قیصرانی
لائبریرین
کچھ عرصے سے سوچ رہا تھا کہ اپنی ڈرائیونگ اور دیگر ضروری صلاحیتوں جیسا کہ انتظامی صلاحیت، سٹیمنا، ارتکاز وغیرہ کا جائزہ لے سکوں کہ لانگ ڈرائیو ایک دن میں کتنی کر سکتا ہوں اور کتنے دن بلا کسی ریسٹ ڈے کے سفر ممکن ہوگا۔ پسِ منظر میں یہ سوچ تھی کہ ایک مرتبہ عثمان کے ساتھ کینیڈا کے مشرقی ساحل سے مغربی ساحل کا سفر کرنے کی بات چلی تھی۔ عثمان شاید یہ سفر کر چکے ہوں، مگر میرا پروگرام ابھی بھی زیر غور ہے۔ اسی طرح ایک کزن کا پروگرام ابھی بھی بن رہا ہے کہ برطانیہ سے پاکستان تک بائی روڈ سفر کیا جائے۔
اب تک میرا تجربہ ایک دن میں 1600 کلومیٹر کا تھا اور یہ بھی دیکھا تھا کہ تین ہزار کلومیٹر دو دن میں طے کرنا کافی تھکا دینے والا تجربہ رہا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ فن لینڈ، سوئیڈن اور ناروے میں اتنی مرتبہ سفر کر چکا ہوں کہ مناظر دلچسپی کا سبب نہیں بنتے، یا پھر یہ وجہ ہوگی کہ یہاں کا موسم نسبتاً شدید تر ہوتا ہے اور گرمیوں میں دن بہت طویل اور سردیوں میں روشنی بہت کم ہو جاتی تھی۔ دوسرا یہ بھی مسئلہ ہے کہ سردیوں میں جب سڑک پر برف جمی ہوئی ہو تو ڈرائیونگ کرتے ہوئے رفتار محدود ہو جاتی ہے اور زیادہ محتاط ہونا پڑتا ہے۔ فن لینڈ کے شمال میں جب آپ جاتے ہیں تو ڈرائیونگ کرتے ہوئے موسم، وقت اور جنگلی جانوروں سے خطرہ رہتا ہے۔ لیپ لینڈ میں رینڈیئر سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو سردیوں کے موسم میں سڑک پر یا اس کے پاس ریسٹ کرنا پسند کرتے ہیں اور رات کا وقت سولہ گھنٹے سے زیادہ بھی ہوتا ہے۔
سو پروگرام بنایا کہ فن لینڈ سے سپین تک کا چکر لگاؤں، اکیلے ہوتے ہوئے، تاکہ درست اندازہ ہو سکے کہ آیا یہ سفر حقیقت میں تھکا دے گا یا نہیں۔ سفر کے لیے دو راستے ممکن تھے، پہلا یہ فن لینڈ کے جنوب سے سوئیڈن تک کا سفر بحری جہاز سے کر کے سوئیڈن سے ڈنمارک اور پھر جرمنی کے راستے فرانس اور سپین جایا جائے۔ دوسرا آپشن بالٹک ممالک تھے، یعنی فن لینڈ سے بحری جہاز سے اسٹونیا، پھر آگے بائی روڈ لٹویا، لتھوانیا، پولینڈ کے راستے جایا جائے۔ پولینڈ سے آگے دو راستے ممکن تھے، ایک پولینڈ سے جرمنی اور پھر فرانس اور سپین، دوسرا راستہ پولینڈ سے چیک رپبلک اور پھر جرمنی اور سوئٹزرلینڈ سے ہو کر فرانس اور سپین۔
سفر کی تیاری کے حوالے سے دیکھا کہ پولینڈ کا مسئلہ تھا۔ میرا انٹرنیٹ فن لینڈ سے بالٹک ممالک تک کام کرتا تھا مگر پولینڈ پہنچ کر رومنگ چارجز شروع ہو جاتے۔ ٹام ٹام کے نیویگیٹر میں یہ مسئلہ تھا کہ وہ شمالی اور مغربی یورپ میں تو کام کرتا تھا مگر پولینڈ اس میں شامل نہیں تھا۔ پھر میں نے اپنے پرانے فون کے لیے ٹام ٹام کا پورے یورپ کا ایک سال کا نقشہ خرید لیا جو بیس یورو سے ایک سینٹ کم پڑا۔
میں نے پولینڈ والے راستے کو ترجیح دی تھی کہ جنوبی پولینڈ میں ایک دوست سے ملاقات مقصود تھی اور اس کے پاس موجود کتے کے بچوں کو دیکھنا اور ایک پسند کرنا تھا۔ اس کے بعد راستے کی چوائس مزید آسان ہو گئی کہ چیک رپبلک میں مارچ کا پورا مہینہ گاڑی کے لیے ونٹر ٹائر لازمی تھے۔ میرے پاس گاڑی میں سمر ٹائر تھے۔ جرمنی کا میں نے نبیل بھائی سے پوچھ لیا تھا کہ وہاں برفباری کے امکانات بہت کم تھے۔ اس لیے فن لینڈ سے روانگی کا وقت ایسا چنا جب برف نہ ہو۔ تیرہ تاریخ تک برف موجود تھی، مگر چودہ کو اتنی پگھل گئی کہ موٹروے بالکل صاف تھی اور بالٹک ممالک ویسے بھی برف سے صاف ہو چکے تھے۔
پندرہ کی صبح کو ساڑھے آٹھ بجے کے بعد گھر سے نکلا اور ہیلسنکی پہنچتے پہنچتے سوا دس بج گئے۔ ساڑھے گیارہ جہاز روانہ ہونا تھا۔ سو چیک ان کر کے گاڑی جہاز میں اور میں سیدھا برگر کنگ (فن لینڈ میں برگر کنگ کی چند ہی شاخیں ہیں اور اس بحری جہاز پر پہلی بار یہ دیکھا) پہنچا تاکہ ناشتہ کروں۔ ڈیڑھ بجے سے ذرا قبل جہاز ٹالِن Tallinn پہنچا۔ جہاز سے اتر کر بندرگاہ کے ساتھ ہی موجود مارکیٹ گیا تاکہ پینے کے لیے پانی اور جوس اور سافٹ ڈرنک لے سکوں اور ساتھ کھانے کے لیے چاکلیٹ وغیرہ۔ لانگ ڈرائیو کرتے ہوئے نمکین پستہ میرا فیورٹ ہے۔
ٹالِن سے دو بجے سے ذرا بعد میں روانہ ہوا اور اڑھائی گھنٹے میں اسٹونیا عبور کر کے لٹویا میں داخل ہوا اور وہاں ریگا سے کچھ قبل ایک جگہ رک کر گاڑی کا اور اپنا پیٹ بھی بھرا کہ وہاں مشہور فننش برگر چین ہیس برگر Hesburger موجود تھا۔ لٹویا میں یہ مزے کی بات ہے کہ ہائی ویز دو رویہ ہیں، یعنی ایک ہی سڑک پر بغیر پارٹیشن کے آنے جانے کی ایک ایک لین۔ عموماً یہاں لوگ ہارڈ شولڈر پر گاڑی چلاتے ہیں کہ آنے اور جانے والے کو اوور ٹیک میں سہولت رہے۔ اس کے بعد پھر روانہ ہوا اور ریگا Riga سے ہوتے ہوئے لگ بھگ ڈیڑھ یا پونے دو گھنٹے بعد لتھوانیا میں داخل ہوا۔ یہاں کاؤنس Kaunas کو پہلو پر چھوڑتے ہوئے میں لتھوانیا سے نکل کر پولینڈ میں گھسا (یہاں بارڈر کراسنگ پر پولیس کے ایک بندے گاڑی روکی اور صرف یہ پوچھا کہ گاڑی میں اور کون کون ہے اور ساتھ ٹارچ کی روشنی میں دیکھ بھی لیا کہ اور کوئی نہیں) اور وہاں نصف شب ہو رہی تھی۔ پولینڈ میں لتھوانیا سے داخل ہوتے ہی چند بہت تنگ موڑ آتے ہیں اور چونکہ اس سے پیچھے کافی سیدھی سڑکیں ہیں تو ناواقف بندہ کنفیوذ ہو جاتا ہے۔ پولینڈ کی سرحد سے تھوڑا آگے نکل کر آگستوو Augustow میں ہوٹل پہنچا اور شاور لینے کے بعد ای میلز اور دیگر میسنجر چیک کر کے سو گیا اور رات وہاں بسر کی۔
صبح اٹھا، شاور لے کر ناشتہ کیا (علی الصبح ناشتہ کرنا میرے لیے بہت مشکل ہوتا ہے) اور پھر روانہ ہوا اور اس سارے سفر کا ڈراؤنا خواب، وارسا Warsaw سے گزرنا تھا۔ پولینڈ کو عبور کرنے کے لیے وارسا سے گزرنا لازم ہے اور اگر ٹریفک رواں رہے تو ایک گھنٹے میں یہ شہر عبور ہو جاتا ہے اور اگر ٹریفک جام ہونا شروع ہو تو پورا دن بھی لگ سکتا ہے۔ آگستوو سے اچھی سڑکیں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہاں ایک بزرگ سے شخص نے بہت پرانی فیاٹ پر بہت ٹف ٹائم دیا۔ اس کا شوق یا جنون تھا کہ جو بھی گاڑی اس کے سامنے ہو، اسے اوورٹیک کرنا لازمی ہے اور اوورٹیک کرتے ہوئے چاہے جتنی سپیڈ ہو جائے، پھر سامنے آ کر نارمل رفتار پر آ جاتے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق پولش ڈرائیورز کا یہ عجیب مگر عمومی مسئلہ ہے کہ اگر انہیں ذرا سا بھی شک ہو جائے کہ ان کی گاڑی ان کے سامنے والی گاڑی سے معمولی سی بھی بہتر ہو، یا ان کی ڈرائیونگ کی صلاحیت بہتر ہے یا کچھ بھی، وہ موقع ہو یا نہ ہو، اوورٹیک کرتا ہے۔ پورے یورپ میں میں جتنے بھی ممالک کا سفر کر چکا ہوں، پولش ڈرائیوروں کو بدترین پایا ہے۔
وارسا سے نکل کر میں کاتووچ Katowice پہنچا اور دوست کے گھر کی تلاش کافی مشکل نکلی کہ اس کا گھر کسی نئی لوکیشن پر تھا اور وہ جی پی ایس پر نہیں. کوآرڈینیٹ مل گئے مگر وہ میرے فون کے لیے بیکار تھے۔ خیر دوست کے گھر پوچھ تاچھ کر پہنچ گیا تو وہ لوگ گھر سے باہر تھے۔ کچھ دیر بعد آئے اور پہلی فیس ٹو فیس ملاقات ہوئی۔ کافی خوبصورت پیسٹریاں انہوں نے پیش کیں مگر ذائقہ اتنا اچھا نہیں نکلا۔ کافی البتہ مزے کی تھی۔ پھر پپ کو دیکھنے اور اس سے کچھ دیر کھیلنے کے بعد ان لوگوں کے ساتھ نزدیکی شہر کاتووچ (یہ لوگ مضافات میں تھے) میں شاپنگ سینٹر گیا اور کتے کی ایڈوانس پیمنٹ کے 300 یورو کے لگ بھگ پولش زلاٹ نکلوا کر دیے اور پھر ان سے پوچھا کہ یہاں سے جرمنی جانے کے لیے کون سا روٹ بہتر ہے۔ وہ لوگ بالکل کچھ نہیں بتا سکے۔ سو فون چلایا اور روانہ ہو گیا۔
اس شہر سے موٹر وے بہت اچھی بنی ہوئی تھی اور بغیر ٹال ٹیکس کے جرمنی تک جاتی ہے۔ ساڑھے چار یا پانچ بجے شہر سے نکلا اور ورسبرگ Wirsbergپہنچتے پہنچے رات کے تین بج گئے۔ وہاں ہوٹل کافی پیچیدہ جگہ پر تھا کہ ہائی وے سے نکل کر ایک گاؤں سے ہوتے ہوئے پہاڑی پر سے گھوم کر ہوٹل تک پہنچنا تھا۔ وہاں پہنچ کر فون کیا تو ہوٹل کی بزرگ مالکن فوراً آ گئی اور اس نے فر فر جرمنی میں ساری معلومات بتا دیں کہ گاڑی کہاں رکھنی ہے، کمرہ کون سا ہے، کون سا دروازہ کس چابی سے کھلے گا اور وغیرہ وغیرہ۔ جرمن لوگوں کو میں نے ہمیشہ انتہائی ملنسار اور خوش مزاج پایا ہے۔ پھر اس نے پاسپورٹ یا کچھ اور چیک کیے بنا مجھے چابی پکڑائی اور سونے چلی گئی۔ میں نے گاڑی پارکنگ میں لا کر رکھی اور سامان نکال کر کمرے میں رکھا اور شاور لے کر سو گیا۔ صبح اٹھا اور درجہ حرارت منفی میں تھا، سو بعجلت شاور لے کر ناشتے کی تلاش میں نکلا اور گراؤنڈ فلور پر پہنچ کر ناشتہ کیا۔ اس جگہ عجیب سا رواج تھا کہ ہر ٹیبل پر وہ کافی پاٹ الگ سے لا کر رکھتے تھے جو محض دو کپ کافی رکھتا ہوگا۔ پیٹ بھرنے کے بعد چیک آؤٹ کرنے پہنچا تو بزرگ خاتون نے چابی لی اور میں نے پیمنٹ کر دی۔ پھر میں نے پاسپورٹ لہرایا کہ کیا یہ نہیں دیکھنا؟ اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا کہ جاؤ۔ بہت دوستانہ رویہ محسوس ہوا۔ ویسے بھی چھوٹا سا شاید فیملی اونڈ ہوٹل تھا۔ روانہ ہونے سے پہلے میں نے اے ٹی ایم کا چکر لگایا تاکہ کچھ کیش نکلوا سکوں۔ میرا خیال تھا کہ شاید جرمنی سے ٹال ٹیکس شروع ہو جائے گا۔ بہرحال نکلا تو فون کے جی پی ایس نے ہاتھ کھڑے کر لیے کہ اب کیا کرنا ہے۔ تقریباً دو گھنٹے اِدھر اُدھر گھوم پھر کر میں نے ایک جگہ ہائی وے کے کنارے پیٹرول بھروایا اور ہائی وے پر پہنچ گیا۔ پھر سفر آسان تھا۔ تاہم راستے میں دو جگہ سڑک کی تعمیر کا کام ہو رہا تھا تو لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ ضائع ہو گیا۔
تاہم جرمنی میں ڈرائیونگ سچ مچ بہت خوبصورت تجربہ تھا۔ مناظر بہت اچھے تھے اور پہاڑی بھی۔ لوگ بھی تمیز دار طریقے سے گاڑی چلا رہے تھے۔ یہیں ایک جگہ میری رفتار 170 سے زیادہ تھی جب مجھے ایک چھوٹی سی فیاٹ نے اوورٹیک کیا اور وہ گاڑی مجھے دوبارہ دکھائی نہیں دی۔ جب پیٹرول ختم ہونے لگا تو میں نے پیٹ پوجا کا سوچا اور ایک گیس سٹیشن پر رکا اور وہاں پیٹرول بھرنے کے علاوہ فش اینڈ چپس بھی کھائے۔ تاہم اس میں نصف گھنٹہ لگ گیا۔ پھر کاونٹر سے پوچھا کہ لیون یہاں سے کتنا دور ہوگا، تو علم ہوا کہ فرانس کی سرحد آنے والی ہے۔ جرمنی کی سڑکوں کی حالت، گاڑیوں کی کنڈیشن اور لوگوں کا تہذیب یافتہ ہونا بہت خوبصورت لگا۔
پھر فرانس میں داخل ہوتے ہی دیکھا کہ سڑک کے ایک طرف کچھ سیاہ فام افراد کو پولیس نے روکا ہوا ہے اور ان کی تلاشی جاری تھی۔ یہی سڑک سیدھا چلتے ہوئے آگے جا کر پیرس کو جاتی تھی۔ مگر میرا راستہ آگے چل کر بدل گیا۔ فرانس میں سڑکیں کافی اونچے پہاڑوں سے گزر رہی تھیں اور اتنی خوبصورت اور دیکھ بھال کی گئی تھیں کہ ڈرائیونگ میں سچ مچ لطف آیا۔ نصف فرانس پر پہنچ کر تھکن کا احساس ہوا اور ایک جگہ نصف گھنٹہ آرام کرنے رکا۔ اس کے بعد پھر روانہ ہوا کئی جگہ ٹال ٹیکس ادا کرتا ہوا فرانس سے نکل کر رات گئے سپین کی سرحد پر پہنچا اور اسے عبور کر کے گیرونا Girona پہنچا۔
یہاں ہوٹل شہر کے عین وسط میں تھا اور کچھ دقت سے جا کر ملا۔ مگر ہوٹل چیک ان کیا۔ وہاں کاؤنٹر پر جو بندہ تھا، اسے دیکھتے ہی ڈان کہوتے (پنجابی والا کھوتے نہیں، بلکہ مستنصر حسین تارڑ والا کہوتے) یاد آیا۔ خیر شاور لیتے ہی سو گیا۔ صبح اٹھا اور ناشتہ کر کے نکلا۔ سپین میرے لیے انتہائی حیران کن ملک ثابت ہوا کہ میرا خیال تھا کہ یہاں سارا ملک صحرائی ہوگا اور ہر طرف خاک اڑتی ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔ مستنصر حسین تارڑ کا ناول اندلس میں اجنبی جو کئی مرتبہ پڑھ چکا تھا، وہ بھی یاد نہ رہا۔ سب سے پہلے تو نکلتے ہی ایسا لگا کہ جیسے میں شمال کو جا رہا ہوں۔ سامنے اونچے برف پوش پہاڑ تھے۔ گیرونا سے نکلتے ہی دائیں جانب پہاڑ پر موجود درختوں کو دیکھ کر بے ساختہ مجھے ماسٹر آف جن کی یاد آئی کہ کچھ عرصہ قبل ہی اس کا ترجمہ مکمل کر کے اِرونگ کارچمر کو بھجوایا تھا۔ ایسا لگا کہ جیسے جِنّستان کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔
یہاں بھی سڑکیں شاندار تھیں مگر جگہ جگہ ٹال ٹیکس سے واسطہ پڑتا تھا۔ مایوسی اس بات پر ہوئی کہ بعض جگہ صرف کریڈٹ کارڈ چلتا تھا، بعض جگہ نوٹ اور بعض جگہ محض سکے۔ بعض جگہ ان تین میں سے دو طریقے۔ ایک جگہ تو کچھ بھی کام نہ آیا اور وہاں ایک ورکر سے پوچھا اور اس نے مجھ سے دس یورو لے کر کہا کہ نو چینج، اور مجھے پار کرا دیا۔ تین جگہ فون نے ایسا دھوکہ دیا کہ پچاس کلومیٹر ایک سمت میں جانے کے بعد واپس بلایا اور پھر واپس اسی روٹ پر بھجوا دیا۔ سفر کا یہ والا حصہ ہزار کلومیٹر کے لگ بھگ اور سب سے مختصر ہوتے ہوئے بھی مختصر نہ رہا۔ ایک جگہ رک کر ہلکا سا کھانا کھایا اور سفر جاری۔ سپین کے شروع میں میدانی علاقہ تھا۔ پھر نیم پہاڑی علاقہ آیا اور ایک طرف اونچے نیچے پہاڑ اور دوسری جانب سمندر۔ آگے چل کر انگوروں کی بیلیں شروع ہو گئیں جو میدانی علاقہ تھا۔ اسے شاید صحرا کہہ سکتے ہیں۔ بہت اچھی موٹر ویز تھیں اور ٹریفک بہت کم۔ بہت جگہوں پر مجھے ایسے لگا کہ جیسے بلوچستان کے پہاڑ ہوں۔ ایک جگہ ایک دلچسپ واقعہ ہوا کہ میرے پیچھے ایک سفید مرسیڈیز جیپ تھی جو شاید 40 یا 45 منٹ اسی طرح مجھ سے کافی فاصے پر چلتی رہی۔ تاحدِ نگاہ یہی دو گاڑیاں تھیں۔ ایک مرتبہ اس گاڑی نے اوورٹیک کرنے کا فیصلہ کیا اور مجھ سے دو یا تین سو گز پیچھے ہی اس نے لین چینج کرنے کا سوچا۔ میں بیک ویو مرر میں دیکھ رہا تھا کہ عین اسی وقت ایک اور گاڑی اسے اوورٹیک کر رہی تھی۔ شاید انچز میں دونوں گاڑیوں کا ٹکراؤ بچا۔ مرسیڈیز کی پوری گاڑی واقعتاً ہل کر رہ گئی اور واپس پھر اگلے ایک گھنٹے تک اسی رفتار پر چلتی رہی۔
بہت طویل فاصلے تک پہلے انگوروں کی بیلیں اور بریوریز گزرتی رہیں۔ پھر بہت طویل فاصلہ مالٹے وغیرہ جیسے سٹرس فروٹ کے باغات چلتے رہے۔ پھر اس کے بعد زیتون کے باغات شروع ہو گئے جو پہاڑیوں پر بہت دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے افریقی بچیوں کے سر پر مینڈھیاں سی گوندھی ہوئی ہوتی ہیں، ویسے منظر لگ رہا تھا۔ دوست کا فون آیا کہ کہاں تک پہنچے، تو میں نے اسے بتایا کہ میں گراناڈا Granada جو کہ شاید غرناطہ کہلاتا تھا، سے گزر چکا ہوں۔ اس نے سفر بخیر کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ اس دوست سے دراصل طے ہوا تھا کہ میں سفر کس روٹ پر کر رہا ہوں اور جب ہوٹل پہنچتا تو اسے اطلاع دے دیتا کہ یہاں تک کا سفر ہو گیا ہے۔ دوست کی رہائش فوئینگیرولا Fuengirola میں ہی ہے۔ مغرب کے قریب مناظر انتہائی خوبصورت تھے، اونچے پہاڑ، اونچی چڑھائی اور اچانک اترائی اور پُر پیچ سڑکیں مگر ایک سو سے ایک سو بیس کی عمومی رفتار۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مناظر بہت خوبصورت ہوں تو میں رفتار کم کر لیتا ہوں۔ مگر یہاں ٹریفک اتنی زیادہ ہو چکی تھی کہ ایسا ممکن نہیں تھا۔
دوست نے سکائپ پر پتہ بھیج دیا جہاں اس نے میرے لیے ہوٹل بک کرایا تھا۔ وہاں پہنچا تو وہ بیچارہ پہلے ہی ہوٹل کے باہر منتظر تھا کہ ہوٹل کے باہر پارکنگ نہیں تھی اور تھوڑا دور جا کر گاڑی پارک کی۔ ہلکی پھلکی گپ شپ، ہوٹل میں چیک ان وغیرہ اور اس کے بعد دوست گھر چلا گیا اور میں شاور لے کر نے ہوٹل سے باہر کی راہ لی اور دو یا تین سو گز دور ایک پاکستانی ریستوران جا ڈھونڈا۔ اچھا مناسب کھانا تھا اور کھا پی کر میں نے ساحل کی راہ لی کہ ریستوران ساحل سے بالکل قریب ہی تھا اور کچھ مٹرگشت کرنے کے بعد واپس ہوٹل واپس آیا۔ ہوٹل کی ریسپشن والا بندہ روسی تھا مگر چند الفاظ فننش کے بھی بول لیتا تھا۔ اس سے کچھ دیر گپ شپ کی اور پھر سونے چلا گیا۔
اس سارے ٹرپ میں فن لینڈ سے اسٹونیا تک بحری جہاز کا سفر بمع کار، تمام تر پیٹرول کے اخراجات، ہوٹل کے اخراجات اور کھانا پینا وغیرہ ملا کر لگ بھگ 800 یورو خرچ ہوا۔ اس میں تین رات تین مختلف ہوٹلوں میں قیام بھی شامل ہے۔ فن لینڈ میں پیٹرول کی قیمت لگ بھگ ڈیڑھ یورو فی لیٹر تھی، اسٹونیا میں سوا یورو، لٹویا اور لتھوانیا میں ایک یورو سے ذرا کم، پولینڈ میں یورو سے ذرا سا زیادہ اور جرمنی میں سوا سے ڈیڑھ یورو اور فرانس اور سپین میں بھی لگ بھگ یہی قیمت تھی۔ کل سفر ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر سے ذرا سا کم بنا اور ساڑھے تین روز میں تمام ہوا۔
سفر کی تصاویر کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں آئیں کہ زیادہ تر چلتی گاڑی سے لی گئی تھیں۔ مگر جو ہیں، اسی پر گزارا کیجیے۔ اگر کوئی سوال پیدا ہوں تو بلاجھجھک پوچھ سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کوئی بات ایسی ہو کہ وہ میری یاداشت میں سو فیصد درست نہ ہو، مگر بات کر کے واضح کر سکتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اگر کوئی دوست اس روٹ پر یا اس کے کچھ حصے پر سفر کرنا چاہے تو اسے مدد مل سکے۔ تصاویر شاید کل سے لگنا شروع ہوں
اب تک میرا تجربہ ایک دن میں 1600 کلومیٹر کا تھا اور یہ بھی دیکھا تھا کہ تین ہزار کلومیٹر دو دن میں طے کرنا کافی تھکا دینے والا تجربہ رہا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ فن لینڈ، سوئیڈن اور ناروے میں اتنی مرتبہ سفر کر چکا ہوں کہ مناظر دلچسپی کا سبب نہیں بنتے، یا پھر یہ وجہ ہوگی کہ یہاں کا موسم نسبتاً شدید تر ہوتا ہے اور گرمیوں میں دن بہت طویل اور سردیوں میں روشنی بہت کم ہو جاتی تھی۔ دوسرا یہ بھی مسئلہ ہے کہ سردیوں میں جب سڑک پر برف جمی ہوئی ہو تو ڈرائیونگ کرتے ہوئے رفتار محدود ہو جاتی ہے اور زیادہ محتاط ہونا پڑتا ہے۔ فن لینڈ کے شمال میں جب آپ جاتے ہیں تو ڈرائیونگ کرتے ہوئے موسم، وقت اور جنگلی جانوروں سے خطرہ رہتا ہے۔ لیپ لینڈ میں رینڈیئر سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو سردیوں کے موسم میں سڑک پر یا اس کے پاس ریسٹ کرنا پسند کرتے ہیں اور رات کا وقت سولہ گھنٹے سے زیادہ بھی ہوتا ہے۔
سو پروگرام بنایا کہ فن لینڈ سے سپین تک کا چکر لگاؤں، اکیلے ہوتے ہوئے، تاکہ درست اندازہ ہو سکے کہ آیا یہ سفر حقیقت میں تھکا دے گا یا نہیں۔ سفر کے لیے دو راستے ممکن تھے، پہلا یہ فن لینڈ کے جنوب سے سوئیڈن تک کا سفر بحری جہاز سے کر کے سوئیڈن سے ڈنمارک اور پھر جرمنی کے راستے فرانس اور سپین جایا جائے۔ دوسرا آپشن بالٹک ممالک تھے، یعنی فن لینڈ سے بحری جہاز سے اسٹونیا، پھر آگے بائی روڈ لٹویا، لتھوانیا، پولینڈ کے راستے جایا جائے۔ پولینڈ سے آگے دو راستے ممکن تھے، ایک پولینڈ سے جرمنی اور پھر فرانس اور سپین، دوسرا راستہ پولینڈ سے چیک رپبلک اور پھر جرمنی اور سوئٹزرلینڈ سے ہو کر فرانس اور سپین۔
سفر کی تیاری کے حوالے سے دیکھا کہ پولینڈ کا مسئلہ تھا۔ میرا انٹرنیٹ فن لینڈ سے بالٹک ممالک تک کام کرتا تھا مگر پولینڈ پہنچ کر رومنگ چارجز شروع ہو جاتے۔ ٹام ٹام کے نیویگیٹر میں یہ مسئلہ تھا کہ وہ شمالی اور مغربی یورپ میں تو کام کرتا تھا مگر پولینڈ اس میں شامل نہیں تھا۔ پھر میں نے اپنے پرانے فون کے لیے ٹام ٹام کا پورے یورپ کا ایک سال کا نقشہ خرید لیا جو بیس یورو سے ایک سینٹ کم پڑا۔
میں نے پولینڈ والے راستے کو ترجیح دی تھی کہ جنوبی پولینڈ میں ایک دوست سے ملاقات مقصود تھی اور اس کے پاس موجود کتے کے بچوں کو دیکھنا اور ایک پسند کرنا تھا۔ اس کے بعد راستے کی چوائس مزید آسان ہو گئی کہ چیک رپبلک میں مارچ کا پورا مہینہ گاڑی کے لیے ونٹر ٹائر لازمی تھے۔ میرے پاس گاڑی میں سمر ٹائر تھے۔ جرمنی کا میں نے نبیل بھائی سے پوچھ لیا تھا کہ وہاں برفباری کے امکانات بہت کم تھے۔ اس لیے فن لینڈ سے روانگی کا وقت ایسا چنا جب برف نہ ہو۔ تیرہ تاریخ تک برف موجود تھی، مگر چودہ کو اتنی پگھل گئی کہ موٹروے بالکل صاف تھی اور بالٹک ممالک ویسے بھی برف سے صاف ہو چکے تھے۔
پندرہ کی صبح کو ساڑھے آٹھ بجے کے بعد گھر سے نکلا اور ہیلسنکی پہنچتے پہنچتے سوا دس بج گئے۔ ساڑھے گیارہ جہاز روانہ ہونا تھا۔ سو چیک ان کر کے گاڑی جہاز میں اور میں سیدھا برگر کنگ (فن لینڈ میں برگر کنگ کی چند ہی شاخیں ہیں اور اس بحری جہاز پر پہلی بار یہ دیکھا) پہنچا تاکہ ناشتہ کروں۔ ڈیڑھ بجے سے ذرا قبل جہاز ٹالِن Tallinn پہنچا۔ جہاز سے اتر کر بندرگاہ کے ساتھ ہی موجود مارکیٹ گیا تاکہ پینے کے لیے پانی اور جوس اور سافٹ ڈرنک لے سکوں اور ساتھ کھانے کے لیے چاکلیٹ وغیرہ۔ لانگ ڈرائیو کرتے ہوئے نمکین پستہ میرا فیورٹ ہے۔
ٹالِن سے دو بجے سے ذرا بعد میں روانہ ہوا اور اڑھائی گھنٹے میں اسٹونیا عبور کر کے لٹویا میں داخل ہوا اور وہاں ریگا سے کچھ قبل ایک جگہ رک کر گاڑی کا اور اپنا پیٹ بھی بھرا کہ وہاں مشہور فننش برگر چین ہیس برگر Hesburger موجود تھا۔ لٹویا میں یہ مزے کی بات ہے کہ ہائی ویز دو رویہ ہیں، یعنی ایک ہی سڑک پر بغیر پارٹیشن کے آنے جانے کی ایک ایک لین۔ عموماً یہاں لوگ ہارڈ شولڈر پر گاڑی چلاتے ہیں کہ آنے اور جانے والے کو اوور ٹیک میں سہولت رہے۔ اس کے بعد پھر روانہ ہوا اور ریگا Riga سے ہوتے ہوئے لگ بھگ ڈیڑھ یا پونے دو گھنٹے بعد لتھوانیا میں داخل ہوا۔ یہاں کاؤنس Kaunas کو پہلو پر چھوڑتے ہوئے میں لتھوانیا سے نکل کر پولینڈ میں گھسا (یہاں بارڈر کراسنگ پر پولیس کے ایک بندے گاڑی روکی اور صرف یہ پوچھا کہ گاڑی میں اور کون کون ہے اور ساتھ ٹارچ کی روشنی میں دیکھ بھی لیا کہ اور کوئی نہیں) اور وہاں نصف شب ہو رہی تھی۔ پولینڈ میں لتھوانیا سے داخل ہوتے ہی چند بہت تنگ موڑ آتے ہیں اور چونکہ اس سے پیچھے کافی سیدھی سڑکیں ہیں تو ناواقف بندہ کنفیوذ ہو جاتا ہے۔ پولینڈ کی سرحد سے تھوڑا آگے نکل کر آگستوو Augustow میں ہوٹل پہنچا اور شاور لینے کے بعد ای میلز اور دیگر میسنجر چیک کر کے سو گیا اور رات وہاں بسر کی۔
صبح اٹھا، شاور لے کر ناشتہ کیا (علی الصبح ناشتہ کرنا میرے لیے بہت مشکل ہوتا ہے) اور پھر روانہ ہوا اور اس سارے سفر کا ڈراؤنا خواب، وارسا Warsaw سے گزرنا تھا۔ پولینڈ کو عبور کرنے کے لیے وارسا سے گزرنا لازم ہے اور اگر ٹریفک رواں رہے تو ایک گھنٹے میں یہ شہر عبور ہو جاتا ہے اور اگر ٹریفک جام ہونا شروع ہو تو پورا دن بھی لگ سکتا ہے۔ آگستوو سے اچھی سڑکیں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہاں ایک بزرگ سے شخص نے بہت پرانی فیاٹ پر بہت ٹف ٹائم دیا۔ اس کا شوق یا جنون تھا کہ جو بھی گاڑی اس کے سامنے ہو، اسے اوورٹیک کرنا لازمی ہے اور اوورٹیک کرتے ہوئے چاہے جتنی سپیڈ ہو جائے، پھر سامنے آ کر نارمل رفتار پر آ جاتے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق پولش ڈرائیورز کا یہ عجیب مگر عمومی مسئلہ ہے کہ اگر انہیں ذرا سا بھی شک ہو جائے کہ ان کی گاڑی ان کے سامنے والی گاڑی سے معمولی سی بھی بہتر ہو، یا ان کی ڈرائیونگ کی صلاحیت بہتر ہے یا کچھ بھی، وہ موقع ہو یا نہ ہو، اوورٹیک کرتا ہے۔ پورے یورپ میں میں جتنے بھی ممالک کا سفر کر چکا ہوں، پولش ڈرائیوروں کو بدترین پایا ہے۔
وارسا سے نکل کر میں کاتووچ Katowice پہنچا اور دوست کے گھر کی تلاش کافی مشکل نکلی کہ اس کا گھر کسی نئی لوکیشن پر تھا اور وہ جی پی ایس پر نہیں. کوآرڈینیٹ مل گئے مگر وہ میرے فون کے لیے بیکار تھے۔ خیر دوست کے گھر پوچھ تاچھ کر پہنچ گیا تو وہ لوگ گھر سے باہر تھے۔ کچھ دیر بعد آئے اور پہلی فیس ٹو فیس ملاقات ہوئی۔ کافی خوبصورت پیسٹریاں انہوں نے پیش کیں مگر ذائقہ اتنا اچھا نہیں نکلا۔ کافی البتہ مزے کی تھی۔ پھر پپ کو دیکھنے اور اس سے کچھ دیر کھیلنے کے بعد ان لوگوں کے ساتھ نزدیکی شہر کاتووچ (یہ لوگ مضافات میں تھے) میں شاپنگ سینٹر گیا اور کتے کی ایڈوانس پیمنٹ کے 300 یورو کے لگ بھگ پولش زلاٹ نکلوا کر دیے اور پھر ان سے پوچھا کہ یہاں سے جرمنی جانے کے لیے کون سا روٹ بہتر ہے۔ وہ لوگ بالکل کچھ نہیں بتا سکے۔ سو فون چلایا اور روانہ ہو گیا۔
اس شہر سے موٹر وے بہت اچھی بنی ہوئی تھی اور بغیر ٹال ٹیکس کے جرمنی تک جاتی ہے۔ ساڑھے چار یا پانچ بجے شہر سے نکلا اور ورسبرگ Wirsbergپہنچتے پہنچے رات کے تین بج گئے۔ وہاں ہوٹل کافی پیچیدہ جگہ پر تھا کہ ہائی وے سے نکل کر ایک گاؤں سے ہوتے ہوئے پہاڑی پر سے گھوم کر ہوٹل تک پہنچنا تھا۔ وہاں پہنچ کر فون کیا تو ہوٹل کی بزرگ مالکن فوراً آ گئی اور اس نے فر فر جرمنی میں ساری معلومات بتا دیں کہ گاڑی کہاں رکھنی ہے، کمرہ کون سا ہے، کون سا دروازہ کس چابی سے کھلے گا اور وغیرہ وغیرہ۔ جرمن لوگوں کو میں نے ہمیشہ انتہائی ملنسار اور خوش مزاج پایا ہے۔ پھر اس نے پاسپورٹ یا کچھ اور چیک کیے بنا مجھے چابی پکڑائی اور سونے چلی گئی۔ میں نے گاڑی پارکنگ میں لا کر رکھی اور سامان نکال کر کمرے میں رکھا اور شاور لے کر سو گیا۔ صبح اٹھا اور درجہ حرارت منفی میں تھا، سو بعجلت شاور لے کر ناشتے کی تلاش میں نکلا اور گراؤنڈ فلور پر پہنچ کر ناشتہ کیا۔ اس جگہ عجیب سا رواج تھا کہ ہر ٹیبل پر وہ کافی پاٹ الگ سے لا کر رکھتے تھے جو محض دو کپ کافی رکھتا ہوگا۔ پیٹ بھرنے کے بعد چیک آؤٹ کرنے پہنچا تو بزرگ خاتون نے چابی لی اور میں نے پیمنٹ کر دی۔ پھر میں نے پاسپورٹ لہرایا کہ کیا یہ نہیں دیکھنا؟ اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا کہ جاؤ۔ بہت دوستانہ رویہ محسوس ہوا۔ ویسے بھی چھوٹا سا شاید فیملی اونڈ ہوٹل تھا۔ روانہ ہونے سے پہلے میں نے اے ٹی ایم کا چکر لگایا تاکہ کچھ کیش نکلوا سکوں۔ میرا خیال تھا کہ شاید جرمنی سے ٹال ٹیکس شروع ہو جائے گا۔ بہرحال نکلا تو فون کے جی پی ایس نے ہاتھ کھڑے کر لیے کہ اب کیا کرنا ہے۔ تقریباً دو گھنٹے اِدھر اُدھر گھوم پھر کر میں نے ایک جگہ ہائی وے کے کنارے پیٹرول بھروایا اور ہائی وے پر پہنچ گیا۔ پھر سفر آسان تھا۔ تاہم راستے میں دو جگہ سڑک کی تعمیر کا کام ہو رہا تھا تو لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ ضائع ہو گیا۔
تاہم جرمنی میں ڈرائیونگ سچ مچ بہت خوبصورت تجربہ تھا۔ مناظر بہت اچھے تھے اور پہاڑی بھی۔ لوگ بھی تمیز دار طریقے سے گاڑی چلا رہے تھے۔ یہیں ایک جگہ میری رفتار 170 سے زیادہ تھی جب مجھے ایک چھوٹی سی فیاٹ نے اوورٹیک کیا اور وہ گاڑی مجھے دوبارہ دکھائی نہیں دی۔ جب پیٹرول ختم ہونے لگا تو میں نے پیٹ پوجا کا سوچا اور ایک گیس سٹیشن پر رکا اور وہاں پیٹرول بھرنے کے علاوہ فش اینڈ چپس بھی کھائے۔ تاہم اس میں نصف گھنٹہ لگ گیا۔ پھر کاونٹر سے پوچھا کہ لیون یہاں سے کتنا دور ہوگا، تو علم ہوا کہ فرانس کی سرحد آنے والی ہے۔ جرمنی کی سڑکوں کی حالت، گاڑیوں کی کنڈیشن اور لوگوں کا تہذیب یافتہ ہونا بہت خوبصورت لگا۔
پھر فرانس میں داخل ہوتے ہی دیکھا کہ سڑک کے ایک طرف کچھ سیاہ فام افراد کو پولیس نے روکا ہوا ہے اور ان کی تلاشی جاری تھی۔ یہی سڑک سیدھا چلتے ہوئے آگے جا کر پیرس کو جاتی تھی۔ مگر میرا راستہ آگے چل کر بدل گیا۔ فرانس میں سڑکیں کافی اونچے پہاڑوں سے گزر رہی تھیں اور اتنی خوبصورت اور دیکھ بھال کی گئی تھیں کہ ڈرائیونگ میں سچ مچ لطف آیا۔ نصف فرانس پر پہنچ کر تھکن کا احساس ہوا اور ایک جگہ نصف گھنٹہ آرام کرنے رکا۔ اس کے بعد پھر روانہ ہوا کئی جگہ ٹال ٹیکس ادا کرتا ہوا فرانس سے نکل کر رات گئے سپین کی سرحد پر پہنچا اور اسے عبور کر کے گیرونا Girona پہنچا۔
یہاں ہوٹل شہر کے عین وسط میں تھا اور کچھ دقت سے جا کر ملا۔ مگر ہوٹل چیک ان کیا۔ وہاں کاؤنٹر پر جو بندہ تھا، اسے دیکھتے ہی ڈان کہوتے (پنجابی والا کھوتے نہیں، بلکہ مستنصر حسین تارڑ والا کہوتے) یاد آیا۔ خیر شاور لیتے ہی سو گیا۔ صبح اٹھا اور ناشتہ کر کے نکلا۔ سپین میرے لیے انتہائی حیران کن ملک ثابت ہوا کہ میرا خیال تھا کہ یہاں سارا ملک صحرائی ہوگا اور ہر طرف خاک اڑتی ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔ مستنصر حسین تارڑ کا ناول اندلس میں اجنبی جو کئی مرتبہ پڑھ چکا تھا، وہ بھی یاد نہ رہا۔ سب سے پہلے تو نکلتے ہی ایسا لگا کہ جیسے میں شمال کو جا رہا ہوں۔ سامنے اونچے برف پوش پہاڑ تھے۔ گیرونا سے نکلتے ہی دائیں جانب پہاڑ پر موجود درختوں کو دیکھ کر بے ساختہ مجھے ماسٹر آف جن کی یاد آئی کہ کچھ عرصہ قبل ہی اس کا ترجمہ مکمل کر کے اِرونگ کارچمر کو بھجوایا تھا۔ ایسا لگا کہ جیسے جِنّستان کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔
یہاں بھی سڑکیں شاندار تھیں مگر جگہ جگہ ٹال ٹیکس سے واسطہ پڑتا تھا۔ مایوسی اس بات پر ہوئی کہ بعض جگہ صرف کریڈٹ کارڈ چلتا تھا، بعض جگہ نوٹ اور بعض جگہ محض سکے۔ بعض جگہ ان تین میں سے دو طریقے۔ ایک جگہ تو کچھ بھی کام نہ آیا اور وہاں ایک ورکر سے پوچھا اور اس نے مجھ سے دس یورو لے کر کہا کہ نو چینج، اور مجھے پار کرا دیا۔ تین جگہ فون نے ایسا دھوکہ دیا کہ پچاس کلومیٹر ایک سمت میں جانے کے بعد واپس بلایا اور پھر واپس اسی روٹ پر بھجوا دیا۔ سفر کا یہ والا حصہ ہزار کلومیٹر کے لگ بھگ اور سب سے مختصر ہوتے ہوئے بھی مختصر نہ رہا۔ ایک جگہ رک کر ہلکا سا کھانا کھایا اور سفر جاری۔ سپین کے شروع میں میدانی علاقہ تھا۔ پھر نیم پہاڑی علاقہ آیا اور ایک طرف اونچے نیچے پہاڑ اور دوسری جانب سمندر۔ آگے چل کر انگوروں کی بیلیں شروع ہو گئیں جو میدانی علاقہ تھا۔ اسے شاید صحرا کہہ سکتے ہیں۔ بہت اچھی موٹر ویز تھیں اور ٹریفک بہت کم۔ بہت جگہوں پر مجھے ایسے لگا کہ جیسے بلوچستان کے پہاڑ ہوں۔ ایک جگہ ایک دلچسپ واقعہ ہوا کہ میرے پیچھے ایک سفید مرسیڈیز جیپ تھی جو شاید 40 یا 45 منٹ اسی طرح مجھ سے کافی فاصے پر چلتی رہی۔ تاحدِ نگاہ یہی دو گاڑیاں تھیں۔ ایک مرتبہ اس گاڑی نے اوورٹیک کرنے کا فیصلہ کیا اور مجھ سے دو یا تین سو گز پیچھے ہی اس نے لین چینج کرنے کا سوچا۔ میں بیک ویو مرر میں دیکھ رہا تھا کہ عین اسی وقت ایک اور گاڑی اسے اوورٹیک کر رہی تھی۔ شاید انچز میں دونوں گاڑیوں کا ٹکراؤ بچا۔ مرسیڈیز کی پوری گاڑی واقعتاً ہل کر رہ گئی اور واپس پھر اگلے ایک گھنٹے تک اسی رفتار پر چلتی رہی۔
بہت طویل فاصلے تک پہلے انگوروں کی بیلیں اور بریوریز گزرتی رہیں۔ پھر بہت طویل فاصلہ مالٹے وغیرہ جیسے سٹرس فروٹ کے باغات چلتے رہے۔ پھر اس کے بعد زیتون کے باغات شروع ہو گئے جو پہاڑیوں پر بہت دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے افریقی بچیوں کے سر پر مینڈھیاں سی گوندھی ہوئی ہوتی ہیں، ویسے منظر لگ رہا تھا۔ دوست کا فون آیا کہ کہاں تک پہنچے، تو میں نے اسے بتایا کہ میں گراناڈا Granada جو کہ شاید غرناطہ کہلاتا تھا، سے گزر چکا ہوں۔ اس نے سفر بخیر کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ اس دوست سے دراصل طے ہوا تھا کہ میں سفر کس روٹ پر کر رہا ہوں اور جب ہوٹل پہنچتا تو اسے اطلاع دے دیتا کہ یہاں تک کا سفر ہو گیا ہے۔ دوست کی رہائش فوئینگیرولا Fuengirola میں ہی ہے۔ مغرب کے قریب مناظر انتہائی خوبصورت تھے، اونچے پہاڑ، اونچی چڑھائی اور اچانک اترائی اور پُر پیچ سڑکیں مگر ایک سو سے ایک سو بیس کی عمومی رفتار۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر مناظر بہت خوبصورت ہوں تو میں رفتار کم کر لیتا ہوں۔ مگر یہاں ٹریفک اتنی زیادہ ہو چکی تھی کہ ایسا ممکن نہیں تھا۔
دوست نے سکائپ پر پتہ بھیج دیا جہاں اس نے میرے لیے ہوٹل بک کرایا تھا۔ وہاں پہنچا تو وہ بیچارہ پہلے ہی ہوٹل کے باہر منتظر تھا کہ ہوٹل کے باہر پارکنگ نہیں تھی اور تھوڑا دور جا کر گاڑی پارک کی۔ ہلکی پھلکی گپ شپ، ہوٹل میں چیک ان وغیرہ اور اس کے بعد دوست گھر چلا گیا اور میں شاور لے کر نے ہوٹل سے باہر کی راہ لی اور دو یا تین سو گز دور ایک پاکستانی ریستوران جا ڈھونڈا۔ اچھا مناسب کھانا تھا اور کھا پی کر میں نے ساحل کی راہ لی کہ ریستوران ساحل سے بالکل قریب ہی تھا اور کچھ مٹرگشت کرنے کے بعد واپس ہوٹل واپس آیا۔ ہوٹل کی ریسپشن والا بندہ روسی تھا مگر چند الفاظ فننش کے بھی بول لیتا تھا۔ اس سے کچھ دیر گپ شپ کی اور پھر سونے چلا گیا۔
اس سارے ٹرپ میں فن لینڈ سے اسٹونیا تک بحری جہاز کا سفر بمع کار، تمام تر پیٹرول کے اخراجات، ہوٹل کے اخراجات اور کھانا پینا وغیرہ ملا کر لگ بھگ 800 یورو خرچ ہوا۔ اس میں تین رات تین مختلف ہوٹلوں میں قیام بھی شامل ہے۔ فن لینڈ میں پیٹرول کی قیمت لگ بھگ ڈیڑھ یورو فی لیٹر تھی، اسٹونیا میں سوا یورو، لٹویا اور لتھوانیا میں ایک یورو سے ذرا کم، پولینڈ میں یورو سے ذرا سا زیادہ اور جرمنی میں سوا سے ڈیڑھ یورو اور فرانس اور سپین میں بھی لگ بھگ یہی قیمت تھی۔ کل سفر ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر سے ذرا سا کم بنا اور ساڑھے تین روز میں تمام ہوا۔
سفر کی تصاویر کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں آئیں کہ زیادہ تر چلتی گاڑی سے لی گئی تھیں۔ مگر جو ہیں، اسی پر گزارا کیجیے۔ اگر کوئی سوال پیدا ہوں تو بلاجھجھک پوچھ سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کوئی بات ایسی ہو کہ وہ میری یاداشت میں سو فیصد درست نہ ہو، مگر بات کر کے واضح کر سکتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اگر کوئی دوست اس روٹ پر یا اس کے کچھ حصے پر سفر کرنا چاہے تو اسے مدد مل سکے۔ تصاویر شاید کل سے لگنا شروع ہوں