بہت شکریہ تجمل بھائیایہو ای گل میں کرن لگا ساں۔۔۔
خیر۔۔۔۔۔ مبارک ہو فہیم صاحب آپ کو بتیس ہزاریں
شکریہ فصیح بھائیلو جی، واقعی کئی دوست اکٹھے ہی حدف حاصل کرتے جا رہے ہیں! ہماری جانب سے بھی فہیم برادر کو منصبَ تیس ہزاری پر مبارک باد قبول ہو
ضرور فہیم، بسم اللہبہت شکریہ وارث بھائی
آپ سے ایک سوال بھی کرنا تھا اگر اجازت ہو تو
پوچھنا یہ تھا کہضرور فہیم، بسم اللہ
شاعر اچھے تھے، انسان بھی اچھے تھے۔ بالکل زیرو سے اوپر آئے تھے اور بادشاہ کے استاد بنے، غالب کے ساتھ کھٹ پٹ اس لیے تھی کہ غالب بھی خود پسند تھے اور شاہی دربار میں کسی سے کم رتبہ ان کو قبول نہ تھا جب کہ شاہ کے استاد ذوق پہلے ہی وہاں تھے، بلکہ اس وقت سے تھے جب شاہ، شاہزادہ تھا۔ سو ذوق نہ وہاں سے ہٹے نہ غالب کو وہاں آنے دیا سو دونوں ایک دوسرے پر چوٹیں کرتے رہے۔ ذوق کا انتقال ہوا تو غالب بادشاہ کے استاد بنے۔پوچھنا یہ تھا کہ
یہ "شیخ ابراہیم ذوق" کیسے شاعر تھے
سننا ہے بلکہ مرزا غالب مووی میں دیکھا ہے کہ وہ خود غرض ٹائپ بندے تھے
اور اپنی زندگی میں کبھی انہوں نے نہیں چاہا کہ مرزا غالب کوئی اچھا مقام حاصل کرسکیں۔
ان کی کاٹ میں ہی لگے رہے۔
تو بس یہی معلوم کرنا تھا کہ ایسا ہی ہے یا پھر وہ خود بھی کوئی بلند پایا شاعر تھے اور اچھے انسان تھے۔
شکریہ وارث بھائیشاعر اچھے تھے، انسان بھی اچھے تھے۔ بالکل زیرو سے اوپر آئے تھے اور بادشاہ کے استاد بنے، غالب کے ساتھ کھٹ پٹ اس لیے تھی کہ غالب بھی خود پسند تھے اور شاہی دربار میں کسی سے کم رتبہ ان کو قبول نہ تھا جب کہ شاہ کے استاد ذوق پہلے ہی وہاں تھے، بلکہ اس وقت سے تھے جب شاہ، شاہزادہ تھا۔ سو ذوق نہ وہاں سے ہٹے نہ غالب کو وہاں آنے دیا سو دونوں ایک دوسرے پر چوٹیں کرتے رہے۔ ذوق کا انتقال ہوا تو غالب بادشاہ کے استاد بنے۔
شاعری میں ظاہر ہے ذوق کا وہ مقام نہیں جو غالب کا ہے۔ ذوق پر گو تھے، ایک ایک غزل تیس تیس چالیس چالیس پچاس پچاس اشعار کی ہے، ظاہر ہے اس صورت میں قافیہ پیمائی ہی ہوتی ہے اور یہی چیز غالب کو اچھی نہیں لگتی تھی۔
ذوق کے شاگرد، مولانا محمد حسین آزاد نے جہاں ذوق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے وہیں غالب کے طرف دار ذوق بیچارے کی مٹی پلید کرتے ہیں، جیسے مشہور ہندوستانی ڈرامے "غالب" میں کی گئی ہے۔
کہیں پڑھا تھا کہ غالب نے درج ذیل شعر بھی ذوق صاحب پہ چوٹ کی خاطر کہا تھا، تاہم شعر کو قابلِ دست اندازیٔ پولیس وغیرہ سے بچانے کے لئے اپنا نام اس میں ڈال دیاشاعر اچھے تھے، انسان بھی اچھے تھے۔ بالکل زیرو سے اوپر آئے تھے اور بادشاہ کے استاد بنے، غالب کے ساتھ کھٹ پٹ اس لیے تھی کہ غالب بھی خود پسند تھے اور شاہی دربار میں کسی سے کم رتبہ ان کو قبول نہ تھا جب کہ شاہ کے استاد ذوق پہلے ہی وہاں تھے، بلکہ اس وقت سے تھے جب شاہ، شاہزادہ تھا۔ سو ذوق نہ وہاں سے ہٹے نہ غالب کو وہاں آنے دیا سو دونوں ایک دوسرے پر چوٹیں کرتے رہے۔ ذوق کا انتقال ہوا تو غالب بادشاہ کے استاد بنے۔
شاعری میں ظاہر ہے ذوق کا وہ مقام نہیں جو غالب کا ہے۔ ذوق پر گو تھے، ایک ایک غزل تیس تیس چالیس چالیس پچاس پچاس اشعار کی ہے، ظاہر ہے اس صورت میں قافیہ پیمائی ہی ہوتی ہے اور یہی چیز غالب کو اچھی نہیں لگتی تھی۔
ذوق کے شاگرد، مولانا محمد حسین آزاد نے جہاں ذوق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے وہیں غالب کے طرف دار ذوق بیچارے کی مٹی پلید کرتے ہیں، جیسے مشہور ہندوستانی ڈرامے "غالب" میں کی گئی ہے۔
یہ پورا واقعہ کچھ اس طرح ہے:کہیں پڑھا تھا کہ غالب نے درج ذیل شعر بھی ذوق صاحب پہ چوٹ کی خاطر کہا تھا، تاہم شعر کو قابلِ دست اندازیٔ پولیس وغیرہ سے بچانے کے لئے اپنا نام اس میں ڈال دیا
بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
اللہ آپ کو دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں شاندار کامیابیاں عطا کرے۔ آمین!بہت شکریہ جاسمن بہنا
اب تو خیال ہی نہیں رہتا کتنے مراسلے ہوگئے ورنہ ایک زمانے میں تو ہم ٹاپ 3 میں شامل تھے
غالب کا یہ شعر بھی ذوق پر چوٹ ہےکہیں پڑھا تھا کہ غالب نے درج ذیل شعر بھی ذوق صاحب پہ چوٹ کی خاطر کہا تھا، تاہم شعر کو قابلِ دست اندازیٔ پولیس وغیرہ سے بچانے کے لئے اپنا نام اس میں ڈال دیا
بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
پائین۔۔۔ 32 ہزار ہوئے جےلو جی، واقعی کئی دوست اکٹھے ہی حدف حاصل کرتے جا رہے ہیں! ہماری جانب سے بھی فہیم برادر کو منصبَ تیس ہزاری پر مبارک باد قبول ہو
اصل میں ذوق کا اصل دیوان 1857ء میں تلف ہو گیا تھا، بلا مبالغہ صد ہزار ہا اشعار کا مجموعہ ہوگا۔ اب جو ذوق کا دیوان ملتا ہے وہ مختصر سا ہے اور مولانا محمد حسین آزاد کا مرتب کردہ ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ کلام آزاد نے یادداشت سے لکھا تھا اور کچھ کہہ بھی ڈالا تھا اور استاد ذوق کے نام لگا دیا۔ مولانا آزاد لاہور میں جس گھر میں رہتے تھے وہاں سے کچھ ایسے شواہد ملے تھے، واللہ اعلم بالصوابذوق کو لمبی اور مشکل ردیفوں کا شوق بھی تھا۔
پائین۔۔۔ 32 ہزار ہوئے جے