محمداحمد
لائبریرین
میرا کہنا یہ ہے کہ یہ مقولہ اجتماعی سوچ کا عکاس نہیں۔
آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آہستہ آہستہ یہ اکثریت کی سوچ ہو ہی گئی ہے۔
میرا کہنا یہ ہے کہ یہ مقولہ اجتماعی سوچ کا عکاس نہیں۔
یہی تو بات ہے کسی ایک کوئی قربانی تو دینی پڑتی ہے ورنہ سارے چوپو۔ٹھیک۔۔۔ ۔! لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے والا ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔
اکثریت کی سوچ اس لیے ہوئی ہے کیونکہ یہ انصاف کا تیز ترین ذریعہ ہے۔وگرنہ آپ کیا کرسکتے جج کے خلاف؟آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آہستہ آہستہ یہ اکثریت کی سوچ ہو ہی گئی ہے۔
اکثریت کی سوچ اس لیے ہوئی ہے کیونکہ یہ انصاف کا تیز ترین ذریعہ ہے۔وگرنہ آپ کیا کرسکتے جج کے خلاف؟
یہ باتیں کہنے میں بہت آسان ہیں۔ کرنے میں نہیں۔ انسان چاہے کتنا بھی مشکلات میں گھرا ہو زندگی سب کو پیاری ہوتی ہے۔ اور ایک بندے کو قتل کرنے سے کیا فرق پڑ جائے گا؟ تھانیدار، جج، منسٹر، کرنل، جنرل۔ کس کس سے لڑے گا وہ؟ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کریں اور سب مل کر کوشش کریں۔یہی تو بات ہے کسی ایک کوئی قربانی تو دینی پڑتی ہے ورنہ سارے چوپو۔
وطنِ عزیز کی بہتری کے لیے جو کام آپ کے بس میں ہے وہ کیجیے اور جو بس میں نہیں اس کا رونا رونے سے بہتر ہے کہ اپنے حصہ کی شمع جلائیں۔
ہمارے مسائل اچھی باتیں نہ کہنے کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ اچھی باتوں پر عمل نہ کرنے سے جنم لیتے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو جہاد بالنفس جہاد بالسیف سے افضل کیوں ہے؟ یہ سوال صرف سوچنے کے لئے ہے۔ مذہبی بحث شروع کرنے کا ارادہ نہیں۔عمل کا ایک ذرہ سو ٹن وعظ پر بھاری ہوتا ہے۔( ہارون رشید کالم نگار)
نہ کہہ ، کر کے دکھا۔ ( ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ )