مبارکباد فہیم بتیس ہزاری

فہیم

لائبریرین
ایہو ای گل میں کرن لگا ساں۔۔۔ :)
خیر۔۔۔۔۔ مبارک ہو فہیم صاحب آپ کو بتیس ہزاریں :)
2008-8-3_201211_32000.gif
بہت شکریہ تجمل بھائی:)
 

فہیم

لائبریرین
ضرور فہیم، بسم اللہ
پوچھنا یہ تھا کہ
یہ "شیخ ابراہیم ذوق" کیسے شاعر تھے
سننا ہے بلکہ مرزا غالب مووی میں دیکھا ہے کہ وہ خود غرض ٹائپ بندے تھے
اور اپنی زندگی میں کبھی انہوں نے نہیں چاہا کہ مرزا غالب کوئی اچھا مقام حاصل کرسکیں۔
ان کی کاٹ میں ہی لگے رہے۔
تو بس یہی معلوم کرنا تھا کہ ایسا ہی ہے یا پھر وہ خود بھی کوئی بلند پایا شاعر تھے اور اچھے انسان تھے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پوچھنا یہ تھا کہ
یہ "شیخ ابراہیم ذوق" کیسے شاعر تھے
سننا ہے بلکہ مرزا غالب مووی میں دیکھا ہے کہ وہ خود غرض ٹائپ بندے تھے
اور اپنی زندگی میں کبھی انہوں نے نہیں چاہا کہ مرزا غالب کوئی اچھا مقام حاصل کرسکیں۔
ان کی کاٹ میں ہی لگے رہے۔
تو بس یہی معلوم کرنا تھا کہ ایسا ہی ہے یا پھر وہ خود بھی کوئی بلند پایا شاعر تھے اور اچھے انسان تھے۔
شاعر اچھے تھے، انسان بھی اچھے تھے۔ بالکل زیرو سے اوپر آئے تھے اور بادشاہ کے استاد بنے، غالب کے ساتھ کھٹ پٹ اس لیے تھی کہ غالب بھی خود پسند تھے اور شاہی دربار میں کسی سے کم رتبہ ان کو قبول نہ تھا جب کہ شاہ کے استاد ذوق پہلے ہی وہاں تھے، بلکہ اس وقت سے تھے جب شاہ، شاہزادہ تھا۔ سو ذوق نہ وہاں سے ہٹے نہ غالب کو وہاں آنے دیا سو دونوں ایک دوسرے پر چوٹیں کرتے رہے۔ ذوق کا انتقال ہوا تو غالب بادشاہ کے استاد بنے۔

شاعری میں ظاہر ہے ذوق کا وہ مقام نہیں جو غالب کا ہے۔ ذوق پر گو تھے، ایک ایک غزل تیس تیس چالیس چالیس پچاس پچاس اشعار کی ہے، ظاہر ہے اس صورت میں قافیہ پیمائی ہی ہوتی ہے اور یہی چیز غالب کو اچھی نہیں لگتی تھی۔

ذوق کے شاگرد، مولانا محمد حسین آزاد نے جہاں ذوق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے وہیں غالب کے طرف دار ذوق بیچارے کی مٹی پلید کرتے ہیں، جیسے مشہور ہندوستانی ڈرامے " مرزا غالب" میں کی گئی ہے۔ :)
 

فہیم

لائبریرین
شاعر اچھے تھے، انسان بھی اچھے تھے۔ بالکل زیرو سے اوپر آئے تھے اور بادشاہ کے استاد بنے، غالب کے ساتھ کھٹ پٹ اس لیے تھی کہ غالب بھی خود پسند تھے اور شاہی دربار میں کسی سے کم رتبہ ان کو قبول نہ تھا جب کہ شاہ کے استاد ذوق پہلے ہی وہاں تھے، بلکہ اس وقت سے تھے جب شاہ، شاہزادہ تھا۔ سو ذوق نہ وہاں سے ہٹے نہ غالب کو وہاں آنے دیا سو دونوں ایک دوسرے پر چوٹیں کرتے رہے۔ ذوق کا انتقال ہوا تو غالب بادشاہ کے استاد بنے۔

شاعری میں ظاہر ہے ذوق کا وہ مقام نہیں جو غالب کا ہے۔ ذوق پر گو تھے، ایک ایک غزل تیس تیس چالیس چالیس پچاس پچاس اشعار کی ہے، ظاہر ہے اس صورت میں قافیہ پیمائی ہی ہوتی ہے اور یہی چیز غالب کو اچھی نہیں لگتی تھی۔

ذوق کے شاگرد، مولانا محمد حسین آزاد نے جہاں ذوق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے وہیں غالب کے طرف دار ذوق بیچارے کی مٹی پلید کرتے ہیں، جیسے مشہور ہندوستانی ڈرامے "غالب" میں کی گئی ہے۔ :)
شکریہ وارث بھائی:)
یہی چیز تھوڑی سمجھ نہیں آئی تھی کہ مرزا غالب سیریل میں ذوق صاحب کو ایک ولن کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔
جبکہ نیٹ پر ان کے حوالے سے پڑھا جائے تو ایسا کچھ نہیں ملتا۔
 

یاز

محفلین
شاعر اچھے تھے، انسان بھی اچھے تھے۔ بالکل زیرو سے اوپر آئے تھے اور بادشاہ کے استاد بنے، غالب کے ساتھ کھٹ پٹ اس لیے تھی کہ غالب بھی خود پسند تھے اور شاہی دربار میں کسی سے کم رتبہ ان کو قبول نہ تھا جب کہ شاہ کے استاد ذوق پہلے ہی وہاں تھے، بلکہ اس وقت سے تھے جب شاہ، شاہزادہ تھا۔ سو ذوق نہ وہاں سے ہٹے نہ غالب کو وہاں آنے دیا سو دونوں ایک دوسرے پر چوٹیں کرتے رہے۔ ذوق کا انتقال ہوا تو غالب بادشاہ کے استاد بنے۔

شاعری میں ظاہر ہے ذوق کا وہ مقام نہیں جو غالب کا ہے۔ ذوق پر گو تھے، ایک ایک غزل تیس تیس چالیس چالیس پچاس پچاس اشعار کی ہے، ظاہر ہے اس صورت میں قافیہ پیمائی ہی ہوتی ہے اور یہی چیز غالب کو اچھی نہیں لگتی تھی۔

ذوق کے شاگرد، مولانا محمد حسین آزاد نے جہاں ذوق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے وہیں غالب کے طرف دار ذوق بیچارے کی مٹی پلید کرتے ہیں، جیسے مشہور ہندوستانی ڈرامے "غالب" میں کی گئی ہے۔ :)
کہیں پڑھا تھا کہ غالب نے درج ذیل شعر بھی ذوق صاحب پہ چوٹ کی خاطر کہا تھا، تاہم شعر کو قابلِ دست اندازیٔ پولیس وغیرہ سے بچانے کے لئے اپنا نام اس میں ڈال دیا

بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
 
کہیں پڑھا تھا کہ غالب نے درج ذیل شعر بھی ذوق صاحب پہ چوٹ کی خاطر کہا تھا، تاہم شعر کو قابلِ دست اندازیٔ پولیس وغیرہ سے بچانے کے لئے اپنا نام اس میں ڈال دیا

بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
یہ پورا واقعہ کچھ اس طرح ہے:

ابراھیم ذوق بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر تھے غالب اور ذوق ایک دوسرے کے رقیب تھے ایک دن ابراھیم ذوق اپنے ٹولے کے ساتھ گزر رہا تھا کہ غالب نے مصرعہ اچھالا

بنا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا

ابھی صرف یہ مصرعہ ہی اپنے رقیب کی شان میں عرض کیا تھا کہ بادشاہ کو خبر ہو گئ۔ دربار بلا کر پوچھا کہ آپ نے ہمارے استاد ابراھیم زوق کی شان میں گستاخی کی ہے- عقلمند آدمی تھے۔ کہنے لگے حضور یہ تو میری ایک تازہ غزل کے مقطع کا پہلا مصرعہ آپ تک پہنچایا گیا ہے ۔ بادشاہ نے پورا مقطع سنانے کا کہا تو غالب نے مقطع عرض کیا :

بنا ہے شہ کا مصاحب ، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

مقطع سن کر بادشاہ سمیت سب شعرا واہ واہ کر اٹھے اور پوری غزل سننے کی خواہش کی- غالب نے پوری غزل پیش کی غزل سن کر بادشاہ اور ذوق سمیت سمیت سب حاظرین غالب کی عظمت کے قائل ہو گئے
 

محمد وارث

لائبریرین
کہیں پڑھا تھا کہ غالب نے درج ذیل شعر بھی ذوق صاحب پہ چوٹ کی خاطر کہا تھا، تاہم شعر کو قابلِ دست اندازیٔ پولیس وغیرہ سے بچانے کے لئے اپنا نام اس میں ڈال دیا

بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
غالب کا یہ شعر بھی ذوق پر چوٹ ہے

پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے

اسی طرح فارسی کلام میں بھی ذوق پر کافی چوٹیں کی ہیں، ایک فارسی قطعہ ہے "خطاب بہ ذوق" اس میں تو بہت طعنے مارے ہیں، صاف صاف کہا ہے کہ جس بات پر تجھے فخر ہے (پُر گوئی یا زیادہ کلام) وہ میرے لیے ننگ ہے۔ کافی عرصے سے میرا ارادہ تھا اس کو ترجمہ کرنے کا، لیکن یہ بھی غرقِ مئے ناب ہو چکا شاید :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ذوق کو لمبی اور مشکل ردیفوں کا شوق بھی تھا۔
اصل میں ذوق کا اصل دیوان 1857ء میں تلف ہو گیا تھا، بلا مبالغہ صد ہزار ہا اشعار کا مجموعہ ہوگا۔ اب جو ذوق کا دیوان ملتا ہے وہ مختصر سا ہے اور مولانا محمد حسین آزاد کا مرتب کردہ ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ کلام آزاد نے یادداشت سے لکھا تھا اور کچھ کہہ بھی ڈالا تھا اور استاد ذوق کے نام لگا دیا۔ مولانا آزاد لاہور میں جس گھر میں رہتے تھے وہاں سے کچھ ایسے شواہد ملے تھے، واللہ اعلم بالصواب :)
 
Top