شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۱۴۵
ہو۔ کبھی کہتا تھا : واہ، قسمت کی خوبی! پہر بھر کا عرصہ ہوا، گھڑی نہیں ڈوبی! ہُوش کہاں بجا تھا، مُکرر پوچھتا: ابھی کیا بجا تھا؟ اُدھر انجمن آرا بھی جمائِیاں لیتی تھی، تکیے پر سِر دھر دیتی تھی۔ جب یہ بھی تدبیر بن نہ آتی تھی؛ لوگوں کے چونکانے کو اؤنگھ جاتی تھی۔
غرض کہ خُدا خُدا کر وہ دن تمام ہوا، نمؤد وقتِ شام ہوا۔ عرؤسِ شب نے مقنعۂ مہتاب سے رؤپوشی کی، مشتاقوں کو فرصت ملی گرم جُوشی کی۔ لوگ آنکھ بچا کر جا بہ جا کنارے ہوئے، دولھا دُلھن چھپر کھٹ میں ہم کِنار بے تابی کے مارے ہوئے۔ شادی کا رُوز، شباب کا عالم؛ مُشتاقوں کا بیٹھنا باہم۔ آنکھوں میں خُمار نیند کا، دل میں اِشتِیاق دید کا۔ عِطرِ سُہاگ اور فِتنے کی خوش بو۔ بُٹنے اور تِیل کی عجب مِیل کی مہک ہو سؤ۔ پھولوں سے پلنگ بسا، ادقمہ کسا۔ خود نشۂ عشق سے باختہ حواس، تمناے دل پاس، نہ کچھ دغدغہ نہ وسواس۔ ہنگامۂ صُحبت طرفین سے گرم؛ اُدھر شوق، اِدھر شرم۔ ایک طرف ولولۂ گرم جُوشی، ایک سِمت کثرتِ حیا سے مُنہ پر مُہرِ خموشی۔ بیان کرنا گُذشتہ حال کا، خیال لوگوں کی دیکھ بھال کا۔ یہ معمؤل ہے : اُس رُوز ہم سِنِیں تاکتی جھانکتی ہیں؛ لیکن اِن ڈروں پر چُپ نہ رہے، آہستہ آہستہ دونوں نے دُکھڑے کہے۔
جانِ عالم نے تُوتے سے ذِکر سُن کر در بہ در خراب خستہ ہو کر آنا، تُوتے کا بیٹھ رہنا، وزیر زادے کا صدمۂ فِراق سہنا؛ پھر
ہو۔ کبھی کہتا تھا : واہ، قسمت کی خوبی! پہر بھر کا عرصہ ہوا، گھڑی نہیں ڈوبی! ہُوش کہاں بجا تھا، مُکرر پوچھتا: ابھی کیا بجا تھا؟ اُدھر انجمن آرا بھی جمائِیاں لیتی تھی، تکیے پر سِر دھر دیتی تھی۔ جب یہ بھی تدبیر بن نہ آتی تھی؛ لوگوں کے چونکانے کو اؤنگھ جاتی تھی۔
غرض کہ خُدا خُدا کر وہ دن تمام ہوا، نمؤد وقتِ شام ہوا۔ عرؤسِ شب نے مقنعۂ مہتاب سے رؤپوشی کی، مشتاقوں کو فرصت ملی گرم جُوشی کی۔ لوگ آنکھ بچا کر جا بہ جا کنارے ہوئے، دولھا دُلھن چھپر کھٹ میں ہم کِنار بے تابی کے مارے ہوئے۔ شادی کا رُوز، شباب کا عالم؛ مُشتاقوں کا بیٹھنا باہم۔ آنکھوں میں خُمار نیند کا، دل میں اِشتِیاق دید کا۔ عِطرِ سُہاگ اور فِتنے کی خوش بو۔ بُٹنے اور تِیل کی عجب مِیل کی مہک ہو سؤ۔ پھولوں سے پلنگ بسا، ادقمہ کسا۔ خود نشۂ عشق سے باختہ حواس، تمناے دل پاس، نہ کچھ دغدغہ نہ وسواس۔ ہنگامۂ صُحبت طرفین سے گرم؛ اُدھر شوق، اِدھر شرم۔ ایک طرف ولولۂ گرم جُوشی، ایک سِمت کثرتِ حیا سے مُنہ پر مُہرِ خموشی۔ بیان کرنا گُذشتہ حال کا، خیال لوگوں کی دیکھ بھال کا۔ یہ معمؤل ہے : اُس رُوز ہم سِنِیں تاکتی جھانکتی ہیں؛ لیکن اِن ڈروں پر چُپ نہ رہے، آہستہ آہستہ دونوں نے دُکھڑے کہے۔
جانِ عالم نے تُوتے سے ذِکر سُن کر در بہ در خراب خستہ ہو کر آنا، تُوتے کا بیٹھ رہنا، وزیر زادے کا صدمۂ فِراق سہنا؛ پھر