے رؤ بہ رؤ بھونرا بن کے بیٹھ رہا۔ دفعتہً دِیو آ پہنچا قوی ہیکل، زبؤں شمائل؛ مگر وحشی سا ہر سِمت بؤ سونگھنے لگا۔ پھر اُسی گُلدستے سے سفید پھول توڑا، اُس یاسمیں پیکر کو سُنگھایا؛ سِر اُچھل کر بدن سے مِلا، انجمن آرا اُٹھ بیٹھی۔ دِیو نے میوۂ تر و خُشک رؤ بہ رؤ رکھا؛ مگر پریشان، ہر سؤ مُتحیِر نگراں۔ شہ زادی نے کہا: خیر ہے؟ اُس نے کہا: آج غیر انسان کی بؤ آتی ہے اور تعجب یہ ہے خوف سے جان جاتی ہے۔ وہ کہنے لگی: ہمیں آج تک جانور کی پرچھائیں نہ نظر آئی، تو نے آدمی کی بؤ پائی۔ طُرفہ خبط ہے، یہ جُملہ بے ربط ہے۔ غرض کہ صبح تک مذکورِ ہر شہر و دِیار، عجائباتِ رُوزگار کا بیان رہا۔ دمِ سحر اُسی دستے سے سُرخ پھول اُس خوں آشام نے توڑ کر اُس لالہ فام کو سُنگھایا۔ سِر چھینکے پر سر بلند ہو، تن نے پلنگ پر آرام فرمایا۔ دِیو دوشالہ اُڑھا راہی ہوا۔

جانِ عالم نے چار گھڑی بہ جبر صبر کیا۔ پھر اپنی صورتِ اصلی بن کر، وہی سفید پھول توڑ کر سنگھایا۔ انجمن آرا بہ دستورِ اول اُٹھی،
 
Top