محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
جگمگاتے تھے
فلک پر قسمتِ عالَم کے تارے جگمگاتے تھے
سراپا نور بن کر ذرے سارے جگمگاتے تھے
ستاروں کے لیے ارضِ مدینہ تھا فلک اس دن
مدینہ طیبہ کے سب کنارے جگمگاتے تھے
مسلسل غمزدہ تھا دل ، مگر اصحاب کے آگے
لبوں پر مسکراہٹ کے ستارے جگمگاتے تھے
بشر کے نور کو اس دم قمر نے ٹوٹ کر چاہا
زمیں پر جس کی انگلی کے اشارے جگمگاتے تھے
منور کس قدر وہ تھے کہ صحبت یافتہ ان کے
سدا بن کر ہدایت کے ستارے جگمگاتے تھے
اسامہ! مطمئن ہیں ہم صحابہ کی ہدایت پر
کہ ان کی زندگی میں تیس پارے جگمگاتے تھے
فلک پر قسمتِ عالَم کے تارے جگمگاتے تھے
سراپا نور بن کر ذرے سارے جگمگاتے تھے
ستاروں کے لیے ارضِ مدینہ تھا فلک اس دن
مدینہ طیبہ کے سب کنارے جگمگاتے تھے
مسلسل غمزدہ تھا دل ، مگر اصحاب کے آگے
لبوں پر مسکراہٹ کے ستارے جگمگاتے تھے
بشر کے نور کو اس دم قمر نے ٹوٹ کر چاہا
زمیں پر جس کی انگلی کے اشارے جگمگاتے تھے
منور کس قدر وہ تھے کہ صحبت یافتہ ان کے
سدا بن کر ہدایت کے ستارے جگمگاتے تھے
اسامہ! مطمئن ہیں ہم صحابہ کی ہدایت پر
کہ ان کی زندگی میں تیس پارے جگمگاتے تھے