تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مشرق میں مسلمانوں کو سائنس اور طبیعیات کے نام پر دین سے دور کرنے والے یہی قادیانی، احمدی فرقہ پرست (ظاہراً سیکولر) اور مغرب میں یہودیت کے پیروکارکبھی اپنے ”مذہب“ سے بیگانہ تک نہیں ہوتے۔ ملحد ہونا دور کی بات!
بڑی گہری نظر ہے محفل پر۔آپکو کئی قادیانیت سے ملحد ہونے والوں کے نام بتا سکتا ہوں۔ ایک دو تو شاید محفل پر ہی موجود ہوں۔
بڑی گہری نظر ہے محفل پر۔
وہ میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ اگلی آئی ڈی کس نام سے بنائیں گے؟آپکو کئی قادیانیت سے ملحد ہونے والوں کے نام بتا سکتا ہوں۔ ایک دو تو شاید محفل پر ہی موجود ہوں۔
اس مطالبے سے اختلاف ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں ریاست سے ہے۔ یہ مطالبہ احمدیوں کو مسلم یا غیرمسلم ماننے سے کافی مختلف ہے۔پچاس کی دہائی کے اوائل میں علمائے کرام کا یہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو اعلیٰ سرکاری عہدوں سے ہٹایا جائے اور وزیرخارجہ ظفر اللہ خان کو عہدے سے ہٹایا جائے کیونکہ وہ قادیانیوں کے خفیہ مقاصد کے نگہبان بنے ہوئے ہیں۔ ان مطالبات کے لیے اس وقت کے علمائے کرام نے مختلف جواز پیش کیےجن سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
فلکیات کے فیلڈ میں زبردست انسان تھا۔منصور الخازنی
اس کے پاکستانی ہونے کا کیا ثبوت ہے
اس کے مسلمان ہونے اور اسلام کی خدمات بھی بیان کی جائیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی بیان کیا جائے کہ اس نے کس کس دھرنے میں خادم رضوی جیسے بدتمیز آدمی (اگر آدمی کہا جائے)کا ساتھ دیا۔
نام تبدیل دو وجوہات پر ہوا ہے۔ ایک اسلام اور دوسرے پاکستانی۔ اس لئے منصور الخازنی کو بھی اسی بنیاد پر پرکھنا پڑے گا۔
میرے خیال میں قادیانی مسلمان نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ قادیانی پاکستانی ہیں۔ جیسے الف نظامی اور میں ہیں۔
یہ کیا چکر ہے؟خیر مبارک۔
برسبیلِ تذکرہ کسی روز کھا پی کے کی بائیولوجی یا سائنس کے مسلمان ہونے پہ بھی روشنی ڈالیں، جس میں ڈارون وغیرہ کا ارتداد کیا گیا ہے۔
انڈین اور پاکستانی مکمل طور پر ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیںیہی کچھ انڈیا میں ہو رہا ہے۔ وہاں علی گڑھ یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر پر دنگے ہو رہے ہیں!
عارف کریم ، سین کاف ، شاہد شاہ کے بعد جوزف جیکب ہی متوقع ہے۔وہ میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ اگلی آئی ڈی کس نام سے بنائیں گے؟
قادیانیوں اور اسلام سے مرتد ہونے والے مسلمانوں میں ایک بہت واضح فرق ہے۔ قادیانی ملحد، اپنا مذہب چھوڑنے کے بعد قادیانیوں کے لیے وہی ہمدردی رکھتا ہے جو قادنیت کے وقت ہوتاہے۔ اسی نرم گوشے کی وجہ سے وہ قادیانیوں کو الحاد پر مائل کرنے میں کبھی اسی طرح دلچسپی نہیں لیتا جو مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے میں لیتاہے۔ جب کہ اسلام سے مرتد ہونے والے کے دِل میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی جب کہ قادیانیوں کے برخلاف اس کا باقی ماندہ وقت انہیں کوششوں میں گزرتا ہے کہ مسلمانوں کو ارتداد اور الحاد کی جانب کیسے مائل کیا جائے۔ جائزہ لینے اور غورکرنے کے بعد آگاہ کیجیے۔آپکو کئی قادیانیت سے ملحد ہونے والوں کے نام بتا سکتا ہوں۔ ایک دو تو شاید محفل پر ہی موجود ہوں۔ قادیانیت میں مسلمانوں والا کٹر پن نہیں ہوتا۔ جسکو جانا ہے جائے جو چاہے دین اختیار کر لے یا دین مکمل چھوڑ دے۔ جبکہ مسلمانوں میں اسلام کو چھوڑنے کی سزا موت کے خوف سے چھوڑنا آسان نہیں ہوتا
قدیر صاحب نے قوم کو آغا وقار کا تحفہ بھی تو دیا تھا۔
آغا وقار کو صرف رواں ”انڈسٹریز“ میں جس سے کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا، نقب لگانے پر دگرگوں کیا گیا ورنہ اس کے کام سے فائدہ لیا جاسکتاتھا۔ یورپی سوسائٹیوں میں ضم ہونے والے ”پاکستانی“ پروفیسرز کیوں کر اس طرح کے اقدام کو سپورٹ کرسکتے ہیں۔ مجھے اعلیٰ اذہان کے اس طرح کے ”دیسی“ رویے کی قطعاً امید نہیں تھی۔ اے آر وائی پر اس حوالے سے آخری پروگرام اقرارالحسن نے اسی فیلڈ میں سرگرم ماہر کے سامنے آغا وقار سے عملی مظاہرہ کیا تھا جس پر وہ کافی متاثر ہوا، اور اسے اتنے ہائی پرسنٹیج پر مبارک باد بھی دی تھی۔ آغا قار نے ابتدا میں کاروباری راز سمجھ کر پورے عمل کو چھپانے کی کوشش کی جس پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور یورپی سوسائٹیوں کے ملکی ماہرین ناراض ہوگئے۔یاز ایک ماہر طبیعات سے اس قسم کی توقع نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے جس دن انہوں نے آغا وقار کی گاڑی کو سائنسی قرار دیا اس دن انکی طبیعت خراب ہو
ڈاکٹر عبدالقدیر نے کروڑوں لوگوں کو بچا کر جو ”گناہِ کبیرہ“ کیا تھا، وہ واقعی عبدالسلام کے ”انسانیت دوست“ تھیوری کا مقابل نہیں ہوسکتاتھا۔ جب کہ وہ کٹر مسلمان بھی تھا بیچارہ۔ جسے مظلومیت کی شکار اقلیت ”قادیانی“ جنرل پرویز مشرف نے نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی۔کسی سائنسدان کی عظمت کا تعلق اسکی قابلیت سے ہے، اسکے دین یا مذہب سے نہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کی قابلیت ڈاکٹر قدیر سے کہیں زیادہ تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں نام ہے۔ ڈاکٹر قدیر کو پاکستان کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ یہی قابل اور مذہبی سائنسدان کا فرق ہے
فرق پڑتا ہے۔ یہ ادارہ فوج کی نگرانی میں کام کر رہا ہے جس کے سربراہ قمر باجوہ ہیں۔ ان کے بارہ میں مشہور ہے کہ یہ خود یا انکا خاندان قادیانی ہے۔ اسلیے ان سے پنگا لینے کیلئے یہ ڈرامہ کیا گیا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر عبدالسلام نام کی منظوری خود نا اہل پانامہ شریف نے دو سال قبل اپنے مبارک ہاتھوں سے دی تھی
اسلام پسندوں کو خوش کرنے کیلئے قادیانیوں کی قربانی دینا بہت معمولی سی بات ہی۔ بھارت میں یہی کام مسلمان اقلیتوں کیساتھ ہوتا۔ ادھر پاکستان میں قادیانی اقلیت کیساتھ۔ لیکن دعوی ہے کہ پاکستان بھارت سے بہتر ہے
اب صبر کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ان متعصبانہ قومی رویوں کی وجہ سے زیادہ تر قادیانی ملک چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
آستین کے سانپ کو کون پالتاہے؟یہ سارا معاملہ ۱۹۵۳ میں شروع ہوا تھا، جب پاکستان کی پہلی وزارت خارجہ کی پوسٹ پہ میرٹ پر بھرتی ایک قادیانی ظفراللہ خان کو غیر جمہوری انداز سے ہٹانے کی علما کرام نے دنگا فساد کیا تھا۔ اگر اسوقت اس منافقانہ اور غیر جمہوری طرز عمل پر عوام کھڑی ہوتی آج ہم اس قسم کے واقعات پر طویل بحث و مباحثہ نہ کر رہے ہوتے۔
اب محمد تابش صدیقی بھائی کہیں گے یہاں پھر ۱۹۵۳ کو فٹ کر دیا۔ مگر بات تو درست ہے کہ قادیانیوں کیخلاف تعصب کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔
قادیانیوں/احمدیوں کے لیے سب سے بڑی بدبختی یہی ہے کہ اپنے مذہب کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں میں گھسنے کے لیے بے تاب ہے۔ہم تو بس اتنا ہی کہیں گے کہ ہماری بدبختیوں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ نفرت کی آگ ہمیں جلا کر رہے گی۔
یہ تھیلی امریکیوں کے یورپی آباؤ اجداد کی بنائی اور درآمد شدہ تھی۔ اس سے بڑھ کر اور کیا کہا جاسکتاہے۔انڈین اور پاکستانی مکمل طور پر ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں
ذیلی روابط ملاحظہ کیجئےیہ کیا چکر ہے؟
جس پر اس جماعت کے پیروکاروں کو کافی تکلیف ہے۔
گھس بیٹھیا سے کیا مراد ہے؟ کیا قادیانی پاکستانی شہری نہیں ہیں؟ آپ لوگوں نے اینٹی قادیانی تحریک اس بنیاد پر شروع کی تھی کہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ جسے خود بانی پاکستان نے اس پوسٹ پر لگایا تھا کو قادیانی ہونے کی بنیاد پر ہٹاؤ۔ جب اس غیر جمہوری اور آئینی مطالبہ پر دال نہیں گلی تو تمام قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کیلئے تحریک کا رخ موڑ دیا۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جب تمام قادیانی غیر مسلم ہو جائیں گے تو انکو ملک دشمن قرار دیکر بڑی آسامیوں پر سے انکو ہٹانا زیادہ آسان ہوگا۔منافقت کی اس سے زیادہ مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہی ”اقلیتی“ طبقہ پاکستان میں ہر سرکاری ڈیپارٹ میں گھس بیٹھیا بن کر اسلام کا لبادہ اوڑھے مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔ فوج کا ہر دوسرا تیسرا جنرل قادیانی یا قادیانیوں کا داماد نکلتا ہے۔ مشرف کے بعد یہ شرح اور بھی بڑھے گی۔ پھر بھی میڈیا کے ذریعے (یہ بھی اِن سے بھرا پڑا ہے) واویلا مچائے رکھا ہوا ہے۔
۔