ایک بحث بڑے زور و شور سے مختلف پلیٹ فارم پر چھیڑی جاتی ہے جس میں قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ کو ایک سیکولر شخصیت اور نظریہ پاکستان کو سیکولرازم کی طرف راغب کرنے کے لئے اوچھے ترین ہتکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔
اس ضمن میں عام دیکھنے میں آیا ہے کہ مختلف افراد جن میں پاکستان کا روشن خیال طبقہ، اقلیتوں کے کچھ رہنماء خصوصاً ہندو رہنما اور چند عیسائیت کے علمبردار افراد اس بحث کو زور و شور سے چھیڑتے ہیں اور اس معاملہ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے کہ خدانخواستہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک ثابت کیا جائے۔
ایسے میں ضرورت تھی کہ اس امر کی تصیح کی جائے اور قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ کی شخصیت پر سیکولر ہونے کے بہتان کو لغو اور غلط ثابت کیا جائے اور یہ بات باور کروائی جائے کہ پاکستان دو قومی نظریہ پر معرض وجود میں آنے والا ایک اسلامی فلاحی مملکت تھا ہے اور رہے گا ان شاء اللہ اور اس درخت کی جڑیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسلام کی سرزمین میں پیوست رہیں گی ان شاء اللہ۔ اس تمام پروپیگنڈا کی نفی میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نور اللہ مرقدہ کی کتاب قائد اعظم، علامہ اقبال اور نظریہ پاکستان پڑھنے کے لائق ہے۔ یہ تحریر یا کالم الطاف حسین وڈیو کانفرنس میں کہی گئی اس بات کا جواب بھی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قائد اعظم نے کبھی بھی پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ نہیں کہا۔
صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں دو قومی نظریہ لاگو ہوتا ہے اور یہ کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہو گا کہ دین اسلام کا نظریہ بھی دو قوم نظریہ ہی ہے۔ عالم اسلام ایک قوم ہے اور غیر مسلم ایک الگ قوم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی تیسری قوم دین اسلام میں اور مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں وجود نہیں رکھتی اور یہی نظریہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کا باعث بنا اور اس دو قومی نظریہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کو روشناس کروانے والی شخصیت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ تھی اور یہی نظریہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ علیہ کو پاکستان کے خواب کی تعیبر حاصل کرنے کے لئے مسلسل ثابت قدم رکھے ہوئے تھا۔
21 اپریل 1938ء کو علامہ محمد اقبال کا انتقال ہوا۔ اس وقت کلکتہ میں فلسطین کے مسئلے پر غور کرنے کے لئے قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ کی صدارت میں بہت بڑا جلسہ ہو رہا تھا۔ اس جلسے کے بارے میں سٹار آف انڈیا کی 22 اپریل 1938ء کی یہ خبر ملاحظہ کیجئے:
مسئلہ فلسطین پر غور کرنے کے لئے 21 اپریل کو کلکتہ میں مسلمانوں کا ایک عظیم الشان جلسہ فٹ بال گراؤنٹ میں منعقد ہوا، لیکن یہ جلسہ علامہ اقبال کی وفات کے سوگ میں ایک تعزیتی جلسے میں تبدیل ہو گیا۔ اس کی صدارت مسٹر محمد علی جناح نے کی۔ مسٹر محمد علی جناح نے فرمایا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کی وفات کی افسوس ناک خبر نے دنیائے اسلام کو گہرے رنج اور افسوس میں مبتلاء کر دیا ہے۔ سر محمد اقبال بلاشبہ ایک عظیم شاعر، فلسفی اور ہمہ وقت صاحب بصیر انسان تھے۔ انہوں نے ملکی سیاست میں نمایاں حصہ لیا اور دنیائے اسلام کی علمی و ثقافتی تجدید میں اہم کردار ادا کیا۔ دنیائے ادب میں ان کی تحریر و تقریر کا جو حصہ ہے، وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
اب قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ کا آخری جملہ ملاحظہ کیجئے۔
وہ میرے ذاتی دوست، فلسفی اور رہنماء تھے۔ وہ میرے لئے تشویق، فیضان اور روحانی قوت کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔
1940ء میں اقبال ڈے منایا گیا اور اس میں قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا۔
اگر میں ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے حصول تک زندہ رہا اور اس وقت مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ میں اقبال کا کلام اور اس مسلم ریاست کی حکمرانی میں سے ایک کا انتخاب کر لوں تو میں اقبال کے کلام کو ترجیح دوں گا۔
اس ضمن میں یہ بات واضح رہے کہ علامہ محمد اقبال کا کلام سراسر اسلام، مسلمانوں، اسلامیات اور خودی کا درس دیتا ہے اور علامہ اقبال کے تمام تر کلام کا کوئی ایسا حصہ نہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے متعلق نہ ہو گویا ان چند اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ کسی صورت ایک سیکولر شخصیت نہیں تھے بلکہ وہ ایک مکمل، سچے پکے مسلمان اور ایک مکمل اسلامی سلطنت پر یقین رکھتے تھے۔
جہاں تک پاکستان کے خدانخواستہ سیکولر ملک ہونے کے پروپیگنڈا کا تعلق ہے، اس معاملے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ علیہ کے صرف چند اقوال بتانا چاہوں گا۔ 11 جنوری، 1938ء کو گیا ریلوے سٹیشن ﴿بہار﴾ پر ایک بہت بڑے مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے مسلم لیگ کا جھنڈہ لہرا کر فرمایا۔
آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشہ ہے۔ یہ جھنڈا در حقیقت اسلام کا جھنڈا ہے، کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ بہت سے لوگ بالخصوص ہمارے ہندو دوست ہمیں غلط سمجھے ہیں۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں، حالانہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔ درحقیقت اس مین وہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم ایک اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں، بلکہ ہماری اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی، عدل و مساوات اور اخوت ہے۔
اس کے بعد آپ 6 مارچ 1946ء کو فرماتے ہیں۔
ہمیں قران پاک، حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جن میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی ہے، اگر ہم ان کی صحیح تجرمانی کریں اور قراٰن پاک پر عمل پیرا ہوں۔
یہاں پر قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ علیہ کی تقاریر کی چند شہ سرخیاں پیش خدمت ہیں۔
6 جون 1938ء – مسلم لیگ کا جھنڈا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے۔
22 نومبر 1938ء – اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے۔
8 اپریل 1938ء – اسٹار آف انڈیا – ملت اسلامیہ عالمی ہے۔
7 اگست 1938ء – میں اول و آخر مسلمان ہوں۔
9 نومبر 1939ء – مغربی جمہوریت کے نقائص
14 نومبر 1939ء – انسان خلیفة اللہ ہے۔
ٹائمز آف لندن، 9 مارچ 1940ء – ہندو اور مسلمان دو جداگانہ قومیں ہیں۔
26 مارچ 1940ء – میرا پیغام قراٰن ہے۔
قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا صرف ایک جملہ ایسا ہے جسے سیکولر ذہن رکھنے والے دانشوروں، روشن خیالی کے حامل افراد اور ضمیر فروش افراد نے سیکولرزم کی بنیاد قرار دے لیا ہے، اور جسٹس منیر نے تو اس ایک جملے پر پوری کتاب لکھ دی ہے۔ حالاںکہ اس جملہ کا بھی 95 فیصد حصہ اسلامی ہے، صرف 5 فیصد ایسا ہے جس کی مختلف تعبیرات کی گئی ہیں اور اس سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا تھا۔
آپ آزاد ہیں، آپ کو اپنے معبودوں میں جانے کی اجازت ہے، پاکستان کی اس ریاست میں آپ کو اپنی مساجد یا کوئی بھی دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت ہے۔
اور یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کو غلط رنگ دیا گیا ہے، مذہبی آزادی سب کو ہوتی ہے لیکن حکم صرف اللہ تعالیٰ کا اور دین صرف اسلام ہی نافذ ہوتا ہے۔ سیکولر حلقہ اس بات کی جو تعبیر کر رہے تھے، قائد اعظم نے خود اس کی نفی کر دی تھی۔ چناچہ 25 جنوری 1947ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ نے دو ٹو انداذ میں فرمایا تھا۔
اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لئے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ انداذی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدون نہیں کیا جائے گا۔
قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ کے حوالے سے مزید جان لیجئے کہ ان کی وفات سے دو تین دن پہلے پروفیسر ڈاکٹر ریاض علی شاہ صاحب کی ان سے ملاقات ہوئی اور قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ نے ان سے فرمایا۔
تم جانتے ہو کہ جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے، تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔
ان تمام اقوال، حالات اور ادوار کی روشنی میں یہ بات تو مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ نہ تو قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ ایک سیکولر شخصیت تھے نہ ہی انہوں نے کبھی سیکولر پاکستان کی بات کی تھی۔ جس تقریر کے ایک حصہ کو بنیاد بنا کر سیکولر حلقہ پاکستان کو خداںخواستہ سیکولر ملک بنانے کی بات کرتے ہیں، خود قائد اعظم رحمہ اللہ علیہ نے ان کے اس پروپیگنڈا کی نہ صرف نفی کی بلکہ سیکولرازم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ حق ہے، سچ ہے اور رہے گا ان شاء اللہ، اور جو لوگ پاکستان کے درخت کو اپنی اصل زمین سے اکھاڑ کر سیکولرازم کی زمین میں بونا چاہتے ہیں، وہ ان شاء اللہ ہمیشہ کی طرح منہ کی کھائیں گے جیسا کہ تاریخ گواہ ہے جس نے پاکستان کے بارے میں برا سوچا یا عملی قدم لیا، اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس کو نیست و نابود کیا بلکہ نشان تک مٹا دیا۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کا، پاکستان کی عوام کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
پاکستان زندہ باد
پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ الا اللہ
اقتاباسات و حوالہ جات : علامہ اقبال، قائد اعظم اور نظریہ پاکستان از ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نور اللہ مرقدہ اور تنظیم اسلامی پاکستان۔
تحریر شیخ فہد۔