قائداعظم محمد علی جناح۔ بانی پاکستان

علما تو زرداری اور الطاف جیسے ناہنجاروں کی پارٹی کا بھی حصہ ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ آپ کیا مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کومولویوں کی کاوش قرار دینا چاہ رہی ہیں؟
حسان صاحب اگر مولویوں کا حصہ آج کی کسی پارٹی میں ہوتا تو خدا کی قسم آج پاکستان کی یہ حالت نا ہوتی۔
 

ظفری

لائبریرین
قائداعظم کے حوالے سے دھاگہ ہے تو میں ایک اور بات واضع کردوں کہ ایک دو قومی نظریہ ہےاور دوسرا نظریہِ پاکستان ۔ میرا خیال ہے ان دونوں میں لوگ تفریق نہیں کر پاتے اور اس کو ایک ہی نظریہ سمجھتے ہیں ۔ دو قومی نظریہ ایک تاریخی حقیقت بن کر سامنے آیا اور مسلمانوں نے اس کو بنیاد بنا کر تسلیم کیا اور پھر جہدجہد کر کے 1947 میں پاکستان حاصل کرلیا ۔

جبکہ ” نظریہ ِپاکستان ” بعد کی پیداوار ہے ۔ نظریہ پاکستان ، جسے اسلام کے مطابق کہا جاتا ہے ۔ بلکل غلط ہے ۔ بلکہ یہ اسلام کی ایک خاص Interpretation سے جُڑا ہوا ہے ۔ اور وہ ہے نظریہ اسلامی ریاست ۔ مسلمانوں کے ہاں ریاست مدینے میں وجود میں آگئی تھی ۔ اور اس ریاست میں سب کے حقوق مساوی تھے ۔ اور حقوق کی ان مساوات کی نوعیت یہود قبائل میں بھی یکساں تھی ۔ اور وہ ریاست بطور نظریہ نہیں تھی ۔ تیرہ سو سالوں میں مسلمانوں نے ہمیشہ ریاست بطور فلاحی ریاست پر زور دیا ۔ اور ہمارے جتنے بھی مفکرین گذرے ہیں وہ ایسی ہی ریاست پر زور دیتے رہے ہیں ۔ جس میں انسانیت کی فلاح مقصود ہو ۔ مگر بیسویں صدی میں ایسے نظریات کی بھرمار ہوگئی کہ ایسی ریاست پر زور دیا جانے لگا جو انسانیت کے بجائے نظریے کے حوالوں پر زور دیتیں ہوں ۔ اور یہ نظریات اسلام کی ایک Interpretation کے تحت وجود میں آئیں ۔ جس میں ایک نظریاتی گروہ نے انسان اور نظریہ کا مقابلہ پیدا رکھا ہے ۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا تھا کہ " کہ جاگیرداروں کو اپنی بقاء کی فکر لاحق ہوگئی تھی ۔ " اس مقصدکے لیئے ایک انجمنِ تحفظِ حقوقِ زمینداران بمطابق شرعیہ نامی ایک تنظیم بنی تھی ۔ جس کے صدر جناب نوابزادہ نصراللہ تھے ۔ اور اس وقت جاگیرداروں کے حقوق کے لیئے علماء سے کتابیں لکھوائیں گئیں تھیں ۔ اب مولوی نے وہاں مداخلت نہیں کی جہاں اقدار مجروع ہورہے تھے ۔ اگر ا سمیں جاگیرداری کے خلاف کوئی عمل ہورہا تھا تو اس میں کہاں سے دینی اقدار مجروع ہورہے تھے ۔
" ریاست بطور نظریہ " اسلام میں کبھی معترف نہیں ہوئی ۔ ریاست بطور نظریہ اس بیسویں صدی کا واقعہ ہے ۔ اس سے پہلے شاہ ولی اللہ (رح ) ، امام غزالی ( رح ) ، ابنِ خلدون جیسے مفکرین اور عالموں کے ہاں ریاست بطور نظریہ کا تصور نہیں ملتا ۔ شاید میری اس بات سے کئی ذہنوں میں یہ سوالات اٹھتے ہوں کہ قرآن کے بہت سے احکامات ہیں جو اجتماعیت سے ہیں ۔ ریاست سے ہیں ۔ اگر ریاست کا کوئی وجود لانا مطلوب نہیں ہے تو ان احکامات کا اطلاق کہاں ہوگا ۔ ؟
اس بات کو اس پہلو سے دیکھیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو اس وقت دنیا میں دو ابرہیمی مذہب پہلے ہی سے موجود تھے ۔ ایک یہود اور دوسرا نصاریٰ مذہب ۔ یہودی کی Perception یہ تھی کہ ریاست ایک مذہب ہے ۔ اور جبکہ نصاریٰ کی Perception یہ تھی کہ مذہب ایک گرجا ہے ۔ مگر رسول اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسلم معاشرہ تشکیل دیا ۔۔ جو ریاست مسلمانوں نے قائم کی اس میں انسانی حوالوں کو ہمیشہ سامنے رکھا گیا ۔ ریاست کو کلمہ پڑھانے کی پہلے کبھی بات نہیں کی گئی اور ایک خاص بات کہ جب ہم آئیڈیالوجی کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں ہمیشہ مغرب ہی ہوتا ہے ۔ اور مغرب ہمیشہ تنہائی کامعاشرہ رہا ہے ۔ مغرب نے اب جاکر جنگِ دوم کے بعد اپنا عیسائی اور یہودی مسئلہ حل کیا ہے ۔ وہ کسی دوسرے کو قبول نہیں کرتے اور زبان پر لڑجاتے تھے ۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انہوں نے اسی بنیاد پر بےتحاشہ جنگیں آپس میں لڑیں ہیں ۔ جب ہم نظریاتی بنیاد پر کسی معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں تو وہ فرد کے ارتقاء میں ایک رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ جبکہ مسلمانوں کا معاشرہ ہمیشہ قابلِ تسخیر رہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
واہ بھئی اب تو قائداعظم کو بھی مولوی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جب پاکستان بنایا تھا تو یہی مولوی ان کو کافر اعظم کہتے تھے۔
میرا خیال ہے اس بات کی تصدیق کے لیئے محمود احمد غزنوی بھائی نے ایک بڑےعالم کی کتاب کا ایک اسکین شدہ حصہ یہاں شئیر کیا ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
ایک نا ؟ ایک کی بات پر سب کو مطعون ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے ؟
چلیں ۔۔۔ آپ کی معلومات میں اضافہ تو ہوا ۔ اب آپ یہ نہ کہیئے گا کہ آپ ریٹنگ کے معاملے میں حساس ہیں ۔
نامتفق آپ میری اگلی پوسٹ سے ہوئیں ۔ امید ہے اس پر آپ سے کسی مفید معلومات کا تبادلہ ہو جائیگا ۔
اور ہاں آپ نے میری ایک پوسٹ پر غلطی سے متفق ہونے کا بٹن دبادیا ہے ۔ ذرا اس کی تدوین کرلجیئے گا ۔ ;)
 
قائداعظم کے حوالے سے دھاگہ ہے تو میں ایک اور بات واضع کردوں کہ ایک دو قومی نظریہ ہےاور دوسرا نظریہِ پاکستان ۔ میرا خیال ہے ان دونوں میں لوگ تفریق نہیں کر پاتے اور اس کو ایک ہی نظریہ سمجھتے ہیں ۔ دو قومی نظریہ ایک تاریخی حقیقت بن کر سامنے آیا اور مسلمانوں نے اس کو بنیاد بنا کر تسلیم کیا اور پھر جہدجہد کر کے 1947 میں پاکستان حاصل کرلیا ۔

جبکہ ” نظریہ ِپاکستان ” بعد کی پیداوار ہے ۔ نظریہ پاکستان ، جسے اسلام کے مطابق کہا جاتا ہے ۔ بلکل غلط ہے ۔ بلکہ یہ اسلام کی ایک خاص Interpretation سے جُڑا ہوا ہے ۔ اور وہ ہے نظریہ اسلامی ریاست ۔ مسلمانوں کے ہاں ریاست مدینے میں وجود میں آگئی تھی ۔ اور اس ریاست میں سب کے حقوق مساوی تھے ۔ اور حقوق کی ان مساوات کی نوعیت یہود قبائل میں بھی یکساں تھی ۔ اور وہ ریاست بطور نظریہ نہیں تھی ۔ تیرہ سو سالوں میں مسلمانوں نے ہمیشہ ریاست بطور فلاحی ریاست پر زور دیا ۔ اور ہمارے جتنے بھی مفکرین گذرے ہیں وہ ایسی ہی ریاست پر زور دیتے رہے ہیں ۔ جس میں انسانیت کی فلاح مقصود ہو ۔ مگر بیسویں صدی میں ایسے نظریات کی بھرمار ہوگئی کہ ایسی ریاست پر زور دیا جانے لگا جو انسانیت کے بجائے نظریے کے حوالوں پر زور دیتیں ہوں ۔ اور یہ نظریات اسلام کی ایک Interpretation کے تحت وجود میں آئیں ۔ جس میں ایک نظریاتی گروہ نے انسان اور نظریہ کا مقابلہ پیدا رکھا ہے ۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا تھا کہ " کہ جاگیرداروں کو اپنی بقاء کی فکر لاحق ہوگئی تھی ۔ " اس مقصدکے لیئے ایک انجمنِ تحفظِ حقوقِ زمینداران بمطابق شرعیہ نامی ایک تنظیم بنی تھی ۔ جس کے صدر جناب نوابزادہ نصراللہ تھے ۔ اور اس وقت جاگیرداروں کے حقوق کے لیئے علماء سے کتابیں لکھوائیں گئیں تھیں ۔ اب مولوی نے وہاں مداخلت نہیں کی جہاں اقدار مجروع ہورہے تھے ۔ اگر ا سمیں جاگیرداری کے خلاف کوئی عمل ہورہا تھا تو اس میں کہاں سے دینی اقدار مجروع ہورہے تھے ۔
" ریاست بطور نظریہ " اسلام میں کبھی معترف نہیں ہوئی ۔ ریاست بطور نظریہ اس بیسویں صدی کا واقعہ ہے ۔ اس سے پہلے شاہ ولی اللہ (رح ) ، امام غزالی ( رح ) ، ابنِ خلدون جیسے مفکرین اور عالموں کے ہاں ریاست بطور نظریہ کا تصور نہیں ملتا ۔ شاید میری اس بات سے کئی ذہنوں میں یہ سوالات اٹھتے ہوں کہ قرآن کے بہت سے احکامات ہیں جو اجتماعیت سے ہیں ۔ ریاست سے ہیں ۔ اگر ریاست کا کوئی وجود لانا مطلوب نہیں ہے تو ان احکامات کا اطلاق کہاں ہوگا ۔ ؟
اس بات کو اس پہلو سے دیکھیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو اس وقت دنیا میں دو ابرہیمی مذہب پہلے ہی سے موجود تھے ۔ ایک یہود اور دوسرا نصاریٰ مذہب ۔ یہودی کی Perception یہ تھی کہ ریاست ایک مذہب ہے ۔ اور جبکہ نصاریٰ کی Perception یہ تھی کہ مذہب ایک گرجا ہے ۔ مگر رسول اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسلم معاشرہ تشکیل دیا ۔۔ جو ریاست مسلمانوں نے قائم کی اس میں انسانی حوالوں کو ہمیشہ سامنے رکھا گیا ۔ ریاست کو کلمہ پڑھانے کی پہلے کبھی بات نہیں کی گئی اور ایک خاص بات کہ جب ہم آئیڈیالوجی کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں ہمیشہ مغرب ہی ہوتا ہے ۔ اور مغرب ہمیشہ تنہائی کامعاشرہ رہا ہے ۔ مغرب نے اب جاکر جنگِ دوم کے بعد اپنا عیسائی اور یہودی مسئلہ حل کیا ہے ۔ وہ کسی دوسرے کو قبول نہیں کرتے اور زبان پر لڑجاتے تھے ۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انہوں نے اسی بنیاد پر بےتحاشہ جنگیں آپس میں لڑیں ہیں ۔ جب ہم نظریاتی بنیاد پر کسی معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں تو وہ فرد کے ارتقاء میں ایک رکاوٹ بن جاتی ہے ۔ جبکہ مسلمانوں کا معاشرہ ہمیشہ قابلِ تسخیر رہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

اس معاشرے کی بنیاد کیا تھی؟ اور قائداعظم کے دو قومی نظریہ کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ روشنی ڈالیں گے! اور جب 400 صدی پہلے ایک نبی مبعوث فرمایا گیا اس وقت کتنی ضرورت تھی؟ اور جب قائداعظم نے دو قومی نظریہ پہ پاکستان حاصل کیا اس وقت کیا ضرورت تھی؟ ان دونوں ضرورتوں پہ بحث فرمادیں۔ آپ کے اتنے لمبے تبصرے کی وضاحت ہو جائے گی۔
 

ظفری

لائبریرین
اس معاشرے کی بنیاد کیا تھی؟ اور قائداعظم کے دو قومی نظریہ کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ روشنی ڈالیں گے! اور جب 400 صدی پہلے ایک نبی مبعوث فرمایا گیا اس وقت کتنی ضرورت تھی؟ اور جب قائداعظم نے دو قومی نظریہ پہ پاکستان حاصل کیا اس وقت کیا ضرورت تھی؟ ان دونوں ضرورتوں پہ بحث فرمادیں۔ آپ کے اتنے لمبے تبصرے کی وضاحت ہو جائے گی۔

بات یہ کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ اور 1400 سال پہلے اس نظریئے کی افادیت کا کوئی باہمی تعلق نہیں بنتا ۔ پہلے اپنے سوال کو صحیح طور پر خود ہی سمجھو ۔ پھر اس کو آگے بڑھاؤ ۔ دونوں میں نظریہ کے حوالے سے زمین اور آسمان کو فرق ہے ۔
 
بات یہ کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ اور 1400 سال پہلے اس نظریئے کی افادیت کا کوئی باہمی تعلق نہیں بنتا ۔ پہلے اپنے سوال کو صحیح طور پر خود ہی سمجھو ۔ پھر اس کو آگے بڑھاؤ ۔ دونوں میں نظریہ کے حوالے سے زمین اور آسمان کو فرق ہے ۔
فرق ہے مانتا ہوں ۔ مگر آپ کی بات کہ تعلق نہیں بنتا تو یہ سراسر غلط ہے۔ وہ تو ایک صدی پہلے اس نظریے کے حق کیلیے لڑنا شروع ہو گئے تھے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ تعلق نہیں بنتا تو آپ نے وہ ویڈیو تو دیکھی ہوگی۔ جو انڈیا میں ایک ھندو نے مسلمان کو قربانی کرنے کی سزا میں بنائی تھی۔ اگر اس کے بعد بھی آپ کہتے ہیں کہ اس نظریے اور 1400 سال پہلے کے نظریے میں باہمی تعلق نہیں تو پھر ہمارے اج کل کے بزرگوں کا اللہ حافظ۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
فرموداتِ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ
Q001_thumb%5B15%5D.jpg
آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں قائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا :-​
" مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا "​
6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا:-
" وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت "

قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:-
" قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں "

10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا :-
" ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی"

1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
" وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"

2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا :-
" اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے "

14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"

13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:-
" ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں"

یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :-
" میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے "


مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسی خطاب میں آپ نے فرمایا:-
" اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نطام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے"

25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی"

آخر میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا :-
" میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا "

یہ متن کتاب بعنوان "پاکستان بنانے کا مقصد ( افکار اقبال و قائد اعظم کی روشنی میں)" از حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری سے لیا گیا
 

سید ذیشان

محفلین
میں نے قاوس جی کا ارٹیکل ڈان اخبار میں دیکھا تھا کچھ عرصہ پہلے۔ اس میں قائداعظم کی کچھ تقاریر اور خطابات ہیں جن کے حوالے بھی درج ہیں، وہ میں یہاں پیسٹ کر رہا ہوں۔

Jinnah’s Pakistan?
THE following excerpts beg comments from all those who have been or are now occupying the power seats of the Islamic Republic of Pakistan.
From Mohammad Ali Jinnah`s presidential address at the All-India Muslim League session in Delhi in April 1943: “The minorities are entitled to get a definite assurance or to ask: `Where do we stand in the Pakistan that you visualise?` That is an issue of giving a definite and clear assurance to the minorities. We have done it. We have passed a resolution that the minorities must be protected and safeguarded to the fullest extent, and as I said before, any civilised government will do it and ought to do it. So far as we are concerned, our own history and our prophet have given the clearest proof that non-Muslims have been treated not only justly and fairly but generously.” (Rizwan Ahmed, ed., Sayings of Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah , Karachi: Pakistan Movement Center, 1986, p. 30.)
While discussing Pakistan in an interview given to a representative of the Associated Press of America on November 8, 1946: “Hindu minorities in Pakistan can rest assured that their rights will be protected. No civilised government can be run successfully without giving minorities a complete sense of security and confidence. They must be made to feel that they have a hand in government and to this end must have adequate representation in it. Pakistan will give it.”
(Ahmed, Sayings , p. 65.)
In Jinnah`s interview given to a Reuters correspondent on May 21, 1947, he assured the minorities of Pakistan “that they will be protected and safeguarded. For they will be so many citizens of Pakistan without any distinction of caste or creed.” He had no doubt in his mind that they “will be treated justly and fairly and the collective conscience of parliament itself will be a guarantee that the minorities need not have any apprehension of any injustice being done to them.”
(Sailesh Bandopadhaya, Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah and the Creation of Pakistan , New Delhi: Sterling Publishers, 1991, p. 326.)
From Jinnah`s address to the Constituent Assembly on August 11, 1947: “We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community — because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on — will vanish. Indeed if you ask me, this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free people long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls, in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this state of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed, that has got nothing to do with the business of the state…. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one state. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country, and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the nation. Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the state.” ( Dawn , Independence Day Supplement, August 14, 1999.)
Jinnah`s interview with a Reuter`s correspondent on October 25, 1947: “Every citizen is expected to be loyal to the state and to owe allegiance to it. The arm of the law should be strong enough to deal with any person or section or body or people that is disloyal to the state. We do not, however, prescribe any schoolboy tests of their loyalty. We shall not say to any Hindu citizen of Pakistan: if there is war would you shoot a Hindu?” (Ahmed, Sayings , p. 42.)
Jinnah`s broadcast to the people of Australia on February 19, 1948: “The great majority of us are … members of the Muslim brotherhood of Islam in which we are equal in right, dignity and self respect. Consequently we have a special and a very deep sense of unity. But make no mistake: Pakistan is not a theocracy or anything like it. Islam demands from us the tolerance of other creeds and we welcome in closest association with us all those who, of whatever creed, are themselves willing and ready to play their part as true and loyal citizens of Pakistan.” (Ahmed, Sayings , p. 69.)
 

arifkarim

معطل
شکریہ۔ زیش۔ ان اقتباسات سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کوئی ملائیت پر مبنی ملک تھا اور نہ کبھی ہوگا! قائد اعظم کا اسیکولر پاکستان زندہ باد!
 

x boy

محفلین
آئی لو قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ
اللہ جنت الفردوس میں جگہہ دے، آمین
 
Top