فیض فیض احمد فیض

فر حان

محفلین
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

درد شب ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خوں دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
منصف ہو تو شر اٹھا کیوں نہیں دیتے

ہاں نکتہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرہ ساز صدا کیوں نہیں دیتے

پیمان جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے​
 

فر حان

محفلین
ہارٹ اٹیک

درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانہء تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کُھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ فاصلہء شوق کی تّیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی ، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
 

فر حان

محفلین
متفرق قطعات




نہ پوچھ جب سے ترا انتظار کتنا ہے
کہ جن دنوں سے مجھے ترا انتظار نہیں
ترا ہی عکس ہے ان اجنبی بہاروں میں
جو تیرے لب، ترے بازو، ترا کنارا نہیں

-----------

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بےوجہ قرار آجائے

-----------

دل رہین غمِ جہاں ہے آج
ہر نفس تشنہِ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفلِ ہستی
اے غمِ دوست ! تو کہاں ہے آج

-----------

یہ خوں کی مہک ہے کہ لبِ یار کی خوشبو
کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو
گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو

-----------

صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
ٹھہر ٹھہر کے ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساطِ محفل میں
کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشستِ درد کہاں​
 
Top