Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
فيس بک ايشو - امريکی حکومت کا موقف
ميں يہ واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت کی پاليسی اور سوچ ايسے کسی بھی اقدام کے خلاف ہے جس کا مقصد دانستہ کسی بھی مذہب يا گروہ کے خلاف مذموم ارادے کے ساتھ نفرت کی تشہير کر کے تشدد کو ہوا دينا ہے۔ ايسے کسی قدم سے کوئ تعميری مقصد حاصل نہيں ہوتا بلکہ اس کے برعکس مختلف کميونٹی سے متعلق افراد کے مابين رائج خليج کو کم کرنے کے لیے بات چيت اور باہمی احترام کی بنياد پر کی جانے والی تعميری اور مثبت کوششوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
صدر اوبامہ نے قائرہ ميں اپنے خطاب کے دوران اپنے موقف کی وضاحت ان الفاظ کے ساتھ کی تھی
"امریکہ کے صدر کی حیثیت سے میں اسے اپنی ذمے داری سمجھتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں جہاں کہیں گھسے پٹے منفی خیالات پائے جاتے ہیں، ان کے خلاف جنگ کروں۔ مغربی ممالک کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ مسلمان شہریوں پر اپنی مرضی کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے سے روکنے سے گریز کریں ۔ سادہ الفاظ میں، ہم کسی مذہب کی طرف عناد کو ترقی پسندی کی آڑ میں نہیں چھپا سکتے۔"
اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک دشوار اور قابل توجہ ايشو ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ فيس بک پر جو خاکے شائع ہوئے ہيں وہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غير مسلموں کے جذبات بھی مجروح کرنے کا سبب بنے ہيں۔ ہم اس حوالے سے شديد تشويش رکھتے ہيں کہ دانستہ مسلمانوں يا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے جذبات کو ٹھيس پہنچائ جائے۔ ہم بھڑکانے والی ايسی کسی رائے کی حمايت نہيں کرتے جس کا مقصد نفرت اور تشدد کو فروغ دينا ہے۔
فيس بک کے جس صفحے نے اس ايشو کو شروع کيا ہے وہ ايک نجی ادارے کی ويب سائٹ پر پوسٹ کيا گيا ہے۔ اس وقت يہ فيس بک اور حکومت پاکستان کے درمیان ايک قانونی معاملہ ہے۔ ليکن اس سے قطع نظر ہم اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ شر انگيز خطاب يا رائے کا بہترين جواب ڈائيلاگ اور بحث ہے اور ہم ايسے اشارے ديکھ رہے ہيں کہ پاکستان ميں يہی رجحان فروغ پا رہا ہے۔ حکومتوں کی يہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آزادی رائے کے اظہار اور معلومات کی دستيابی کو يقينی بنائيں۔
عدم برداشت کا بہترين علاج قابل اعتراض مواد پر پابندی يا سزا نہيں بلکہ امتيازی سلوک اور نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف موثر قانونی تحفظ کو يقينی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اور اقليتی مذہبی گروہوں کے مابين روابط کو فروغ دینا بھی ضروری ہےتا کہ آزادی رائے کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کے تحفظ کو يقینی بنايا جا سکے۔
ہم پاکستانی قانون کے تحت ايسے کسی بھی عمل کا احترام کرتے ہيں جس کی بنياد لاکھوں افراد کے انٹرنيٹ کے ذريعے آزاد رائے کے حق اور معلومات تک آزاد رسائ کے حق کو پامال کيے بغير اپنے شہريوں کو قابل اعتراض مواد سے محفوظ رکھنا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
فيس بک ايشو - امريکی حکومت کا موقف
ميں يہ واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت کی پاليسی اور سوچ ايسے کسی بھی اقدام کے خلاف ہے جس کا مقصد دانستہ کسی بھی مذہب يا گروہ کے خلاف مذموم ارادے کے ساتھ نفرت کی تشہير کر کے تشدد کو ہوا دينا ہے۔ ايسے کسی قدم سے کوئ تعميری مقصد حاصل نہيں ہوتا بلکہ اس کے برعکس مختلف کميونٹی سے متعلق افراد کے مابين رائج خليج کو کم کرنے کے لیے بات چيت اور باہمی احترام کی بنياد پر کی جانے والی تعميری اور مثبت کوششوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
صدر اوبامہ نے قائرہ ميں اپنے خطاب کے دوران اپنے موقف کی وضاحت ان الفاظ کے ساتھ کی تھی
"امریکہ کے صدر کی حیثیت سے میں اسے اپنی ذمے داری سمجھتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں جہاں کہیں گھسے پٹے منفی خیالات پائے جاتے ہیں، ان کے خلاف جنگ کروں۔ مغربی ممالک کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ مسلمان شہریوں پر اپنی مرضی کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے سے روکنے سے گریز کریں ۔ سادہ الفاظ میں، ہم کسی مذہب کی طرف عناد کو ترقی پسندی کی آڑ میں نہیں چھپا سکتے۔"
اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک دشوار اور قابل توجہ ايشو ہے۔ يہ بھی ياد رہے کہ فيس بک پر جو خاکے شائع ہوئے ہيں وہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غير مسلموں کے جذبات بھی مجروح کرنے کا سبب بنے ہيں۔ ہم اس حوالے سے شديد تشويش رکھتے ہيں کہ دانستہ مسلمانوں يا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے جذبات کو ٹھيس پہنچائ جائے۔ ہم بھڑکانے والی ايسی کسی رائے کی حمايت نہيں کرتے جس کا مقصد نفرت اور تشدد کو فروغ دينا ہے۔
فيس بک کے جس صفحے نے اس ايشو کو شروع کيا ہے وہ ايک نجی ادارے کی ويب سائٹ پر پوسٹ کيا گيا ہے۔ اس وقت يہ فيس بک اور حکومت پاکستان کے درمیان ايک قانونی معاملہ ہے۔ ليکن اس سے قطع نظر ہم اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ شر انگيز خطاب يا رائے کا بہترين جواب ڈائيلاگ اور بحث ہے اور ہم ايسے اشارے ديکھ رہے ہيں کہ پاکستان ميں يہی رجحان فروغ پا رہا ہے۔ حکومتوں کی يہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آزادی رائے کے اظہار اور معلومات کی دستيابی کو يقينی بنائيں۔
عدم برداشت کا بہترين علاج قابل اعتراض مواد پر پابندی يا سزا نہيں بلکہ امتيازی سلوک اور نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف موثر قانونی تحفظ کو يقينی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اور اقليتی مذہبی گروہوں کے مابين روابط کو فروغ دینا بھی ضروری ہےتا کہ آزادی رائے کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کے تحفظ کو يقینی بنايا جا سکے۔
ہم پاکستانی قانون کے تحت ايسے کسی بھی عمل کا احترام کرتے ہيں جس کی بنياد لاکھوں افراد کے انٹرنيٹ کے ذريعے آزاد رائے کے حق اور معلومات تک آزاد رسائ کے حق کو پامال کيے بغير اپنے شہريوں کو قابل اعتراض مواد سے محفوظ رکھنا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov