فکر و فن ( ٹائپنگ جاری۔۔)

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۶

ہے اور اسم مفعول اسم صفت کی جگہ آتا ہے۔ جیسے زید نے عمر کو بلایا۔ یہاں عمر اسم مفعول نہیں بلکہ اسم ذات ہونے کی وجہ سے مفعول ہے۔ مگر بلایا ہوا کی صورت میں اسم مفعول ہوا۔

(1) فارسی اسم مفعول اردو میں بکثرت آتے ہیں جیسے رنجیدہ، بریدہ، آموختہ، آزمودہ، دیدہ، دانستہ، فریفتہ، پختہ اور بوسیدہ وغیرہ۔

(2) عربی اسم مفعول بھی اردو میں بکثرت مستعمل ہیں۔ اور وہ حسب ذیل اوزان پر آتے ہیں :

مفعول کے وزن پر، مقتول، مجروح، منظور، مرعوب، مظلوم، معصوم، معبود، مشہور، موقوف، معقول، مغموم، موصوف، مخدوم وغیرہ۔

مُفعل کے وزن پر، مستحکم، مستثنیٰ، مستعمل۔

متعفل کے وزن پر، متبنیٰ، متداول

عربی اسم مفعول علاہ مفعول کے کہ پہلا حرف میم مفتوح ہے اور آخر سے پہلا حرف بھی مفتوح ہوتا ہہے۔ جملہ اسم مفعول کے شروع میں میم مضموم ہوتی ہے۔ اگر حرف آخر سے پہلے حرف علت الف ہو گا تو وہ ساکن شُمار ہوتا ہے۔ جیسے مراد، مدام، وغیرہ۔

(3) اردو میں اکثر اسم مفعول سماعی بھی ہیں۔ جیسے بیاہتا، چہیتا، وغیرہ۔

اسم حالیہ : یہ اسم عام طور پر فائل یا مفعول کی حالت ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مصدر کی علامت نا دور کر کے تا یا ہوا زیادہ کر دیں جیسے چلتا، چلتی، یا گاتا ہوا، گاتی ہوئی، گاتے ہوئے یا دکھایا ہوا، دکھی ہوئی، دکھے ہوئے، وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۷

نوٹ :

(1) ہوا، وغیرہ کے اضافے سے حالیہ تمام ہوتا ہے اور تا وغیرہ کے بڑھانے سے حالیہ ناتمام بنتا ہے۔

(2) اسم حالیہ کے مکرر آنے سے ہوا وغیرہ استعمال نہیں ہوتا۔ جیسے :

مصرعہ : ٹہلتے ٹہلتے چلے آئیے

(3) فارسی اسم حالیہ بھی اردو میں مستعمل ہیں۔ جیسے افتاں و خیزاں، گریاں و خنداں، وغیرہ۔

اسم مُعاوضہ : یہ اسم ہمیشہ مصدر متعدی سے بنایا جاتا ہے۔ مصدر لازم سے نہیں بنتا۔ جیسے رنگوانا سے رنگوائی، سلانا سے سلائی، مگر رنگنا اور سلنا سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

نوٹ :

(1) اردو میں اسم معاوضہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مصدر سے علامت نا دور کر کے ئی بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے پڑھانا سے پڑھائی، وغیرہ۔

(2) اسم معاوضہ سماعی اس طرح بنائے جاتے ہیں جیسے مزدور سے مزدوری، وغیرہ۔

(3) اسم معاوضہ بالعموم کسی کام کی اُجرت کا نام ہوتا ہے۔

لوازم اسم : ان خصوصیات کو کہتے ہیں جو ہر اسم سے متعلق ہوں۔ اور وہ یہ ہیں۔ جنس، تعداد، حالت۔

جنس : (ء) بروزن نرخ۔ بمعنی چیز، قسم۔ اصطلاحاً تذکیر و تانیث یعنی اسم کا مذکر یا مونث ہونا۔ تذکیر و تانیث کی دو قسمیں ہیں۔ حقیقی و غیر حقیقی۔

حقیقی : (ء) بروزن فریدی، بمعنی اصلی۔ اس تذکیر و تانیث سے مراد ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہو۔ جیسے گھوڑا یا بکرا، بکری، وغیرہ۔

غیر حقیقی : (ء) بمعنی مصنوعی۔ یہ حقیقی کے برعکس ہوتی ہے۔ جیسے قلم مذکر، کتاب مونث۔

نوٹ : حقیقی جاندار کے لئے آتی ہے اور غیر حقیقی بے جان اشیاء ہوتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۸

[TODO: Add Chart]

تذکیر : (ء) بروزن ترکیب، بمعنی نر۔ اسکو مذکر بھی کہتے ہیں۔

تانیث : (ء) بروزن تاثیر بمعنی مادہ۔ اس کو مونث بھی کہتے ہیں۔

حقیقی تذکیر و تانیث کی دو صورت ہیں۔

(2) بہت سے لفظ ایسے ہیں جو مذکر کی صورت میں کچھ ہیں اور مونث کی لئے کچھ۔ جیسے مرد، عورت، خاوند، بیوی، باپ، ماں، بھائی، بہن، بیل، گائے وغیرہ۔ واضح ہو کہ یہ تمام الفاظ کسی قاعدے یا اصول کے ماتحت نہیں بنائے گئے بلکہ یہ ایل زبان کے تصرف سے متعلق ہیں۔

(3) بعض دو لفظ ہوتے ہیں جن کے آخری حرف یا حروف بدل کر یا مزید اضافہ کر کے مونث بنا لیا جاتا ہے۔ جیسے لڑکا سے لڑکی۔ یہاں الف کو ی سے بدل دیا گیا۔ یا ڈوم سے ڈومنی۔ یہاں نی کا اضافہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ مذکر سے مونث بنانے کی حسب ذیل صورتیں ہیں :

الف : وہ لفظ جن کے آخر میں الف اور ہ ہو، ان کو ی سے بدل کر مونث بنا لیا جاتا ہہے جیسے لڑکا سے لڑکی، بیٹا سے بیٹی، بندہ سے بندی وغیرہ۔

ب : بعض صورتوں میں وہ لفظ جن کے آخر میں الف یا ی ہوتی ہے ان کو نون سے بدل کر مونث بنا لیا جاتا ہے جیسے جوگی سے جوگن، مالی سے مالن، دولہا سے دولہن اور گوالا سے گوالن وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۶۹

ج : بعض الفاظ کے آخر میں نون یا ے بڑھا کر مونث بناتے ہیں جیسے ناگ سے ناگن، سانپ سے سانپن، ہرن سے ہرنی اور برہمن سے برہمنی وغیرہ۔

د : بعض الفاظ کے آخر میں نی یا انی بڑھانے سے مونث بناتے ہیں۔ جیسے مور سے مورنی، شیر سے شیرنی یا سید سے سیدانی اور یا مہتر سے مہترانی وغیرہ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حرف کو حذف کر کے نی یا انی بڑھاتے ہیں جیسے استاد سے دال گرا کر استانی کر لیا یا رانا سے رانی بنا لیں۔

ہ : بعض الفاظ کے آخر میں کسی تغیر یا بغیر تغیر "یا" کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جیسے کتا سے کتیا، چڑا سے چڑیا۔ یا گدھا سے گدھیا وغیرہ۔

و : بہت سے وہ الفاظ ہیں جو دوسری زبانوں میں مذکر و مونث ہیں۔ اردو میں بھی انکار استعمال اس طرح ہے جیسے بیگ و بیگم، خان و خانم، سلطان و سلطانہ، ملک و ملکہ وغیرہ۔

ن : کبھی اسم خاص میں نون اور یا کے اضافہ سے مونث بنا لیتے ہیں۔ جیسے کریم سے کریمن، شفیق سے شفیقن یا احمد سے احمدی وغیرہ۔

ح : کبھی واؤ معرعف سے مذکر اور واؤ مجہول سے مونث بن جاتا ہے۔ جیسے ‘کلو‘ کب آیا اور کلُو کب گئی۔

ط : بعض ایسے ہوتے ہیں جن میں تھوڑا سا رد و بدل کر دیا جاتا ہے۔ جیسے بھینس بھینسا، رانڈ رنڈوا، بلی بلا وغیرہ۔

ی : بعض ایسے مذکر الفاظ ہیں جو بغیر امتیاز مذکر ہی بولے جاتے ہیں جیسے کوا، اژدہا، اُلو، باز، چیتا، تیندوا، خرگوش، نیولا، مچھر، ڈانس، کھٹمل، جگنو، بہنگا، گدھ، اودھ بلاؤ، شتر مرغ، سارس، لنگور، وغیرہ۔

ک : بعض الفاظ ہر حالت میں مونث بولے جاتے ہیں۔ جیسے چیل، کوئل، مینا،
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۰

لومڑی، بھڑ، شاما، فاختہ، مچھلی، قمری، چھپکلی، چھچوندر، وغیرہ۔

ل : بعض الفاظ نر و مادہ دونوں طرح بولے جاتے ہیں۔ ان کو مختلف فیہ کہتے ہیں۔ جیسے بلبل اڑا، بلبل اڑی، بٹیر، طوطی وغیرہ۔

ن : بعض فارسی الفاظ میں تذکیر و تانیث کے لئے نر اور مادہ کا اضافہ کر دیتے ہیں جیسے نر گاؤ، مادہ خر وغیرہ۔

نوٹ : (۲) سماعی میں غیر حقیقی تذکیر و تانیث بنانے کا کوئی کلیہ نہیں۔ اساتذہ نے چند اصول بنائے ہیں۔ مگر میں ان کو اس لئے غیر ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر اصول کے ساتھ مستثنیات بھی درج ہیں۔

(1) جن الفاظ کے آخر میں الف یا ہ ہوتی ہے وہ اکثر مذکر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً سونا، چھاپا، پردہ، پیشہ، حقہ، گناہ، دکھ وغیرہ۔ مگر دعا، دوا، وفا اور چاہ (بمعنی محبت) مونث مستعمل ہیں۔

(2) اسمائے تصغیر۔ جن کے آخر میں یا ہو مونث ہیں جیسے گڑیا، پڑیا، ڈبیا وغیرہ۔ مگر بھیا اور ٹیا (کوڑی کا) مذکر مستعمل ہیں۔

(3) وہ اسماء جن کےآخر میں ت ہو مونث ہیں۔ ندامت، قیامت، رقت، محبت وغیرہ مگر لغت، خلعت، شربت وغیرہ مذکر بولے جاتے ہیں۔

(4) جن لفظوں کے آخر میں یائے معروف ہوتی ہے وہ مونث بولے جاتے ہیں۔ جیسے کرسی، ٹوپی، بجلی وغیرہ۔ مگر پانی، موتی، گھی وغیرہ مذکر ہیں۔

(5) عربی جمع ہر حالت میں لکھنو والے مذکر استعمال کرتے ہیں۔ دہلی میں مذکر کی جمع مذکر، مونث کی جمع مونث مستعمل ہے لیکن یہاں بھی چند مستنثیات موجود ہیں۔ جیسے حور اور افواہ لکھنؤ والے بھی مونث بولتے ہیں۔ یا سلسلہ کی جمع سلاسل دہلی میں بھی مونث بولتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۱

(1) وہ اسماء جو نقل ہیں آواز کی۔ جیسے سائیں سائیں، چٹ چٹ، دھڑا دھڑ مونث بولے جاتے ہیں۔

(2) ہندی حاصل مصدر اور وہ اسمائے کیفیت جو ہندی حاصل مصدر کے وزن پر بولے جاتے ہیں ان کو مونث بولا جاتا ہے۔ جیسے پکار، پھٹکار، جلن، لوٹ، تکان، مٹھاس وغیرہ مگر بگاڑ، اتار، چلن وغیرہ مذکر ہیں۔

(3) پیکاں، باراں، ساماں وغیرہ مذکر ہیں۔ لیکن داستاں، فغاں وغیرہ مونث مستعمل ہیں۔

(4) ہندی الفاظ جن کے آخر میں آؤ، ؤن، آؤں ہوں وہ مونث بولے جاتے ہیں۔ جیسے باو، چاؤں، کھڑاؤں وغیرہ مگر بناؤ، پاؤں، گاؤں مذکر مستعمل ہیں۔

(5) جو عربی مصادر افعال، افتعال، انفعال، استفعال، نفعل اور تفاعل کے وزن پر ہیں، مذکر ہوتے ہیں۔ جیسے اکرام، اختیار، اضطراب، استقلال، تکلیف اور تجاہل وغیرہ، مگر امداد، احتیاط، اطلاع، استعداد، تمنا اور تواضع وغیرہ مونث بولے جاتے ہیں۔

(6) باب تفعل اور تفاعل کے مصادر جن کے آخر میں ی ہوتی ہے وہ مونث مذکر بولے جاتے ہیں جیسے تسلی، تلافی، تمنی (تمنا) وغیرہ مگر تقاضا وغیرہ مذکر مستعمل ہے۔

(7) مفاعلہ اور تفعلہ کے وزن پر جو لفظ ائیں گے اور ان کے آخر میں ہ ہو گی تو مذکر اور ت ہو گی تو مونث ہوں گے۔ جیسے مراسلہ، مجادلہ، تجربہ، تذکرہ وغیرہ مذکر اور تربیت، تقویت وغیرہ مونث۔

(8 ) وہ الفاظ جو تصغیر کے وزن پر عربی میں آتے ہیں، مونث مستعمل ہیں جیسے تحریر، تقدیر، تدبیر، تکمیل، تصنیف۔ مگر تعویذ اس کلیہ سے مستثنیٰ ہے۔

(9) باب تفعیل کے آخر میں اگر ہ ہو تو وہ الفاظ مذکر بولے جاتے ہیں۔ جیسے تخمینہ، تعلیقہ وغیرہ مگر تعریشہ مونث ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۲

(1) وہ عربی الفاظ جن کے آخر میں ایسی ت ہو جا بحالت وقف ہ پڑھی جائے مذکر ہیں۔ جیسے روضہ، قطرہ، ذرہ، آئینہ، پیمانہ، جلوہ، پیشہ، مزہ وغیرہ مگر دفعہ، خستہ، توبہ مونث ہیں۔

(2) عربی اسمائے ظرف مذکر ہوتے ہیں۔ جیسے مکتب، مسکن، مقام وغیرہ مگر مجلس، محفل، منزل، مسجد، مشعل، مسند وغیرہ مونث بولے جاتے ہیں۔

(3) اسم آلہ مفعال کے وزن پر اکثر مونث الفاظ آتے ہیں۔ جیسے مقراض، میزان، مگر معیار، مصداق مستثنیٰ ہیں۔

(4) وہ فارسی حاصل مصدر جو امر میں ش بڑھانے سے بنتے ہیں۔ مونث ہوتے ہیں جیسے دانش، خواہش، بخشش، نوازش وغیرہ۔

(5) جن الفاظ کے آخر میں پوش کا اضافہ ہوتا ہے وہ مذکر بولے جاتے ہیں۔ جیسے پلنگ پوش، خوان پوش مگر پاپوش مونث ہے۔

(6) وہ لفظ جو دو فعل یا ایک اسم اور ایک فعل سے بنتے ہیں وہ بالعموم مونث ہوتے ہیں جیتے، زد و کوب، آمد و رفت، تراش خراش، دیکھ بھال وغیرہ مگر سوز و گداز، سوز و ساز بند و بست وغیرہ مذکر مستعمل ہیں۔

(7) اگر مرکب لفظ کے آخر میں مونث لفظ ہوتا ہے تو وہ تانیث میں بولا جاتا ہے۔ اس کے برعکس تذکیر جیسے آب و ہوا اچھی ہے۔ کشت و خون خوب ہوا۔ مگر پیچ و تاب مذکر مستعمل ہے حالانکہ آخری لفظ تاب مونث ہے۔

(8 ) اگر دونوں مرکب لفظ مونث ہیں تو اس کو مونث بولیں گے جیسے آب و تاب، جستجو وغیرہ یا اس کے برعکس آب و دانہ مذکر مستعمل ہے مگر شیر رنج کہ دونوں جز مذکر ہیں یا نیشکر میں دونوں مونث ہیں۔ مگر بول چال میں شیر رنج مونث اور نیشکر مذکر مستعمل ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۳

نوٹ : (۳) مذکور بالا اصول کے علاوہ اور بھی چند قاعدے ہیں مگر مستنثیات سب میں شامل ہیں۔ اس لئے میں ان کا قائل نہیں۔ مبتدیوں کو چاہیے کہ اساتذہ اور اہل علم کے محل استعمال پر نظر رکھیں۔ اور یہ دیکھیں کہ انھوں نے کس لفظ کو کس طرح استعمال کیا ہے۔ البتہ حسب ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے۔

(1) دنوں اور مہینوں نے اردو نام مذکر بولے جاتے ہیں۔ لیکن دنوں میں جمعرات مستثنیٰ ہے۔

(2) پہاڑوں کے اردو نام مذکر ہیں۔

(3) نمازوں کے تمام نام مونث ہیں جیسے فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشاء وغیرہ۔

(4) اردو مصادر جب تنہا بولے جائیں تو مذکر ہوں گے جیسے کرنا، جاگنا، مارنا، وغیرہ اسی طرح بات کرنا، روٹی کھانا وغیرہ بھی مذکر ہی بولے جاتے ہیں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ بات مونث ہے۔ لہذا فعل بھی مونث ہونا چاہیے۔ گویا بات کرنی کہنا چاہیے۔ ایک حد تک بات معقول ہے۔ مگر ایسا کہنے میں دو خدشے ہیں۔ (۱) اردو مصدر ہر حالت میں مذکر ہوتے ہیں اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے اہل علم بات کرنا کو مصدر مرکب تصور کرتے ہیں۔ (۲) جب متعدی مصادر کے ساتھ مفعول مذکر مذکور ہو تو اس مو مذکر ہی بولنا چاہیے۔ لہذا بات کرنا زیادہ بہتر ہے بات کرنی سے۔ یہ کہنا کہ امر کی حالت میں بات کرنا فصیح ہے۔ میرے نزدیک کوئی عرفی قاعدہ نہیں۔

(5) اضافت مقلوب ہو جانے کی حالت میں کی علامت تانیث کو کے سے تبدیل کر دیتے ہیں۔ جیسے ء

سُرمہ دیا آنکھوں میں کبھی نور نظر کے

(6) صفت کی تذکیر و تانیث میں موصوف کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے جیسے اچھی ٹوپی، بُرا لڑکا وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۴

(1) بعض الفاظ مذکر بھی بولے جاتے ہیں اور مونث بھی لیکن وہ الفاظ ذومعنی ہوتے ہیں مثلاً آب بمعنی پانی مذکر اور آب بمعنی چمک مونث، جیسے ٹھنڈا آب تھا یا تیغ کی آب جاتی رہی۔ چنانچہ ذومعنی الفاظ حسب ذیل ہیں :

گزر : میرا وہاں گزر نہیں۔ آجکل گزر بری طرح ہوتی ہے۔

چاہ : اس نے ایک ایسا چاہ سر راہ بنوا دیا ہے کہ ہر شخص اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ مجھے تمہاری چاہ ہو گئی۔

مد : نیب کا مد اچھا ہوتا ہے۔ یہ کونسی مد میں آتا ہے۔

عرض : کپڑے کا عرض کیا ہے۔ میری عرض کون سُنتا ہے۔

کف : آج بہت کف خارج ہوا۔ برق۔ کفِ موسیٰ کبھی مہندی سے صفائی نہ ہوئی۔

کاٹ : تلوار کا کاٹ خوب ہے۔ تم نے ہر بات میں میری کاٹ کی۔

نال : بندوق کی نال پھٹ گئی۔ یہاں تمہارا نال کٹا تھا۔

بیت : ناسخ ۔ ء شمع کو جس شب مرا بیت الحزن یاد آ گیا۔ قسیم۔ ء

رہیں حصے برابر ابرو ہو تو ایسی ہو

تعداد : (ء) بروزن داماد، بمعنی شمار۔ عدد۔ اصطلاحاً وہ اسم عام جو ایک سے زائد ہو۔ اس کو تعداد کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ واحد اور جمع۔ عربی میں ایک قسم اور تثنیہ۔ یہ گذشتہ موقع پر بتائی جا چکی ہے۔

واحد : (ء) بروزن شاہد، بمعنی ایک۔ وہ اسم عام جو معنی کے لحاظ سے فرد شمار ہو جیسے اس کتاب کی کیا قیمت ہے۔

جمع : (ء) بروزن شمع۔ بمعنی ایک سے زائد۔ جیسے ان کتابوں کی قیمت کیا ہے۔ عربی میں دو قسمیں ہیں۔ سالم اور مکسر۔

نوٹ : (1) اردو میں جمع کی چھ علامتیں ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۵

(۱) یائے مجہول (۲) واؤ مجہول (۳) دن (۴) وَن (۵) ان (۶) میں

جیسے لڑکا سے لڑکے، یا لڑکوں، یا راجہ سے راجاؤں یا لڑکی سے لڑکیاں یا عورت سے عورتیں، وغیرہ۔

(2) حروف عاملہ جن کو حروف ربط یا حروف مغیرہ بھی کہتے ہیں، ان کی وجہ سے واحد جمع میں تغیر ہو جاتا ہے۔ اور وہ حسب ذیل ہیں : کا، کی، کو، نے، پر، سے، تک، ہں وغیرہ۔ جیسے لڑکے نے، یہاں لڑ نے کا محل استعمال غلط ہو گا۔ یہ چیز مطالعہ سے متعلق ہے۔ میرے نزدیک اس کا بھی کوئی خاص قاعدہ نہیں۔

سالم : (ء) بروزن قاسم، بمعنی مکمل، پورا۔ یہ وہ جمع ہوتی ہے جس کے آخر میں ا، ت، بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے وقت سے اوقات۔ اختیار سے اختیارات، وغیرہ۔

نوٹ : (1) : اردو میں جمع سالم عربی قاعدہ پر بنا لیتے ہیں۔ جیسے باغ سے باغات، دیہہ سے دیہات وغیرہ۔ یہ جمع اردو تصور کی جائیں گی۔ مگر باغات اور اوقات کا قافیہ مطلع میں جائز نہیں کیونکہ طریقہ جمع عربی ہے۔ مگر ہڈیاں اور بتاں کا قافیہ جائز ہے کیونکہ ہڈیاں اور بتاں میں الف نون فارسی جمع کا ہے۔

(2) اردو جمع سالم عطف و اضافت کے ساتھ جائز نہیں۔ مگر جہاں اہل زبان کا تصرف ہے وہاں کوئی اعتراض نہیں۔

مُکسر : (ء) بروزن مظفر۔ بمعنی کسر سے منسوب ہے۔ عربی میں اس جمع بنانے کے لئے اصول ہیں۔ لیکن وہ عربی جمع جس میں الف ت نہیں ہو، مکسر تصور کرنا چاہیے جیسے حکام، شیاطین، ملوک، شعراء، اولیا، طلبہ وغیرہ۔

نوٹ : (1) جمع الجمع بنانا اور ان کا استعمال غلط ہے جیسے حکاموں، انبیاؤں وغیرہ۔

(2) بعض سہ حرفی لفظ جن کے شروع میں دو حرف متحرک ہوں۔ جمع کی صورت میں
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۶

حرف دوم ساکن ہو جاتا ہے جیسے نظر سے نظریں۔ قدم سے قدموں وغیرہ۔

(3) بعض ایسی جمع ہیں جو اردو میں بطور واحد مستعمل ہیں جیسے آداب، آفات، آفاق، احکام، احوال، اخبار، اخلاق، اسباب، اشراف، اصول، القاب، املاک، اولاد، اوقات، تحقیقات، حاضرات، خیرات، رعایا، سکرات، صلوٰۃ، کائنات، کرامات، افواہ وغیرہ۔

(4) بعض وہ الفاظ جو بالعموم جمع ہی بولے جاتے ہیں جیسے اوسان مصحفیؔ۔

مصحفیؔ آیا جو وہ کل بزم میں
اپنے تو اوسان خطا ہو گئے

بھاگ : جیسے میرے بھاگ جاگ اُٹھے

دام : جیسے دام تو اچھے خاصے لگا دیئے ہیں۔

درشن : جیسے آپ کے درشن نہیں ہوتے۔

کرتوت : جیسے تمہارے کرتوت اچھے نہیں۔

دستخط : جیسے میں نے تو پہلے ہی دستخط کر دیئے تھے۔

(5) تعظیماً بھی واحد کو بطور جمع بولتے ہیں۔ جیسے والد صاحب کل کے آئے ہوئے ہیں۔

(6) اسم جنس کا اطلاق واحد جمع دونوں پر ہوتا ہے لیکن جب کثرت اور تعداد غیر معین ظاہر کرتے ہیں تو اسما و افعال کو اکثر واحد استعمال کرتے ہیں۔ ناسخؔ :

تھی نہ اُمید رہائی دلِ ناسخؔ کو کبھی
لاکھ زنجیر ترے گیسوئے خمدار کی تھی

(7) اکثر ایک جملہ میں کئکی لفظ جمع ہوں مگر فعل کہ واحد ہی لاتے ہیں۔ مومنؔ :

ہائےاکیار وہ لطف پے ہم چھوڑ دیا
انس و اخلاق و دلاسا و کرم چھوڑ دیا

(8 ) جن الفاظ پر مقدار کا اطلاق ہوتا ہے وہ بطور واحد بولے جاتے ہیں۔ جیسے چار سیر کہنا، سیر بھر چونا، لیکن جب تعداد مقصود ہو تو جمع میں بولنا چاہیے۔ جیسے پندرہ الائچیاں وغیرہ۔

(9) جمع کی صورت میں فعل بھی جمع ہو جاتا ہے جیسے کتابیں مل گئیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۷

(3) بعض اوقات فعل سے اسم کی جمع ظاہر ہوتی ہے جیسے چراغ جل گئے۔ یہاں گئے سے چراغ کی جمع ظاہر ہوتی ہے۔

[TODO: Add Chart]

حالت : (ء) بروزن شامت۔ بمعنی حال۔ سانحہ، ہر اسم کی کوئی حالت ہوتی ہے اور وہ حالتیں حسب ذیل ہیں۔

فاعلی، مفعولی، ظرفی، ندائی، خبری، طوری

حالت فاعلی : یہ اسم کے کام کرنے کی حالت ہوتی ہے۔ جیسے تمہاری تقریر نے دل ہلا دیئے۔ یہاں تقریر سے حالت فاعلی ظاہر ہوتی ہے۔

حالت مفعولی : اس حالت سے اسم پر کام کئے جانے کا اثر پڑتا ہے جیسے اگر اسٹیشن پہونچنا ہے تو کوئی عمدہ ٹانگہ کیجیے۔ یہاں ٹانگہ حالت مفعولی ظاہر کرتا ہے۔

حالت اضافی : اس کی وجہ سے ایک اسم کو دوسرے سے نسبت دیجاتی ہے۔ گویا اس کی وجہ سے ایک دوسرے کا تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے زندگی کا دارومدار سانس پر ہے مگر سانس کا کیا اعتبار۔

حالت ندائی : اس سے پکارنے کی حالت ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے ء

اے درد دل بتا دے کبتک تو کم نہ ہو گا

حالت خبری : وہ حالت جو بطور خبر کے ہو۔ جیسے ظفرؔ کے شعر کا دوسرا مصرعہ :

یار تھا، گلزار تھا، مے تھی، صبا تھی، میں نہ تھا
لائق پاپوش جاناں کیا حنا تھی، میں نہ تھا
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۸

حالت ظرفی : وہ حالت جس میں اسم کا تعلق زماں یا مکاں سےپایا جائے۔ جیسے مسجد میں وہ بالعموم مغرب کو ملتے ہیں۔ یہاں مسجد اور مغرب وغیرہ۔

حالت طوری : اس حالت کو کہتے ہیں جس سے اسم کا طور۔ طریقہ، ذریعہ اور سبب معلوم ہو جیسے میں ان کی مہربانی کا شکار ہوں۔

نوٹ (1) : حالت فاعلی میں متعدی کے بعد افعال کے ساتھ اکثر نے علامت فاعل ہوتی ہے۔

(2) حالت مفعولی میں اکثر اسم کے ساتھ کو اور سے علامت مفعول آتی ہے۔

علامہ فوقؔ سبزواری نے تمہاری غزل کو چار چاند لگا دیئے۔ اب اس غزل سے بہتر کوئی غزل نہیں۔ یہاں غزل کو اور غزل سے دونوں حالت مفعولی ہیں۔

(3) حالت اضافی کی علامت واحد مذکر میں کا جمع مذکر میں کے اور مونث میں کی ہوتی ہے۔

(4) حالت ندائی میں اگر اسم کے آخر میں الف ہے تو وہ یائے مجہول سے بدل جاتا ہے۔ جیسے اے لڑکے تو کیا کرتا ہے۔ جمع کی صورت میں نون گر جاتا ہے۔ جیسے اے لڑکو لیکن واحد مونث میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور جہاں اسم میں کوئی علامت مذکر نہیں ہوتی، اس میں ہر تبدیلی بھی نہیں کی جاتی۔ جیسے اے دل، اے جگر وغیرہ۔

(5) حالت ظرفی میں اسما کے ساتھ حسب ذیل علامتیں آتی ہیں۔ جیسے میں، سے، تک، پر، اندر، اوپر، نیچے، کو، لیکن بعض اوقات یہ علامتیں نہیں بھی آتی ہیں۔ جیسے رشک کے اس شعر میں :

آج کی رات ٹھہر جاؤ کہاں جاؤ گے
یہ شب تار یہ برسات یہ کیچڑ پانی
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۷۹

[TODO: Add Chart]

صفت : (ء) بروزن چپت، بمعنی خوبی، اچھائی۔ اصطلاحاً وہ الفاظ جن سے اسم کی حالت، کیفیت یا مقدار ظاہر ہو جیسے، اچھا، بُرا، وغیرہ۔ اس کی پانچ قسمیں ہیں۔ ذاتی، نسبتی، عددی، تعدادی، ضمیری (۵)

ذاتی : اس کو عربی میں صفت شبہ کہتے ہیں۔ اس سے اسم کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے جیسے وہ کپڑا باریک ہے۔ آپ کی ٹوپی ہلکی ہے، وغیرہ۔ اس کے بنانے کے حسبِ ذیل قاعدے ہیں۔

(1) کبھی اسم یا فعل سے بنائی جاتی ہے جیسے بھاگ سے بھاگوان یا لڑنے سے لڑاکا۔

(2) کبھی دو لفظوں سے مل کر بنتی ہے جیسے ہنس مکھ، منہ زور، کام چور

(3) کبھی فارسی علامت مندؔ کے اضافے سے، جیسے عقل مند، دانشمند، سعادت مند، خرد مند، وغیرہ۔

(4) کبھی ہندی فارسی، عربی کے حروف نفی کے اضافے سے جیسے نڈر، بیدھڑک، کڈہب، انمول، غیر ممکن، ناممکن، لاوارث، لایعنی وغیرہ۔ بے فارسی علامت ہے غیر اور لا عربی کی علامتیں ہیں۔ فارسی کی علامت فارسی لفظ کے ساتھ اور عربی علامتیں عربی الفاظ کے ساتھ لگائی جاتی ہیں۔ ہندی الفاظ پر جو علامت بے ہے اس کو ہندی سمجھنا چاہیے۔ فارسی اور عربی صفت ذاتی اردو میں مستعمل ہے۔ جیسے جمیل، خلیق، شریف، بہادر، دلیر، نیک وغیرہ۔ اس کے درجے تین ہیں :

الف : جس میں کسی اسم کی صفت مقصود ہو جیسے اچھا، بُرا، وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۰

ب : جس سے ایک پر دوسرے کو ترجیح دی جائے جیسے چُھری، چاقو سے تیز ہے۔ یہ حالت حرف "سے کی" لانے سے ظاہر کی جاتی ہے۔

ج : جس سے تمام چیزوں پر ترجیح دی جائے، جیسے گجراتی روشنائی سب سے اچھی ہے۔

نوٹ : (1) مبالغہ یا زور پیدا کرنے کیلئے حسب ذیل الفاظ بڑھا دیتے ہیں :

بہت، بہت ہی، کہیں، زیادہ، بڑا، نہایت، نہایت ہی، خوب، عجیب، سخت، پاک، اچھا، اعلیٰ، اول نمبر، پرلے درجہ، بدرجہا، ہزارہا، ایک، وغیرہ۔

(2) سا کا لفظ بھی صفت کے ساتھ مستعمل ہوتا ہے۔ جیسے بے وقوف سا آدمی ہے۔ کالا سا رنگ ہے۔ بعض اوقات سا کو دور کر کے مبالغہ ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے لال انگارا، بعض حالات میں سا زیادتی کے لئے آتا ہے۔ جیسے بڑا سا مکان، بہت سا میدہ، وغیرہ۔

(3) فارسی میں تر، ترین بڑھا کر درجوں میں معنی پیدا کئے جاتے ہیں۔ جیسے بد، بدتر، بدترین، بہ، بہتر، کم، کمتر، کمترین وغیرہ۔

(4) عربی اسم مبالغہ اور اسمائے تفصیل بھی اردو میں بکثرت مستعمل ہیں۔ جیسے رزاق، غفار، قیوم، قدوس، مکار، افضل، اعلیٰ، وغیرہ۔ علیم اور عظیم وغیرہ صفت مشبہ ہیں۔ حجام اور خیاط وغیرہ پیشہ وروں کے نام ہیں۔ ان کو اسم مُبالغہ تصور کرنا غلطی ہے۔

(5) سمجھ دار، تابعدار، لوچ دار۔ اردو کے الفاظ شمار ہوں گے۔ بعض محتاط اساتذہ ان کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ کیونکہ سمجھ اور لوچ ہندی لفظ ہیں۔ دار فارسی کا ہے۔ اسی طرح تابع کے خود معنی فرمانبردار کے ہیں۔ لہذا دار کا اضافہ غلط ہے۔

نسبتی : وہ الفاظ جن کا کسی دوسری شے سے تعلق ظاہر ہو۔ ذوالفقار حیدری،
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۱

سرمہ اصفہانی، عربی گھوڑا، دریائی جانور، یہ تعلق کبھی وطن، نسبت، پیدائش، سکونت اور مذہب سے ہوتا ہے۔ یہ صفت اکثر تو اسم کے آخر میں یائے معروف بڑھانے سے بنتی ہے۔ لیکن عربی و فارسی الفاظ میں "ی" لگاتے وقت کچھ اور بھی تبدیلی کرنا پڑیت ہے اور ال کا قاعدہ حسبِ ذیل ہے :

(1) اگر الف کے آخر میں ۃ ہو اور تیسرا حرف ی ہو تو وہ ۃ اوری ساقط ہو جاتی ہیں۔ یا حرف ۃ جیسے مکہ سے مکی یا مدینہ سے مدنی وغریہ مگر اس کو بھی کوئی مستقل اصول تصور نہیں کرتا۔

(2) اگر حرف کے آخر میں یائے معرعف ہو تو اس ی سے پہلے واؤ بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے نبی سے نبوی، بریلی سے بریلوی۔

(3) بعض حالات میں و اور ی کا اضافہ ہوتا ہے جیسے دم سے دموی۔

(4) اگر حرف کے آخر میں الف ہوتا ہے تا یائے نسبت سے پہلے کبھی ہمزہ مکسور اور کبھی واؤ بڑھا دیتے ہیں۔ اور کبھی الف کو حذف کر کے واؤ بڑھا دیتے ہیں جیسے طلا سے طلائی، خدا سے خدائی، سودا سے سودائی، دنیا سے دنیوی۔

(5) اگر حرف کے آخر میں ایسا الف ہو جو بصورت ی لکھا جاتا ہے تو بھی الف حذف کر کے ی بڑھاتے ہیں۔ جیسے مصطفی سے مصطفوی، موسیٰ سے موسوی۔ لیکن اہل ہند اور اہل فارسی مصطفائی اور عیسائی لکھتے ہیں۔ عربی میں یہ نسبت نہیں ہے۔

(6) بعض حرف کے آخر سے الف کو دور کر دیا جاتا ہے جیسے بدخشاں سے بدخشی۔

(7) بعض حرف کے آخر الف، نون زیادہ کرنے کے بعد یائے نسبتی لگاتے ہیں۔ جیسے رب سے ربانی، حق سے حقانی، نور سے نورانی، تحت سے تحتانی اور فوق سے فوقانی وغیرہ۔

(8 ) بعض الفاظ سماعی ہیں۔ جیسے رے سے رازی، طے سے طائی، یمن سے یمانی وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۲

(1) کبھی از، ین اور ناک بڑھا کر نسبت ظاہر کی جاتی ہے جیسے دیوانہ، شاہانہ، امیرانہ، مردانہ، زرین، نمکین، رنگین، خوفناک، تابناک، خطرناک۔ یہ ترکیب فارسی ہے۔

(2) اسمائے نکرہ ہائے مختفی ہمزہ سے بدل جاتی ہے۔ جیسے سرمہ سے سرمئی، پستہ، پستئی، وغیرہ۔

(3) ہندی علامتیں را، داں، ار، لا، والا، کا، سا، وغیرہ صفت نسبتی کا کام دیتی ہیں۔ جیسے سنہرا، گنوار، روپہلا، بمبئی والا، قیامت کا، چاند سا، وغیرہ۔

عددی : وہ اسم جس سے دوسرے اسم کی تعداد معلوم ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ معین و غیر معین (۲)

مُعین : (ء) بروزن موید، بمعنی مقررہ۔ وہ صفت جس سے اسم کی ٹھیک تعداد معلوم ہو سکے جیسے ایک روپیہ، دو نوٹ، تین اشرفیاں، وغیرہ۔ ایک، دو، تین، چار، وغیرہ کو عدد کہتے ہیں اور ان سے جن چیزوں کی تعداد ظاہر ہوتی ہے ان کو معدود کہا جاتا ہے۔ اس کی تین قسمیں ہیں : معمولی، ترتیبی، اضافی (۳)

معمولی : اس صفت کو کہتے ہیں جو صرف تعداد ظاہر کرے جیسے ایک، دو، تین، چار، وغیرہ۔

ترتیبی : وہ صفت جس سے اسم کا شمار، درجہ اور مرتبہ بھی ظاہر ہو، جیسے پہلا، دوسرا، تیسرا، وغیرہ۔

اضافی۔ اس کو فعفی بھی کہتے ہیں۔ وہ صفت جس میں کسی عدد کا ایک یا ایس سے زیادہ مرتبہ دہرانا پایا جائے۔ جیسے دگنا، تگنا، چوگنا، وغیرہ۔

نوٹ (۱) : اُردو میں صفت اکثر اسم کی طرح استعمال ہوتی ہے۔ جیسے اچھا لڑکا، اچھے لڑکے، اچھوں کے اچھے لیکن سے کے ساتھ اچھوں سے اچھا آتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۳

(2) کبھی اسم بھی صفت کا کام دیتا ہے۔ جیسے بخار کی وجہ سے آپ کا بدن آگ ہو رہا ہے۔ یہاں آگ بطور صفت مستعمل ہوا ہے۔

(3) زور دینے اور وقف کی ترقی دکھانے کے لئے ایک صفت کو مکرر لاتے ہیں اور درمیان میں لفظ سے بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے بڑے سے بڑے کام کر لئے۔ اونچے سے اونچا مکان تلاش کرنا چاہیے۔

مقداری : بروزن دلداری، بمعنی منسوب بمقدار۔ وہ صفت جس سے کسی شے کی مقدار ظاہر ہو اور اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ معینی اور غیر معینی۔ میعنی حسب ذیل ہیں :

جیسے من بھر آٹا، گز بھر کپڑا، کوس بھر چلنا ہے، میل بھر چل کر آ رہا ہے، چمچہ بھر چائے ڈالنا وغیرہ۔ غیر معینی جیسے بہت تھوڑا وغیرہ۔

ضمیری : (ء) بروزن خمیری، بمعنی منسوب بضمیر۔ اس صفت کو کہتے ہیں جو ضمیر کا کام دے جیسے یہ، کون، وہ، کونسا، جو، کیا وغیرہ۔

نوٹ (1) : جب مذکورہ بالا الفاظ تنہا آتے ہیں تو ضمیر کا کام دیتے ہیں۔ اور اسم کے ساتھ ہو کر صفت ضمیری ہو جاتے ہیں۔ جیسے وہ شخص میرے یہاں نہیں آیا۔ یہاں وہ صفت ہے۔ لیکن وہ میرے یہاں نہیں آیا۔ یہاں وہ ضمیر کا کام دیتا ہے۔

(2) صفاتِ ذاتی اور نسبتی جب اسم کے ساتھ آئیں تو اسم کی صفت ہو جائیں گے۔ جیسے اچھا آدمی تھا۔ یہاں اچھا صفت ہے۔ لیکن اچھوں سے ملنا چاہیے۔ یہاں اچھوں اسم کا کام دیتا ہے۔

(3) صفت بھی تذکیر و تانیث میں اسم کی تابع ہوتی ہے۔ جیسے اچھا مرد، اچھی عورت۔ اسی طرح جمع میں تبدیلی ہو جاتی ہے جیسے اچھا۔ اچھے پنکھے۔

(4) بعض حالات میں وہ عربی اور فارسی الفاظ جو اردو میں کثرت سے مستعمل
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۴

ہیں اور قریب قریب گھل مل گئے ہیں۔ وہ بھی مذکورہ بالا قاعدے کے تحت ہی آ جاتے ہیں۔ جیسے سادہ سے سادی، تازہ سے تازی، دیوانہ سے دیوانی وغیرہ لیکن عمدہ سے عمدہ لکھنا غلط ہے۔

(3) بعض موقعوں پر صفات کی بھی تصغیر آتی ہے۔ جیسے چُھوٹے چُھٹکا وغیرہ۔

[TODO: Add Chart]

ضمیر : (ء) بروزن خمیر، بمعنی خاطر، وہ اسم اشارہ جو اسم کی جگہ آئے۔ جیسے وہ بڑا نیک دل ہے۔ یہاں وہ اسم کا کام دیتا ہے۔ اس کا خاص فائدہ یہ ہے جو اسم ایک دفعہ جملے میں آ جائے اس کو دوبارہ نہ لانا پڑے۔ کیونکہ تکرار سے بعض حالات میں کلام قبیح معلوم ہوتا ہے جیسے ہیڈ ماسٹر صاحب نے آج لڑکوں کو بلایا تھا مگر وہ کود نہیں آئے۔ اس کی جگہ ہیڈ ماسٹر خود نہیں آئے، کہنا مناسب نہیں اس لیے وہ کا استعمال کرنا پڑا۔ اور اسی کو ضمیر کہتے ہیں۔ اس کی پانچ قسمیں ہیں۔

شخصی، موصولہ، استفہامیہ، اشارہ، تنکیر، (۵)

نوٹ : ہم موصولہ، استفہامیہ اور اشارہ کا بیان اقسام اسم میں کر چکے ہیں۔ اس لئے ان کا مکرر ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ واقعہ بھی ہے کہ
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۸۵

ان کا تعلق اسم سے زیادہ قریب ہے لہذا یہاں صرف شخصی اور تنکیر کا بیان کیا جائے گا۔

ضمیر شخصی : اس ضمیر کا استعمال اشخاص کے لئے ہوتا ہے۔ اور اس کی تین صورتیں ہیں۔ متکلم، مخاطب اور غائب۔ اور چار حالتیں ہیں۔ فاعلی، مفعولی، اضافی، صفتی۔

مُتکلم : (ء) بروزن متواضع، بمعنی گفتگو کرنے والا۔ بصورت واحد، میں، اور جمع کے لیے ہم آتا ہے۔

مُخاطب : (ء) بروزن مبادا، بمعنی جس سے گفتگو کی جائے۔ بصورت واحد، وہ آتا ہے۔ پہلے جمع میں "وے" مستعمل تھا، مگر اب متروک ہے۔

اساتذہ وہ کو بھی جمع کے موقع پر لاتے ہیں۔ جیسے وہ آ گیا۔ اور و ہ آ گئے۔

غائب : (ء) بروزن نائب بمعنی پوشیدہ۔ جس کے بارے میں گفتگو کی جائے۔

بصورت واحد "تو" اور جمع کے لئے "تم" آتا ہے۔ جیسے تم سب کہاں تھے۔ تو کہاں تھا۔

نوٹ (1) : مذکور بالا صورتیں ان افعال متعدی کے لئے مستعمل ہیں۔ جن کے فاعل کے بعد ‘نے‘ نہیں آتا۔ اور جس کے ساتھ ‘نے‘ آتا ہے۔ تو غائب کے لئے اُس نے واحد میں اور اُنھوں نے جمع میں آئے گا۔

(2) جمع حاضر میں آپ، جناب، قبلہ، جیسے تعظیمی الفاظ بھی شمار ہوتے ہیں۔ "ان" بھی جمع میں آتا ہے مگر مقام تعظیم و ادب میں واحد کے لئے بھی لکھتے ہیں۔ جیسے اُن بزرگ نے مجھے پڑھایا تھا۔

(3) تمام افعال لازم جنس کے فاعل کے بعد نے نہیں آتا، نوٹ نمبر (1) کی صورت متصور ہو گی۔
 
Top